جس طرح حدیث کے ابتدائی دور میں ’’مستشرقین نما‘‘ اور اس دور کے ’’مذھبی نما سیکولرز و لبرلز‘‘ نے حدیث پر طعن و تشنیع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جھوٹی باتوں یا الفاظ کی ہیرپیر سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو مجبوراً ائمہ حدیث نے اس کی حفاظت اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے ایسے علوم اور قواعد وضوابط بنانے پڑیں جس کی بنیاد ایسے مضبوط اور گہرے ستونوں کی مانند تھی کہ اسے ہلانے کی ’’ہمت و سکت‘‘ اس دور اور بعد کے ادوار کے ’’روشن خیال اور ماڈریٹ‘‘ میں نہ تھی۔
آج بھی وہی معرکہ درپیش ہے بس فرق اتنا ہے کہ اس دور کے ’’مستغربین‘‘ اور ’’مذھبی نما سیکولرز‘‘ ان بنیادوں کو ہلانے کے لیے ’’راویوں‘‘ کو نشانہ بنانے کے لیے تحقیق ، تنقید وتنقیح کی زبان و اصول سے عاری، ’’طنز ومزاح‘‘ اور بازاری زبان میں ’’مداری‘‘ پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
بخدا!
اگر تدوین حدیث (Codification / Compilation) کا عمل ہمارے اس دور میں بھی جاری رہتا تو بہت سارے بڑے بڑے ’’برج‘‘ الٹ جاتے ان کی روایت ’’قبول‘‘ ہی نہ ہوتیں، بلاشبہ وہ ضعیف ، واہی ، منکر اورمتروک قرار پاتے ورنہ ’’متھم بالکذب‘‘ کے زمرے میں ضرور آتے۔
بے شک ان کی باتیں ’’مسحورکن‘‘
تحریریں ’’متاثر کن‘‘
میڈیا کے جملہ ذرائع ہوں
یا
منبر و سٹیج کا ’’شہسوار‘‘
لیکن ’’جرح وتعدیل‘‘ کے باب میں یہ کوئی معنی نہییں رکھتے
چاہے کتابوں کا مصنف ہو یا ڈگریوں کے بوجھ تلے ’’دبا‘‘ ہوا ’’مغرور‘‘ انسان!
بس ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا تھا
یہی حکم لگتا کہ
’’ضعیف (کمزور)‘‘ ہے
متروک (چھوڑا ہوا) ہے
اس کی باتیں (یعنی حدیث کے باب میں) ناقابل اعتبار ہیں جن پراستدلال نہیں کیا جاسکتا۔
یا یوں سمجھئے گا کہ
اس کا ’’کورٹ مارشل‘‘ ہوجاتا
یا یہ
’’او ایس ڈی‘‘
بنا دیا جاتا .