ملاقات ڈاکٹر خورشید رضوی سے

پرسوں شام برادر بزرگ محمودالحسن کی معیت میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے آشیانے پر حاضری ہوئی۔ڈاکٹر خورشید رضوی ایک باکمال شاعر،عربی زبان کے عالم و محقق اور فارسی کا گہرا درک رکھتے ہیں۔ محمود الحسن نے میرا تعارف اپنے دوست کے طور پر کرایا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ’’ میرا خیال تھا کہ محمود کا کوئی بھی دوست 70 سال سے کم عمر کا نہ ہو گا مگر آپ نے اسے غلط ثابت کر دیا۔‘‘ میں نے انہیں یاد دلایا کہ محمود الحسن کی شادی پر بھی آپ نے یہ جملہ کہا تھا۔

محمود الحسن ڈاکٹر خورشید رضوی سے محوکلام ہیں
محمود الحسن ڈاکٹر خورشید رضوی سے محوکلام ہیں

دونوں صاحبان علم محو کلام ہوئے۔ بات انتظار صاحب کی حسین یادوں سے شروع ہوئی ۔دلچسپ تھی کیونکہ دونوں صاحبان کو انتظار صاحب کا بہت قرب حاصل رہا۔پھر اعجاز بٹالوی مرحوم کی شخصیت اور فن کی باتیں ہوئیں ،خورشید رضوی صاحب نے ان کی خوش کلامی اور بصیرت کے دلچسپ واقعات سنائے ۔ان کے سنائے ہوئے کچھ لطیفے بھی خورشید صاحب نے نقل کیے ۔اعجاز بٹالوی کے بھائی آغا بابرکا بھی ذکر ہوا۔وزیر الحسن عابدی صاحب کے بارے میں رضوی صاحب کہنے لگے کہ وہ بہت اعلیٰ اور عالمانہ گفتگو کرتے تھے۔ رضوی صاحب نے وہ واقعہ سنایا جب انہیں فردوسی کا ایک شعر سمجھنے میں دقت ہوئی تو کیسے عابدی صاحب نے اسے لمحوں میں صاف کر دیا تھا۔

ڈاکٹر خورشید رضوی بہت دھیمے لہجے میں لفظوں کے خوبصورت انتخاب کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں۔محمود الحسن کے سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے کی یادیں کھنگالیں کہ کس طرح انہوں نے سائنس کے مضامین کی بجائے اردو پڑھنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کے بقول وہ سائنس کے تجرباتی پہلومیں کافی دلچسپی رکھتے تھے لیکن ہرروز لمبے چوڑے نوٹس لکھ کر لانا ان سے نہ ہوا۔چنانچہ پھر انہوں نے اردو ہی میں اپنے شاندار سفر کا آغاز کیا اور پھر کہیں رکے نہیں۔

خورشید رضوی اپنے اردوذوق کی آبیاری میں ’’سرمایۂ اردو‘‘ کا بہت کردار دیکھتے ہیں۔ شاہنامہ فردوسی کا ذکر ہوا،غالب کے فارسی کلام کے متعلق بہت جاندار گفتگو ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ غالب کا فارسی کلام بہت کمال کی چیز ہے ۔محمود الحسن نے پوچھا کہ پھر ان کی نسبت اقبال کیوں فارس میں زیادہ مقبول ہوئے؟ خورشید رضوی نے بہت تفصیلی جواب دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ غالب اور بیدل وغیرہ پیچیدہ کلامی کو پسند کرتے تھے اور یہ پیچیدہ بیانی ایرانیوں کے ذوق کے مطابق نہیں تھی۔ اس بات پر دلیل غالب ہی کے اس فارسی شعر سے باندھی کہ

سخن سادہ دلم را نہ فریبد غالب
نکتۂ چند زپیچیدہ بیانے بمن آر

انہوں نے بتایا کہ اقبال کے ہاں سہل نگاری ہے جسے ایران میں بہت پسند کیا گیا لیکن دوسری جانب اقبال خود غالب کے بہت بڑے مداح تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک نوٹ میں غالب کو ’’دی پرشیئن پوئیٹ‘‘(فارسی شاعر) لکھا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نظیر اکبر آبادی کی قوت مشاہدہ اور اس کو ادا کرنے کی طاقت کے بہت قائل ہیں اور انہیں غیر معمولی آدمی قرار دیتے ہیں۔پھر کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں اس طرح کا شعور احسان دانش میں تھا۔ انہوں نے شروع سے لے کر اپنے آخری دور تک کے رنگوں کے ساتھ اپنی آواز ملائی۔

ڈاکٹر خورشید رضوی نے 2007ء میں اپنے دورہ ہندوستان کے دوران تاج محل کی ادھوری سیر کے بعد نظیر اکبر آبادی کے مزار کی زیارت کا واقعہ بھی سنایا اور وہاں کے ماحول کی خوب منظر کشی کی۔

ماضی کی ان ہستیوں کا ذکر چلا تو کہنے لگے کہ آج بھی آپ کو کروڑوں انسانوں میں دس بیس تو ایسے مل ہی جائیں گے جنہیں کل لوگ بڑا آدمی قرار دیں گے ۔آج کروڑوں کے مجمعے میں انہیں کون دیکھتا ہے لیکن یہ کروڑوں غائب ہو جاتے ہیں باقی صرف وہی دس بیس بچتے ہیں۔

میں صوفے کی ایک جانب ٹکا ہوا یہ دلچسپ مکالمہ سن رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کے وجہیہ سراپے میں گم تھا۔ایک گھنٹہ اور چند منٹ اوپراسی طرح گزر گئے ۔خدا معلوم کس طرح بات عربی ادب کی جانب چل نکلی۔ غالباً محمود الحسن کا کوئی سوال تھا۔ میں نے اس لمحے کو نادر جانا اور مکالمے میں شمولیت کا گویا ایک جواز مجھے مل گیا تھا۔ وجہ یہی ہے کہ عربی ادب کی کچھ کتابیں میں نے بھی دیکھ رکھی ہیں۔

صاحب مضمون ڈاکٹر خورشید رضوی کے ساتھ
صاحب مضمون ڈاکٹر خورشید رضوی کے ساتھ

عربی زبان کی گہرائی، گیرائی اور وسعت کے بارے میں ڈاکٹر رضوی نے بھرپور گفتگو کی۔ ’’معلقات السبع‘‘ کا ذکر چلا تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا’’سبع ملعقات‘‘ بہت بڑی شاعری ہے اور اس میں بھی درجہ بندی ہے۔ انہیں جاہلی شاعر طرفہ کا معلقہ سب سے زیادہ پسند ہے۔کہنے لگے کہ اگر ایک نظم کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے تو وہ (طرفہ أشعرُھم واحدۃً)شعرائے عرب میں سب سے بلند تر ہے۔ عمرو ابن کلثوم کے معلقے کو طرفہ اور دیگر شعراء کے معلقات کی نسبت فروترقرار دیتے ہیں۔خورشید رضوی طرفہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے تخیل میں بھی بہت منفرد ہے۔اس کی شاعری میں تفکر کی ایک جہت ہے جو امرؤالقیس میں نہیں ہے ۔
ایک شعر دلیل کے طور پر لاتے ہیں

أری العیش کنزاً ناقصاً کُل لیلۃ
وَماتَنقُصِ الأَیّام والدَّھرُ یَنفَدِ

(میں زندگی کو ایسا خزانہ سمجھتا ہوں جو ہر شب گھٹتا رہتا ہے اور زمانہ اور ایام جس چیز کو گھٹاتا رہے وہ فنا ہوجائے گی۔)

اسی حوالے سے ذکر چلا مشہور عالم اور قانون دان ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا ، جن کے ساتھ خورشید رضوی صاحب کی گہری دوستی تھی ۔خورشیدرضوی نے سنایا کہ ڈاکٹر غازی نے کہا ’’مجھے تو عمروابن کلثوم کا معلقہ بہت پسند ہے ۔اس پر میں نے کہا کہ جو سب سے فرو تر ہے آپ اس کی کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس میں تو تفاخر اور نعرے بازی کے سوا ہے کیا۔‘‘ڈاکٹر رضوی امرؤالقیس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ہزلیاتِ شعرائے عرب کی بات چلی تو کہا کہ امرؤالقیس کو اس کے ایک شعر(اذا ما بُکیٰ من خَلفِہا انصرفت لہ ۔ ۔ ۔) کی وجہ سے بہت بدنام کیا گیا حالانکہ اعشیٰ اس سے زیادہ فحش گو ہے۔

میں نے سوال کیا کہ ہمارے مدارس عربیہ اور یونیورسٹیوں میں عربی ادب کی کچھ منتخب کتابیں پڑھائی جاتی ہیں لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلباء میں عربی کا ادبی ذوق پیدا نہیں ہو رہا تو کہنے لگے’’ اصل بات یہ ہے کہ ہم عربی شاعری کو بھی صرف نحو میں محدود کر دیتے ہیں۔گرائمر کی ترکیبوں میں الجھ جاتے ہیں کہ صیغہ کون سا ہے ، جار مجرور کیسے ہیں،جملہ کیا بنتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں شاعری کہاں ہے۔‘‘اس کے بعد ذوق کے اس انحطاط کو ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس ایک جملے میں سمو دیا کہ

’’ہمارے ہاں عربی کا قابل آدمی بھی محض زبان کا قابل آدمی ہوتا ہے۔‘‘

یہ بہت بڑا حادثہ ہے ۔اس شعر میں کیا شاعری ہے وہ یہ نہیں جانتا وہ صرف گرائمر جانتا ہے ۔ہم امرؤالقیس کو اس کے کلام کی شاعرانہ لپک کی وجہ سے اتنا بڑا شاعر مانتے ہیں اس لیے نہیں کہ اس میں صیغے کو ن کون سے ہیں ۔ وجہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھیے ! عربی نسبتا ذرا مشکل زبان ہے ۔ لوگ یہیں (گرائمر وغیرہ)تک زور مار کر اسے کمال سمجھ لیتے ہیں۔اس پر اس ستارہ شناس کی کہانی سنائی کو آسمان کی وسعتوں کو دیکھنے کے لیے دوربین بنانے لگتا ہے تو پھر دوربین کے کیل وپیچ میں ہی کھو کر رہ جاتا ہے ۔

ایک اور بات انہوں نے بتائی کہ عربی میں چیزوں کی صلابت سے شاعری برٓآمد کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں چیزوں کی نزاکت سے شاعری برآمد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ’’بد قسمتی سے ہم وقت کے ساتھ ساتھ Non Creative (غیر تخلیقی) ہوتے گئے۔ ہمارے برصغیر میں یہ معیار قائم ہوا کہ جو چیز لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے وہ بڑی چیز ہوتی ہے ۔‘‘

میں نے عربی نثر میں مقامات حریریہ کا نام لیا تو کہنے لگے کی اس سے قبل بدیع الزمان ھمذانی(جو عربی ادب کی صنف مقامہ کے موجد بھی ہیں) نے جو مقامے لکھے ان کا تو جواب ہی نہیں۔(وہ ھمذانی کے مقامات پر مبنی کتاب اندر سے اٹھا لائے) ڈاکٹر صاحب نے ایک اور کتاب ’’عنوانُ الشرفِ الوافی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ محیر العقول کتاب ہے ، جس میں کالم بنے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ اوپر سے نیچے پڑھیں تو یہ نحو کی کتاب معلوم ہوتی ہے دوسرے رخ سے پڑھیں تو وہ تاریخ کی کتاب لگتی ہے حتیٰ کہ ایک رخ سے تو زبان بھی بدل جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فارسی کی کتاب ہے۔

مصطفیٰ لطفی المنفلوطی کا نام لیا تو کہنے لگے کہ اس کے افسانوں کے پلاٹ میں تو کوئی جان نہیں لیکن اس کا کمال اس کی زبان میں ہے۔محمود الحسن نے سوال اٹھایا کہ قدیم زمانے کی شاعری میں اس قدر کُھلا پن تھا لیکن اب ایسا نہیں ،یہ کیسے ہوا؟ ڈاکٹر رضوی نے جواب دیا کہ’’ہمارے ہاں کے ممنوعات (Taboos)اس دور سے بہت زیادہ ہیں۔

انہوں نے ہذلیات شیخ شعدی ،ہذلیات عیبدزاکانی (بیچ میں محمود الحسن نے جعفر زٹلی کا ذکر ریکارڈ پر لانا لازم سمجھا)اور نظیر اکبر آبادی کی کلیات میں شامل ہذلیہ شاعری کوان کے ادبی کمال کے اعتراف کے ساتھ بطور مثال پیش کیا۔کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں تو جعلی قسم کی شرم ہے اور فیک قسم کے اقدار ہیں۔

اس کے پھر عربی کے ایک اور عالم جناب محمد کاظم مرحوم کا ذکر چلا تو کہنے لگے کہ میری عربی ادب سے متعلق کاوشوں پر سب سے پہلے کاظم صاحب ہی کا ردعمل آتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے محمد کاظم کا ذکر بہت محبت سے کیا۔ کاظم صاحب کی کتاب ’’عربی ادب میں مطالعے‘‘ اہل ذوق کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔

تقسیم ہند کے بعد کے حالات کی طرف روئے سخن مڑا تو ڈاکٹر رضوی نے کہا’’پاکستان کے بننے وقت حالات بہت بہتر تھے۔ اس کے بعد حکمرانوں میں بددیانتی نے پورے ملک کو برباد کر کے رکھ دیا۔جب حکمران ہی بد دیانت ہو جائیں تو پھر بچ کیا جاتا ہے‘‘ اس پر محمود الحسن کو منیر نیازی یہ غزل یاد آئی ۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا

راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا

شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا

شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا

ڈاکٹر رضوی نے دلچسپی سے غزل سنی اور منیر نیازی کے بارے میں کہنے لگے ’’ منیر نیازی بڑے بے مثل آدمی تھے۔ وہ کسی سے متاثر ہی نہیں تھے،بہت اوریجنل آدمی تھے۔‘‘

اب شام کے سائے کافی گہرے ہو چکے تھے اور گفتگو اپنے جوبن پرتھی ۔ محمود الحسن نے کہا کہ کہ شاعروں میں فیض اور فکشن نگاروں میں انتظار حسین کی شخصیت میں جو محبوبیت نظر آتی تھی ،عالموں میں وہی محبوبیت آپ کی شخصیت میں ہے ۔اس سے محمود الحسن کی مراد شخصیت کا وہ مثبت ترین پہلو تھا جو دوستوں کے علاوہ ناقدین کو بھی اس شخصیت کااسیر بنائے رکھتا ہے ۔ اس پر ڈاکٹر رضوی مسکرا دیے اورصورت حال کے موافق اپنا ہی ایک شعر سنایا

زندگی گزری بہت پر لطف بھی سنسان بھی
سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح

ڈاکٹر خورشید رضوی نے ’’قلائد الجُمان‘‘ پر اپنی تحقیق پر مبنی کتاب بھی دکھائی اور راقم کو ایک نسخہ عنایت کرنے کی ہامی بھی بھری۔یہاں یہ عرض کر دوں کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی کتاب ’’عربی ادب قبل الاسلام ‘‘ عربی ادب کے بارے میں اردو میں لکھی گئی اب تک کی اہم ترین کتاب ہے جس کے بارے میں کئی اہل علم کا خیال ہے کہ اگر اس کا ترجمہ عربی میں کر دیا جائے تو یہ خود عربوں کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔اس کے بعد محمود الحسن اور ڈاکٹر رضوی کے درمیان کچھ کتب و رسائل کا تبادلہ ہوا۔ محمودالحسن نے رسالہ ’’شبخون‘‘ عنایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ آپ کے لیے ہے ، واپس کرنے کی حاجت نہیں ۔‘‘

اس کے بعد ہم لاہور کی خوبصورت شام کا لطف لیتے ہوئے واپسی کے لیے روانہ ہوگئے ۔ رہائشی علاقے کے صدر دروازے سے ذرا پہلے محمود الحسن نے کہا کہ ’’فانی!یارسردی اگر اتنی سی ہو تو اچھی لگتی ہے ۔‘‘
میں نے محمود الحسن کی یہ بات سنی اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی وہ غزل گنگنانے لگا جو مجھے بہت پسند ہے ۔

لیجیے آپ بھی ان کے شعری مجموعے ’’رائگان ‘‘ میں شامل اس غزل کا لطف لیں اور مجھے دیجیے اجازت ۔رب راکھا!

یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے

کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے

میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے

وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جْڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے

یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے

وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے

میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضر ر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے

جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے