پاکستان کیوں ضروری تھا

23 مارچ 1940ء اسلامیانِ ہندوستان کے لیے ایک یادگار دن جب انہوں نے خود کو ایک الگ اور زندہ و تابندہ قوم کی حیثیت سے منوانے اور اپنے لیے ایک الگ ملک کی صورت میں ایک نیا آشیانہ بنانے کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ جب حق کو باطل کے اندھیروں سے چیر کر الگ کرنے کا تاریخی فیصلہ ہوا ۔

بہت سے کم فہم لوگ آج بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو ایک الگ ملک کی ضرورت کیوں تھی ؟ اگر ہندو مسلم تہذیب و تمدن الگ الگ ہونے کا مسئلہ تھا تو یہ مسئلہ تو صدیوں سے چلا آرہا تھا ، مسلمان اور ہندو صدیوں سے اکٹھے ہی رہتے آرہے تھے ۔ اگر گزشتہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو ہندؤوں سے الگ تہذیب اور الگ ثقافت کے باوجود الگ ملک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی تو آخر یکایک 1000 سال بعد یہ ضرورت کیسے پیدا ہوگئی اور پھر یہ ضرورت بھی چند ہی سالوں میں اس قدر اشد ضرورت کیسے بن گئی کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہ رہا ۔

ایسے حضرات کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآن پاک ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں ، اس کے بعد ہی ان پر واضح ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن اور الگ ملک کب اور کس وقت ضروری ہوتا ہے ، ہمارے لیے سب سے بڑی مثال نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے ، مکہ میں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء قلت تعداد و مسائل کا شکار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دعوت و تبلیغ تک محدود رہے لیکن جوں جوں یہ تعداد ایک معقول حد تک بڑھنا شروع ہوئی ، مسلمانوں کی پالیسیوں میں بھی اسی حساب سے ارتقاء پیدا ہونا شروع ہوا اور معقول تعداد سے مراد یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین معاشرے کی کوئی بڑی اکثریت بن گئے بلکہ اس سے مراد ایک ایسی تعداد ہے جو کسی طرح بھی اپنے سے بڑی اکثریت پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہوجائے ، گویا آج کی اصطلاح میں وہ کم از کم ایک پریشر گروپ کی حد تک پہنچ جائیں ۔

چنانچہ مسلمانوں میں مکہ کے اندر رہ کر ہی پہلا ارتقاء حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی جری اور بے باک شخصیت کے قبول اسلام کے بعد پیش آیا جب ان کی تحریک پر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے خفیہ نمازیں پڑھنے کے بجائے بیتﷲ میں سب کے سامنے اقامت صلوٰۃ کا فریضہ ادا کرنے کی منظوری دے دی ، پھر دنیا نے دیکھا کہ جب مسلمانوں کو تعداد اور وسائل کے اعتبار سے اس سے بھی قدرے زیادہ قوت حاصل ہوئی تو آپ نے محسوس کیا کہ اب مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطۂ زمین ضروری ہے جہاں وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنے تمام دینی فرائض کی بجا آوری بغیر کسی خوف کے آزادانہ ادا کرسکیں اور وہ کسی کے محکوم و مطیع نہ ہوں ، چنانچہ اس اسلامی تقاضے کے تحت آپ صلی ﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی ﷲ تعالیٰ اجمعین نے مدینہ کی طرف تاریخ کی یادگار ہجرت کی جس کے بعد مسلمان بالآخر مدینہ میں آہستہ آہستہ اپنی سلطنت و حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے اور پھر دعوت و جہاد کے ذریعے پورے عرب اور پوری دنیا پر چھاگئے ۔

یہی اسوۂ رسول صلی ﷲ علیہ وسلم تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی مسلمان تعداد اور وسائل کے لحاظ سے ایک ایسی معقول حد تک پہنچ جائیں جس سے وہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوں تو وہ یا تو اس معاشرے کی زمام کار کسی بھی طرح اپنے ہاتھ میں لے لیں (لیکن کوئی وحشیانہ طریقہ نہ ہو) یا اگر اس قابل نہ ہوسکیں تو ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ کسی غیر مسلم کے مطیع و غلام نہ ہوں اور اپنے دینی فرائض آزادانہ انجام دے سکیں ، اس لیے کہ یہی مسلمان کی شان ہے اور یہی توحید کا تقاضا ۔

[pullquote]
بقول اقبال ؂

اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں ۔۔۔ قومِ رسولِؐ ہاشمی
[/pullquote]

اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی اور بندوں کے بنائے ہوئے نظاموں سے نجات دلانا اور انہیں بے شمارخداؤں کے بجائے ایک خدا کے درپہ جھکانا ، یہ اسلام کا امتیازی پیغام ہے اور اس کے لیے دعوت اور جہاد کے تمام ممکنہ ذرائع اسوۂ رسول صلی ﷲ علیہ وسلم اور حکمت کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہیں ۔ انسانوں کو انسانوں اور شیطانوں کی غلامی سے نجات دلا کر ﷲ کی غلامی میں لانا اوّلین ترجیح ہے کیونکہ جو انسانوں کا خالق و مالک ہے ، وہی غلامی اور بندگی کے لائق ہے ۔

اگر کچھ نادان بچے آگ کو ہاتھ لگانے کی کوشش کریں تو انہیں آگ سے ہرصورت بچانا ہر سلیم العقل شخص کے لیے ضروری ہوتا ہے ، چاہے اس کے لیے زور زبردستی ہی کیوں نہ کرنی پڑے ، یہ تو دوسرے انسانوں کی فکر ہے ، اگر خود مسلمانوں کا گمراہ کافروں کی غلامی میں جانے کاخطرہ ہو تو پھر کیسے اس پر خاموش رہا جاسکتا ہے ۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان تو صدیوں سے ہندؤوں کے ساتھ رہ رہے تھے تو 1000 سال بعد الگ ملک کی ضرورت کیوں پیش آگئی تو وہ اس تاریخی حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے مسلمان اقلیت ہوکر بھی صدیوں سے یہاں مغلوب و محکوم نہیں بلکہ ایک غالب ، فاتح اور حکمران قوم کی صورت میں موجود تھے ۔

انگریزوں کے آنے کے بعد مسلمانوں کی یہ حیثیت تبدیل ہوگئی اور انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنامستقبل اس سے بھی بدتر نظر آنے لگا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں مروّجہ جمہوری نظام کی وجہ سے نہ صرف ہندو مشرک کے مستقل غلام اور محکوم و مطیع بن کر رہیں گے بلکہ یہ ہندو موقع ملتے ہی مسلمانوں سے اپنی 1000 سالہ غلامی کا بھی جہاں تک ممکن ہوا بدلہ لے گا ، چنانچہ انہوں نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ اب بحیثیت قوم اگر وہ اپنی بقاء چاہتے ہیں تو اپنے لیے ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں ، جہاں ان پر کسی غیر مسلم کی حکومت نہ ہو اور وہ اپنے دین کے مطابق اپنے انفرادی ، اجتماعی اور سیاسی و معاشی امور سر انجام دے سکیں ۔

یہی سوچ اور ضرورت 23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے کی صورت میں ڈھلی اور پھر 14 اگست 1947ء کو بالآخر اس سوچ ، اس مطالبے ، اس قرارداد اور اس خواب نے حقیقت کا جامہ پہن لیا ۔

یہ جدوجہد شاید اتنا جلد اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچتی اگر اس کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہندؤوں کا تعصب اور دشمنی بھی عملاً کھل کر سامنے نہ آجاتی ، اسلام نے تو مسلمانوں کو 1400 سال پہلے ہی یہ نکتہ ذہن نشین کروا دیا تھا کہ کافر کبھی بھی مسلمانوں سے راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ مسلمان ان کا دین و نظام پورا پورا اختیار نہ کرلیں ۔


’’یہ یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی بھی راضی نہ ہوں گے ‘ جب تک کہ آپ ان کے دین و ملت کوپورا پورا اختیار نہ کرلیں۔‘‘(البقرہ:120)

اسی طرح اللہ نے فرمایا:

’’آپ مسلمانوں کے ساتھ عداوت میں سب سے سخت یہود اور مشرکوں کوپائیں گے۔‘‘ (المائدہ:82)

آج کے سب سے بڑے مشرک کروڑوں خداؤں کے پجاری ہندو ہیں تو قرآن نے گویا بتادیا کہ یہ سارے کافر کبھی بھی مسلمانوں سے راضی نہیں ہونے والے ۔ یہ اس آیت کی صداقت ہے کہ آج بھی دنیا بھر کے کافر اپنا ایک عالمی ایجنڈا اور ورلڈ آرڈر مسلمان ملکوں پر مسلّط کرنے کے درپے رہتے ہیں چاہے وہ مسلمانوں میں بے حیائی عام کرنے کی صورت میں ہو یا انہیں مکمل سیکولر اور بےدین بنانے کی صورت میں ، جب کافروں نے آزاد مسلمان ملکوں کو اس قدر اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے تو جہاں مسلمان ان کے براہ راست مطیع و محکوم ہوں گے وہاں ان کے سلوک کا عالم کیا ہوگا ، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

مغربی ممالک میں آج بھی مسلمان دوران سروس نماز ادا کرنا چاہیں یا عورتیں حجاب کرنا چاہیں تو انہیں زبردستی اس کام سے روک دیا جاتاہے ورنہ انہیں نوکریوں سے برخواست کردیا جاتا ہے ۔

یہی خطرناک مستقبل ہندوستان کے مسلمانوں کو محسوس ہوا اور 1937ء کے الیکشن کے بعد جب پہلی ہندو کانگریسی حکومت بنی تو مسلمانوں کو اس کا خوب عملی نظارہ بھی ہوگیا ، اب ان کے خلاف مسلم کش فسادات کی بھرمار ہوگئی ۔ مسلمانوں کا اذان تک کہنا محال ہوگیا چنانچہ ہندوستان کے مسلمان ایک کلمے کی بنیاد پر الگ وطن کے لیے متحد ہوئے اور بالآخر اپنی منزل مراد کو پالیا ۔

[pullquote]
لیکن یہ منزل کا ابھی پہلا سنگ میل تھا ۔
[/pullquote]

اصل منزل تو اس کلمے کے مطابق پورے ملک کو ڈھالنا تھا جس کی بنیاد پر یہ ملک حاصل ہوا لیکن افسوس کہ اس منزل کی طرف ہمارا سفر سست سے سست تر ہوتا گیا ، جو مسلمان کل تک بنگال سے لاہور تک متحد و یکجان تھے ، وہ علاقائی اور نسلی و لسانی تعصبات میں ڈوب کر پارہ پارہ ہوگئے ، کلمے سے دوری کی وجہ سے ہمارا آدھا ملک ہی ہم سے مستقل دور ہوگیا اور آج باقی ماندہ ملک بھی اسی طرح کے تعصبات میں ڈوبا ہوا ہے ۔

کاش کہ ہم غور کریں کہ وہ کیا چیز تھی جس پر متحد ہونے سے برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں ایک ایسا تحفہ ملا جسے آج بھی دنیا ایک معجزہ سمجھتی ہے ، یہ معجزہ آج بھی برپا ہوسکتا ہے ، ملک آج بھی دشمن کے عزائم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم ایک بار پھر اسی چیز پر متحد ہوجائیں جس پر متحد ہو کر مسلمانوں نے قیام پاکستان جیسا محیرالعقول کارنامہ سر انجام دیا تھا ۔

یہ چیز صرف اور صرف ہمارا کلمہ ” لا الٰہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ ” ہے ۔ یہ کل قیام پاکستان کا سبب تھا تو آج استحکام پاکستان اور بقائے پاکستان کی ضمانت بھی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے