شام پرشامِ الم کےمہیب سائےاورمسلم دنیا۔۔۔!

المیہ یہ ہےکہ سرزمینِ انبیاءعلیہم السلام”شام”خداکےدشمن اورخدا
کےپیغمبروں کےدشمن نہیں بلکہ پیغمبروں کےسردارﷺکی امت کےہاتھوں
پچھلے5برس سےلہولہان ہورہی ہےاوربہنےوالالہوبھی اپنےہی مسلمان
بھائیوں،بہنوں اوربچوں کاہے۔شرمناک بات یہ ہےکہ انبیاءعلیہم
السلام،صحابہ اوراہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کےمقدس مزارات کوبھی
بغض وحسدکانشانہ بنایاجارہاہے۔ظلم،بربریت،وحشت اورجبرجیسےالفاظ اس جنگ
میں ہونےوالی کارروائیوں کےلئےبہت چھوٹےہیں۔کب تک یہ ظلم وستم اورغم
والم کی شام چھائی رہےگی؟اس کا فیصلہ بدقسمتی سےانہی ہاتھوں میں ہےجو
معصوم خون سےرنگین ہیں۔

15مارچ2011سےشروع ہونےوالی یہ جنگ اب تک
تقریباََ3لاکھ جانیں لےچکی ہےجبکہ شام کی نصف آبادی دربدرٹھوکریں کھارہی
ہےاورلاکھوں لوگ ہجرت کرکےہمسایہ ومغربی ممالک کےپناہ گزین کیمپوں میں
زندگی بسرکررہےہیں۔دوسری جنگِ عظیم کےبعدیہ انسانیت کےلئےسب سےخطرناک
لڑائی ہےجس کی وجہ اقتدارکی حرص وہوس کےسواکچھ نہیں۔یہ لڑائی مختلف
علاقائی اورعالمی قوتوں کےمفاد کی لڑائی ہےجس کانشانہ ایلان کردی
جیسےمعصوم بچےبن رہےہیں۔

لڑائی کا سبب بشارالاسدہےجوعرصہ درازسےاقتدارکی
مسندپربراجمان ہےاوردوسری وجہ بیرونی مداخلت ہے۔اسد نےمخالفین کوہرطرح
سےدبانےکی خاطرظلم وستم کابازارگرم کئےرکھاجس کےنتیجےمیں ایک اسکول
کےکمسن بچوں نےآمریت مخالف نعرےلکھےاوران بچوں کوسرکاری سپاہ
گرفتارکرکےلےگئی۔کمسنوں کی گرفتاری کےخلاف مظاہروں پرسرکاری فوج نےفائرنگ
کی جس سےان مظاہروں نےایک خونی تحریک کی شکل اختیار کرلی جوکہ اب تک
جاری ہے۔

افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کےبعدکےنتائج پاکستان میں اب تک
کی بدامنی کی صورت میں پورے عالمِ اسلام کےسامنے ہیں مگراس سےمسلم ممالک
نےکوئی سبق حاصل نہیں کیابلکہ شام میں مداخلت کرکےاب خودانہی حالات کا
شکارہیں۔لڑئی شروع ہوئی توقریب کےاسلامی ممالک نےاس’’کارِخیر‘‘میں حصہ
ملانےکے لئےمختلف جہادی اورمسلح جتھوں کی ما لی وعسکری امداد شروع کردی
۔پاکستان سمیت دنیابھرسے’مجاہدین‘اس "جہاد”میں شرکت کےلئے پہنچے۔داعش بھی
انہی حالات میں ابھرکرسامنےآئی اور اپنی ظالمانہ کارروائیوں کےسبب پوری
دنیاکی توجہ کامرکزبن گئی۔

شام میں ایک طرف حکومتی فورسز ،ایران،حزب اللہ اور روس ہیں جواسد
مخالف قوتوں بشمول داعش کےخلاف لڑرہےہیں تودوسری طرف اسدمخالف شامی
طاقتیں اورعلاقائی وعالمی جہادی تنظیمیں ہیں جواسد کے ساتھ ساتھ باہم بھی
دست وگریباں ہیں اوراس سب میں عوام ہی مررہے ہیں۔اس سےنہ حکومتی
فورسزاپنا مقصدحاصل کرپارہی ہیں اورنہ ہی حکومت مخالف قوتیں اپنامقصد
حاصل کررہی ہیں۔اس کےعلاوہ امریکی کیمپ میں شامل ممالک بھی اپنا حقِ
غلامی ادا کر رہے ہیں۔پاکستان جیسےممالک کےجو’مذہبی دانشور‘اس جنگ میں
شامل ہونے کی ’’سعادت‘‘ سےمحروم رہےوہ معرکہ شام کے ’’فضائل و مناقب‘‘
بیان کرکےلوگوں کو مسلمان خون سےاپنی پیاس بجھانےکی طرف راغب
کرتےرہےاوراس جنگ میں اپنی شمولیت کی’’سعادت‘‘گھروں میں بیٹھ کرہی حاصل
کرتےرہے۔

ادھریورپی ممالک مہاجرین کو اپنےہاں آنےکی اجازت
دینےسےہچکچارہےہیں تودوسری طرف سعودی عرب امریکہ اورنیٹوکوشام میں
کارروائی کرنےکی دعوت دےکرشام کی سرزمین پرمزیدمظالم کی راہ ہموارکرنےکی
کوشش کررہاہےجبکہ ترکی بھی اسی راہ پرچلنےکاخواہش مند ہے۔پھراسلامی ممالک
پر مشتمل ایک نئی نیٹوبھی داعش سمیت مختلف دہشتگردتنظیموں سے
لڑنےکےلئےتشکیل دی جارہی ہےجس کاپہلاہدف داعش ہےاس سےاندازہ ہوتا ہےکہ
ابھی یہ لڑائی جاری رہےگی۔

افغانستان،عراق اورلیبیامیں عالمی افواج کےصفِ اول کےاتحادی بن کرمسلم
ممالک نےاپنےہی مسلمان ممالک کوغیرمستحکم کرنےمیں غیروں کابھرپورساتھ
دیا،ان کےایجنڈے کی تکمیل کےلئےخودکوہرجگہ پیش کیااوراب یہی حالات شام
کےہیں۔ہم الزام لگاتےہیں کہ صیہونی وصلیبی طاقتیں مسلم ممالک کوتقسیم
کرنےکی سازش کررہےہیں مگرحقیقت میں ہم خودان کی راہ آسان بناتےہیں۔مسلمان
حکمران ہوں یاجہادکےنام پرلڑنےوالےمسلح جتھے سب ہی عالمی استعمارکواپنی
کارروائیوں اوردِہائیوں سےمسلم ممالک میں مداخلت پرقائل کرتےہیں۔اس
لئےمسلم امہ اپنےحالات کی خودہی ذمہ دارہےکوئی صیہونی وصلیبی طاقت
نہیں۔چلئےمان لیتےہیں کہ دشمن طاقتیں سازشیں کرتی ہیں توپھرحیرت وافسوس
کی بات ہےکہ مسلم دنیاکاکوئی بھی مذہبی یاسیاسی شخص ایسانہیں جوحالات
کوبھانپ سکےاوران ’سازشوں‘سےمسلم دنیاکوبچاسکے۔

دراصل یہ حالات ہمارےاپنےہی پیداکردہ ہیں،مسلم ممالک کی اکثرحکومتیں مطلق
العنان ہیں
اورجوجمہوری ہیں ان کامزاج آمریت زدہ ہے۔جب عوام ان کی پالیسیوں کےخلاف
اٹھ کھڑےہوتےہیں تونتیجۃًعوام اورریاست میں ٹکراؤپیدہ ہوتا ہےجواسی طرح
کےحالات کی طرف جاتاہےجواب شام کےہیں۔جب تک مسلم ممالک کےحکمران اپنی
عوام کواپنےچنگل سےآزاد نہیں کرتےتب تک حالات ایسےہی رہیں گےاورکوئی بھی
ملک کسی وقت شام بن سکتا ہے۔ضروری ہےکہ حکمران اپنےرویوں میں نرمی لائیں
اوراغیارکےآلہ کاربننےکی بجائےاپنی عوام کی خدمت وتحفظ کافریضہ سرانجام
دیں۔بیرونی
عناصرتب ہی فائدہ اٹھاتےہیں جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سےپہلوتہی کرتی
ہےاورعوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرتی۔

دشمن قوتوں کاراستہ روکنےاورسازشیں ناکام بنانےکےلئےضروری ہےکہ مسلم
حکمران اپنےاپنےممالک پرتوجہ دیں اوردوسرےکسی بھی ملک میں مداخلت نہ
کریں۔کسی بھی ملک میں مداخلت کےنتائج کبھی بھی اچھےنہیں ہوتےاورمشرق
وسطیٰ کےموجودہ حآلات اس بات کواورزیادہ وضاحت سےسمجھا رہےہیں۔افسوس
صدافسوس کہ جس امت کوان کے نبیﷺ نےجسدِواحدفرمایاتھاوہی امت آج اپنےجسم
کےحصوں کونوچ نوچ کرکھارہی ہےاورپھربھی افضلیت کےزعم میں مبتلا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے