بجھتے چراغوں سےکسی روشنی؟

اس نے کہا مجهے میرا عکس نہیں دِکهتا،آئینہ بارہا دیکها مگر جو شخص اس میں ہے وه شناسا نہیں لگتا..گر یہ میں ہی ہو تو اجنبی کیوں ہو خود سے؟؟…
اپنی مستی میں گم شخص تجھے یہ کون سمجھائے…کہ اپنا عکس اپنی آنکھ میں کب دِکھتا ہے؟
خود کو دیکھنا ہے تو کسی کی مسکراہٹ میں دیکھ،کسی کی باتوں میں،آنکھوں کی چمک اور آنسووں کی نمی میں دیکھ…..
یہ خالی آئینے تو جسم کا عکس دِکھاتے ہیں..پتھر آنکھیں اور سپاٹ نقوش!….
جب تک دل کی زمیں سخت ہے یہ جسم اک ریگستان ہے اورریگستانوں میں بھلا پھول کھلتے ہیں…
ہاں ہاں..تم ان نخلستانوں کی بات نہ کرو کی یہ نخلستان تو یادیں ہیں ان دنوں کی جب یہ ریگستان اک چمن ہوا کرتا تھا یہاں بھی پھول کھلا کرتے تھے اور پرندے چہچہاتے تھے.بادصبا پھولوں کی مہک میں ڈوبی کسی نازنیں کی طرح سبک سبک چال چلا کرتی تھی.یہ جو نخلستاں تم دیکھ رہے ہونارات بھر اس دل میں چراغوں کی طرح جلتے ہیں کہ چمن اجڑ بھی جائے تو آثارتو باقی رہتے ہیں….
کیا کہتے ہو…اس چمن کی کہانی سننی ہے..
لو سنو!..
پھولوں کی آبیاری تو نرم زمیں پر ہوتی ہے..سخت دل کیا بھلا کیا خاک پھول کھلائیں گے.پھول کھلانا آسان نہیں ہے خوشبو پانا آسان تھوڑا ہے.انا کے بت توڑنے پڑتے ہیں تب دل کی زمیں نرم پڑتی ہے..شکوے،گلے،رنجشیں،ناراضگیاں،زخم اور عزت نفس..ہاں ہاں عزت نفس…محبت کی پہلی ضرب عزت نفس پر ہی پڑا کرتی ہے….ان سب کو بیچ کی مانند دفن کرنا پڑتاہے.آنسووں اور خون کی آبیاری سے انکی سیچائ ہوا کرتی ہے..تب صبراور تحمل کی طاقت سے محبت کھلا کرتی ہے.
اور تم آساں سمجھتے ہو پھول کھلانا،اس چمن کی ہر لحظہ دیکھ بھال کرتی پڑتی ہے.ہر رشتہ نازک کونپل سا ہوتا ہے.ذرا روئیے کی تپش بڑھی اور مرجھاگیا۔ ۔ ۔
رشتے غلط فہمی کی گرم ہوا نہیں سہہ سکتے.نفرت غصے کی تمازت گرمیوں کی لو جیسی ہوتی ہے.رشتے محبت سے پھلتے پھولتے ہیں اور پیار کی ہوا سے مہکتے ہیں.
اچها تم نے یہ پھل بھری شاخ دیکھی..یہ دوسری شاخوں کی طرح سرو نہیں کسی بوڑھے کی کمر کی مانند جھکی ہوئ ہے.یہ اسکا ضعف نہیں اس پر لدے پھلوں کا اعجاز ہے. یہ پھل اسکا حاصل ہے جیسے بوڑھے کا حاصل اسکا تجربہ اسکی عمر کا حاصل….یہ جو لوچ ہے..یہ آگہی کا لوچ ہے..جو جھکنا سکھاتی ہے…جو جھکنا جانتی ہے..
تمھیں پتہ ہے جب آگہی آتی ہے تو دل پھٹ کر ہل چلی زمین کی طرح نرم اور زرخیز ہوجاتا ہے.پهر سمجھ آتاہے یہ ہستی تو بے معنی ہے..پھر اپنے ہاتھ بوجھ لگنے لگتے ہیں جو بس اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں..پھر یہ ھاتھ کسی کے آنسو پوچھیں نوالہ کھلائیں تو سکھ ملتاہے.
پھر سمجھ آتاہے..کیوں انا کی بیڑی پیروں میں ڈالیں روٹھوں کے لوٹنے کا انتظار کریں جب قدم انکی طرف بڑھتے ہیں تب کندھوں کا بوجھ اترتاہے..
پھر آنکھوں میں دئیوں کی چمک آتی ہے.اور سورج کی کرنیں گالوں پر شفق بناتی ہیں.تم کیا جانو آنکھیں تو روح کی کھڑکی ہیں.یہ جو جوت ہے دئیوں کی ان میں یہ سب کرموں کی دین ہے.کہ حاصل زندگی تو بس دوسروں کے لئے جیناہے.اپنے لئے تو کچھ بھی نہیں…
ہاں ٹھیک کہتے ہو..کہ یہ چمن ریگستاں کیسے بنا….
کیا تم اب بھی نہیں سمجھے..سارے شکوے،گلے،شکایتیں،زخم تو تم نے لوٹادئیے..زباں سے کہہ کر گنوادئیے…توبویاکیا…..
غصے،تنفر،ناراضگی نے آنسو نکلنے سے پہلے ہی خشک کردئیے تو دل کی زمیں پر بارشیں کیسے ہو…کچھ آنسوں بہنے کے لئیے ہوتے ہیں کچھ آنسوں پینے کے لئیے….
جب انا پیروں کی زنجیر بن جائے اور غلط فہمی کے پردے مابین آجائے پھر کہاں کچھ دِکھتاہے….
پھر تم کہتے ہو…تمھارا چہره تمھیں نہیں دِکھتا…تم بتاو ذرا بجھے دئیے بھی کبھی اندھیرا ختم کرتے ہیں؟؟….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے