قائداعظم، 23 مارچ اور 100 فٹ

/

یہ کوئی اوائل 1970 کی بات ہے لیاقت علی کے نام کے چرچے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کی دیواریں بھی اپنے کانوں سے سنا کرتی تھیں کیونکہ لیاقت علی کے صرف نام نہیں، کام میں بھی لیاقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ امتحانات قریب تھے، یونیورسٹی کی لائبریری سے نکلنے والے طلبا و طالبات کے ریلے نے کیفے ٹیریا کا رخ کیا۔ ایسے میں کسی من چلے نے نعرہ لگایا۔ "امتحانات کی رول نمبر سلپس آگئی ہیں۔ ” ابھی اسی اطلاع کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ ایک اور فقرہ اچھال دیا گیا۔ ” کلرک کہہ رہا ہے، لیاقت علی کی رولنمبر سلپ نہیں آئی۔ ”

لیاقت علی کے کیفے ٹیریا کی جانب اٹھتے قدم وہیں جم کر رہ گئے، الٹے قدموں لوٹا اور آفس کلرک کے کمرے میں جاکر دم لیا۔ کلرک سے استفسار کیا تو اس نے جواب دیا۔ ” آپ نے امتحانات کی فیس 120 روپے جمع نہیں کرائی تھی۔ آپ کا نام ہم نہیں بھیج سکے، فیس جمع کرادیں تو آپکا رولنمبر آجائے گا۔ ” لیاقت علی نے شعبہ فائن آرٹس کی سربراہ جمیلہ زیدی کے کمرے کا رخ کیا۔ قدم من بھاری تھے اور ذہن میں ایک ہی سوچ کہ ریڑھی لگانے والے کے بیٹے نے فنکار بننے کا خواب دیکھا بھی تو کیوں؟

جمیلہ زیدی پہلے ہی اپنی کوششوں سے لیاقت علی کی ماہانہ ٹیوشن فیس معاف کراچکی تھیں، انہوں نے لیاقت علی میں چھپے فنکار کو بھانپ لیا تھا۔ لیاقت علی نے ساری صورتحال سے میڈم جمیلہ کو آگاہ کیا۔ "میڈم ! میں کل گھر گیا تھا لیکن گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر ایک سو بیس روپے پورے کرلیتا، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میری فیس معاف ہو جا ئے گی۔ اگر میں صرف اس وجہ سے رہ گیا تو میرا سال ضائع ہوجائے گا۔ میرا دل ٹوٹ جائے گا”۔

میڈم جمیلہ آزردہ ہوگئیں اور پھر میز پر پڑے اپنے پرس کوٹٹولنے لگیں، پرس کو الٹایا تو اس میں سے کل 60 روپے نکلے، کچھ سوچا اور کہنے لگیں۔ ” چلو! میرے ساتھ۔” لیاقت علی کا ہاتھ پکڑا اور کلاس روم میں لے گئیں، طلبا کو مخاطب کرکے بولیں۔ ” بچو! آج آپ سے نیکی کے کام کی درخواست کرنے آئی ہوں۔ آپ کی ایک نیکی سے ایک ہونہار طالب علم کا مستقبل سنورسکتاہے، لیاقت صرف اس وجہ سے امتحان سے رہ رہا ہے کہ اس کے پاس فیس کے پیسے نہیں، اگر آپ سب دو دو روپے بھی جمع کریں تو اس کا سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔” میڈم کی تقریر نے سب پر اثر کیا اور چند منٹوں ہی میں فیس کے پیسے پورے ہوگئے، اگلے روز لیاقت کا رول نمبر آگیا، امتحان ہوا تو نہ صرف یونیورسٹی میں ٹاپ کیا بلکہ تین سو ساٹھ روپے وظیفہ بھی مقرر ہوگیا۔

یہ کہانی ہے رنگوں کے عاشق لیاقت علی کی، جس کو زندگی نے کئی رنگ دکھائے۔ میٹرک میں ڈرائنگ کا مضمون اس لیے نہ لے سکا کہ اس کے پاس کلرز اور جیومیٹری بکس خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد فلموں کے اشتہاری بورڈ بنا کر گھر کا خرچہ چلانے والے لیاقت علی نے پشاور یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کی تو اس کے اساتذہ کہا کرتے تھے۔ ” لیاقت علی ایک دن انہونی کریگا”۔

لیاقت علی کے شوق کی راہ میں رکاوٹیں تو کئی آئیں مگر کینوس پر رنگ بکھیرنے کا جنون کم نہ ہوا اور ایک دن یہی جنوں لیاقت علی کو دیار غیر لے گیا۔ دبئی کے حکمران شیخ زید کی عالمی شہرت یافتہ تصویر بنائی تو اس شاہکار نے عرب کے ریگستانوں میں اس کے فن کا سکہ رائج کردیا۔ شیخ زاید نے ذاتی ملاقات کے لئے وقت دیا تو لیاقت علی کی شہرت کی کہانی سفر کرتی پاکستان پہنچ گئی۔ وطن سے دور وطن کا نام گونجا تو لیاقت نے وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔

کئی ماہ مسلسل سوچ میں گم رہنے کے بعد لیاقت علی نے بیوی بچوں کو بتایا کہ وہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا پوٹریٹ بنانا چاہتا ہے۔ بیوی بچوں نے نہ صرف ہمت بندھائی بلکہ ساتھ دینے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ دوستوں سے مشورہ کے بعد لیاقت علی نے ابوظہبی کے سب سے بڑے ہوٹل فورٹی گرینڈ میں پریس کانفرنس کی اور قائداعظم کا 3840 مربع فٹ پوٹریٹ بنانے کا اعلان کردیا۔ جس پر اخراجات کا تخمینہ دس ہزار ڈالرلگایا گیا۔ لیاقت علی نے کام شروع ہی کیا تھا کہ دوسرے روز ایک دوست نے خبر سنائی۔ ” ایک انڈین آرٹسٹ نے گاندھی کا 4 ہزار مربع فٹ پوٹرریٹ بنانے کا اعلان کیا ہے۔” قدرت، لیاقت علی سے کوئی بڑا کام کروانا چاہتی تھی، اس نے قائداعظم کا دنیا کا سب سے بڑا 8 ہزار مربع فٹ کا پوٹرریٹ بنانے کا اعلان کردیا۔

یہ 1999 کی دوسری ششماہی کی بات ہے، ان دنوں ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ لیاقت علی پاکستان آیا۔ ایک دوست کی وساطت سے اسلام آباد مارگلہ روڈ کے مسلم لیگ ہاوس میں اس وقت کے وزیر خارجہ اور آج کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملا۔ لیاقت علی نے سرتاج عزیز سے اپنے ارادے کا ذکر کیا۔ سرتاج عزیز نے حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ کہ آپ قائداعظم کا تاریخی پوٹریٹ بنائیں، حکومت اسے کسی مناسب جگہ پر لگائے گی۔

لیاقت علی نے ان کی بات ذہن میں بٹھالی، واپس لوٹا اور کام شروع کردیا۔ شاید اپنی زندگی کا سب سے بڑا کام، ابو ظہبی میں اس کا گھر، قائداعظم کا گھر بن گیا۔ اب وہ تھا اور قائداعظم کا پوڑٹریٹ۔ اس کے بیوی بچے بھی اس کام میں اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اور پھر ایک دن انہونی ہوگئی۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا 8 ہزار مربع فٹ کا تاریخی پورٹریٹ تیار ہوگیا۔ اس دوران ملک میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی اور اقتدار جنرل مشرف کے ہاتھ میں آگیا۔ قائداعظم کے عاشق لیاقت علی نے نہ صرف ذاتی جمع پونجی سے قائد کا پورٹریٹ تیار کیا بلکہ اپنے ہی اخراجات پر 8 مارچ 2001 کو پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے حکومت پاکستان کو بھیج دیا۔

یہاں سے شروع ہوئی ایک نئی کہانی جو آج بھی اپنے انجام کی منتظر ہے، 23 مارچ سے 14 اگست اور پھر 14 اگست سے 25 دسمبر 2001 ، مناسب مقام کی تلاش کے نام پر ، اس شاہکار پورٹریٹ کی تنصیب کی تاریخیں بڑھتی ہی گئیں، 15 برس گزر گئے۔ اس دوران مشرف، جمالی، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، آصف زرداری، نواز شریف۔ سب نے اپنا اپنا ” مقام ” پا لیا مگر قائد کی تصویر کو اس کا مقام نہ مل سکا۔

لیاقت علی بتاتے ہیں کہ دبئی میں ایک ملاقات کے دوران شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ ” لیاقت علی ! تمہارا شاہکار پورٹریٹ ہم اپنی حکومت کے دوارن پاکستان میں لگائیں گے۔ "۔جانے والی چلی گئی مگر شہید بی بی کے سر کا سائیں ( آصف زرداری ) عہدہ صدارت پر اور بھائی ( یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ) وزارت عظمی کے منصب پر فائز پونے کے باوجود، لیاقت علی سے، ایک شہید کا گیا وعدہ پورا نہ کرسکے۔

اس دوران کہانی میں ایک نیا موڑ بھی آیا، حکمرانوں کے بعد شہر اقتدار کی بیورو کریسی اور وفاقی ترقیاتی ادارے نے بھی لیاقت علی کے فن کا مذاق اڑا کر رکھ دیا، سی ڈی اے کے گودام میں برسوں سے پڑی، برباد ہوتی، اس شاہکار تصویر کو بعض اعلی افسران، اپنے گھر کی چھت اور گاڑیوں کے گیراج بنانے میں استعمال کرتے رہے، اپنے کرب کو دور کرنے کے لیے، پوٹریٹ کا ایک بڑا حصہ لیاقت علی کو پھر سے بنانا پڑا۔ لیاقت علی کا بچپن تو مصائب و آلام سے عبارت رہا ہی، اب ان کا بڑھاپا بھی رنج و غم کی داستان نظر آتا ہے۔ زندگی کے کینوس پر کئی طرح کے رنگ بکھیرنے والا لیاقت علی، آرام کرنے کے دنوں میں شہر اقتدار کی سڑکوں پر قائد کی تصویر کا ماڈل اٹھائے، دورخلاووں میں کچھ ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔

لیاقت علی نے قائد اعظم کا سب سے بڑا پوٹریٹ بنا کر قائد اعظم سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ۔15 برس گزر گئے مگر حکومتی اداروں کو قائد کے پاکستان میں قائد کی یہ تصویر آوایزاں کرنے کو جگہ نہ مل سکی۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ آج ملک میں دوبارہ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی حکومت ہے اور سرتاج عزیز بھی اہم حکومتی عہدے پر فائز۔ 23 مارچ، یوم پاکستان کو قائد کی یہ تصویر ہم سے پوچھتی ہے۔” کیا 8 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط، قائد کے پاکستان میں، قائد ہی کی تصویر لگانے کو 100 فٹ جگہ بھی موجود نہیں”؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے