کچلاک میں ایسا کچھ ہے جو یہ پاکستان سے زیادہ افغانستان کا حصہ لگتا ہے۔ وہی جغرافیہ، وہی شکل و صورت کے لوگ اور ان کے طالبان طرز کے لباس۔
کوئٹہ سے 25 کلومیٹر دور چمن شاہراہ پر واقع اس قصبے کا ’السلیم ہوٹل‘ نو مارچ کی شام اچانک قومی سطح پر مشہور ہوگیا۔ ہوٹل کے ساتھ ساتھ اس کا مینو اور ساڑھے تین سو روپے کا نرخ بھی سب کو معلوم ہوگیا۔ اب یہ ہر صحافی میزبان کا اپنے مہمان کے لیے سیاحتی مقام بن گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کا کاروبار بھی بڑھ گیا ہے۔
پاکستانی میڈیا نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے چار سال سے اغوا شدہ برخوردار شہباز تاثر کی اس ہوٹل سے بازیابی، کھانا کھانے اور بل ادا کرنے کی یہ خبر خوب اڑائی۔
اگرچہ شہباز نے اپنی اچانک محفوظ رہائی کی گتھی تو نہیں سلجھائی لیکن کافی دیر کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ نہ تو انھوں نے وہاں کھانا کھایا اور نہ ساڑھے تین سو روپے کی کوئی ادائیگی کی۔
ہوٹل پہنچے تو میں لاعلمی میں اسی فرشی جگہ پر ناک کی سیدھ میں جا کر بیٹھ گیا جہاں میرے دو ساتھیوں نے بعد میں بتایا کہ شہباز بھی لمبے بالوں والے افغانی حلیے میں آکر بیٹھے تھے۔
سکیورٹی والوں نے آتے ہی علاقے کو گھیرے میں لیا اور سب سے کہا وہ وہ ہاتھ اٹھا لیں اور سر نیچے رکھیں۔ سکیورٹی والوں نے ہوٹل کے مینجر سے کہاں کہ انہیں شک ہے یہاں طالبان کا کوئی اجلاس ہو رہا ہے۔ انھوں نے تمام ہوٹل چھانا۔ انھوں نے شھباز کو نہیں پہنچانا لیکن جب نام لیا تو اس نے سر اٹھایا اور کہا کہ میں ہوں۔
یہ ہوٹل قدیم اور جدید کھانوں کا حسین امتزاج ہے۔ فرش پر بیٹھ کر کھانا کھانے والوں کے لیے فرشی جگہ اور میز کرسی پر کھانا کھانے والوں کے لیے ’انگریجی‘ سٹائل کے میز کرسی۔ معلوم نہیں کیوں شاید ہوٹل بنانے والے کی شیشوں کی جانب کافی رغبت تھی لہٰذا اندر سے وہ شیشے کا محل معلوم ہوتا تھا۔
دوپہر کے وقت کھانا عروج پر تھا۔ اگر کہیں دو پولیس والے ’روش‘ کا مزا لوٹ رہے تھے تو کہیں ایک کونے میں سفید پگڑی والا نوجوان لگتا تھا کہ جیسے صرف آنے جانے والے پر نظر رکھنے کے لیے بیٹھا تھا۔ نہ کچھ کھا رہا تھا اور نہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ بس نیم دراز تھا۔ اس ہوٹل کی مقبول ڈش روش ہی بتائی گئی سو جی بھر کے کھائی۔ قہوہ بھی یہاں کا مشہور، تو اتنی مرغن غذا کے بعد وہ بھی پیا۔
پھر ہوٹل کے مینجر محمد حسین سے بات اور پوچھا کہ شہباز تاثیر کو روش اور بل دونوں سے انکار کر رہے ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ انھوں نے کھانا نہیں کھایا تھا بس آ کر وہاں بیٹھے اور قریب چند لوگ چائے پی رہے تھے تو انھوں نے اسے چائے کی پیشکش کی۔
’اس نے انکار کیا لیکن نوجوانوں میں مقبول ڈیو مانگی۔ بوتل کے پیسے بھی چائے والوں نے دیے۔ وہ اٹھ کر آئے اور فون کرنے کا تقاضہ کیا۔ لیکن مینجر نے اپنا موبائل دینے سے انکار کیا اور کہا کہ لینڈ لائن یکطرفہ ہے لہذا کال نہیں کی جاسکتی ہے۔ پھر وہ باہر چلے گئے۔‘
کوئٹہ کے ایک فوٹوگرافر بنارس خان شہباز کے بازیاب ہونے کی خبر ملنے کے بعد اس ہوٹل پر پہنچنے والے پہلے صحافیوں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے عینی شاہدین سے جب انھوں نے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے بتایا کہ شہباز پانچ بج کر بیس منٹ کے لگ بھگ وہاں آئے۔ بوتل نوش کرنے کے بعد انھوں نے ہوٹل سے باہر جا کر ٹیلیفون کیا جس کے بیس منٹ کے اندر اندر سکیورٹی فورسز وہاں آگئیں۔
’
سکیورٹی والوں نے آتے ہی علاقے کو گھیرے میں لیا اور سب سے کہا کہ وہ ہاتھ اٹھا لیں اور سر نیچے رکھیں۔ سکیورٹی والوں نے ہوٹل کے مینجر سے کہا کہ انہیں شک ہے یہاں طالبان کا کوئی اجلاس ہو رہا ہے۔ انھوں نے تمام ہوٹل چھانا۔ انھوں نے شہباز کو نہیں پہنچانا لیکن جب نام لیا تو اس نے سر اٹھایا اور کہا کہ میں ہوں۔‘
اس طرح سکیورٹی والے انھیں وہاں سے اپنی تحویل میں لے کر ساتھ لےگئے۔ شدت پسندوں سے رہائی کیسے ممکن ہوئی اس جیسے سوالوں پر تو عوام اور میڈیا کو شہباز تاثیر چھوڑ دیں کہ وہ خیالی پلاؤ پکاتے رہیں لیکن ان کو اب یہ وضاحت ضرور کر دینی چاہیے کہ نہاری انھوں نے کہاں کھائی اور کیسی تھی۔ ویسے کچلاک کا روش نہ کھا کر انھوں نے اپنے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
بشکریہ بی بی سی