منظم انتشار

الطاف حسین سے جدا ہوکر ایم کیو ایم کے باغیوں نے جب کراچی کی ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کے ایک بنگلے میں اپنا دفتر بنایا تو میں نے اسے ’’کمال کی ہٹی‘‘ کا نام دیا۔ ابھی تک اپنا نام ڈھونڈتی اور منشور وغیرہ طے کرنے میں مصروف ایک ممکنہ سیاسی جماعت کو ’’ہٹی‘‘ کا نام دینا مگر صرف میرا روایتی پھکڑ پن نہ تھا۔ اصل مقصد اس پہلو کو اجاگر کرنا تھا کہ کسی زمانے کے لالوکھیت اور گولیمار کی بے نور گلیوں میں پل کر جوان ہوئے ’’بھائی کے دیوانے‘‘ جنہیں ایک زمانے تک ’’منزل نہیں رہ نما چاہیے‘‘ تھا اب ’’صاب(Gentleman)‘‘بن چکے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی مختلف حوالوں سے ایسی ترقی یا انگریزی والی Upward Mobilityکو Gentrificationکا نام بھی دیا جاتا ہے۔

بھارت کے ممبئی میں شیوسینا کی نمو اور عروج کے بعد سیاسی محققین نے Criminalisation of Politicsکا نام دیا تھا۔ جرم اور سیاست کا ملاپ۔ یہ ملاپ ہوجائے تو سیاسی جماعتیں عام جمہوری انداز میں معاشرے کے تمام تر طبقات کو اپنے ساتھ ملانے کے جھنجھٹ میں اُلجھنے کے بجائے اپنی Core Constituencyتک محدود ہوکررہ جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم نے ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ ہوتے ہوئے سندھ کے شہری علاقوں میں یہی عمل دہرایا تھا۔

1988ء کے بعد سے کراچی کے ان علاقوں میں جہاں اُردو بولنے والوں کی اکثریت رہائش پذیر تھی، ایم کیو ایم نے ان کے داخلی راستوں پر دروازے اور چیک پوسٹیں بناکر درحقیقت ایک خود مختار دکھتی ’’ضمنی ریاست‘‘ کی ایک حوالے سے حد بندی کردی تھی۔ کوئی بھی ریاست خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو اپنے زیر نگین علاقوں میں ایسے خود مختار اور متوازی ریاست کی صورت اختیار کئے رقبوں کا وجود برداشت نہیں کرسکتی۔ ریاستِ پاکستان کو لہذا اپنی رٹ کا احساس دلانے کے لئے 1992ء کا آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد نواز شریف کی پہلی منتخب حکومت فارغ کردی گئی۔ اس کے بعد آنے والی بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے مگر یہ آپریشن نصیر اللہ بابر کی گرم جوش قیادت میں جاری رکھا۔ لطیفہ اگرچہ یہ بھی ہوا کہ اس حکومت کو برطرف کرنے کے لئے پیپلز پارٹی ہی کے بنائے صدر فاروق لغاری نے جب اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ تیار کی تو اس میں سر فہرست ’’کراچی میں ماورائے عدالت قتل‘‘ کا الزام نظر آیا۔

Criminalizeہوئی سیاسی جماعتوں کو مبینہ طورپر عادی مجرموں اور اُجرتی قاتلوں کی بالادستی سے آزاد کروانے کے لئے ریاستیں اپنی قوت کے استعمال کے ساتھ ہی ساتھ اس جماعت کے ’’صرف سیاسی‘‘ افراد کی پشت پناہی بھی کیا کرتی ہیں۔ 1992ء میں ایسی پشت پناہی نصیب ہوئی آفاق احمد کو۔ موصوف کو مگر ’’نوگو ایریاز‘‘ قائم کرنے کے علاوہ سیاست کا کوئی اور ڈھنگ آتا ہی نہیں تھا۔ بالآخر لانڈھی میں اپنے مرکز تک محدود ہوکر رہ گئے۔ جنرل مشرف کی فیاضانہ سرپرستی کے باوجود ایم کیو ایم کو ان کے ’’زیر نگین علاقوں‘‘ تک پہنچ کر اپنی جگہ بنانے کو کئی سال لگے۔

’’کمال کی ہٹی‘‘ مجھے آفاق احمد کے ’’وائٹ ہائوس‘‘ جیسے بعدازاں ’’بیت الحمزہ‘‘ کا نام دیا گیا سے مختلف اس لئے لگی کہ یہ ہٹی ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں کھولی گئی۔ اس سوسائٹی کا انتظامی کنٹرول DHAکے پاس ہوتا ہے اور اس سوسائٹی کے مکین کسی ایک لسانی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہاں پاکستان کے تقریباََ تمام تر ثقافتی، نسلی اور لسانی گروہوں سے متعلق لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں رہنے والا معاشی اعتبار سے نسبتاََ خوش حال متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی سوچ اور ترجیحات کچی بستیوں کی کچرا بھری اور بے نور گلیوں کے مکینوں سے قطعاََ مختلف ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد کسی زمانے کا مبینہ طور پر ٹارگٹ کلر اور عادی مجرم (Criminal)درحقیقت ’’صاب‘‘ بن کر Gentrifyہوجاتا ہے۔ ’’کمال کی ہٹی‘‘ کو اسی لئے میں نے Gentrificationکی علامت قرار دیا اور اس خدشے کا اظہار بھی کہ یہ ہٹی کسی زمانے میں گولیمار اور لالوکھیت کہلانے والے علاقوں کی بے نور گلیوں میں محصور ومحدود ہوئے نوجوانوں کے دل نہ جیت پائے گی۔

چند روز قبل میں نے اس کالم میں Laurent Gayerنام کے ایک فرانسیسی محقق کا ذکر بھی کیا تھا۔ کراچی میں بہت عرصہ گزارنے اور اس کے تمام علاقوں کے بارہا دوروں کے بعد اس نے ایک کتاب لکھی ہے۔ نام اس کتاب کا ہے ’’کراچی‘‘۔ نام سے کہیں زیادہ اہم وہ ذیلی عنوان ہے جو اس نے اپنی کتاب کو دیا۔ انگریزی میں اسے “Ordered Disorder and the Struggle for the City”۔ مجھے ذاتی طورپر “Ordered Disorder”کا استعمال جس کا ترجمہ میں نے ’’منظم انتشار‘‘ کیا تھا بہت پسند آیا۔ لارنٹ نے یہ اصطلاع جرمن زبان کے انتہائی جدید اور بے پناہ اختراعی ذہن والے ڈرامہ نگار-بریخت-سے مستعارلی تھی۔ بریخت نے اس اصطلاع کو ہٹلر کے عروج کا سہولت کار بنانے والے ماحول کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے آپ سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وقتاََفوقتاََ اس کالم میں لارنٹ کی کتاب کے چند اہم ابواب کا تفصیلی ذکر کرتا رہوں گا۔

اپنا یہ وعدہ نبھانے کی خاطر میں نے لارنٹ کی کتاب کو ابھی تک اپنے سرہانے رکھا ہوا ہے۔ اتوار کی شام اسے دوبارہ کھول کر رات گئے تک پڑھتا رہا۔ فی الوقت جو بات فوراََ دل کو لگی وہ لارنٹ کا ان ’’تعمیراتی کاموں‘‘ کا تجزیہ تھا جو مصطفیٰ کمال کے زیر نگرانی سوچے گئے اور جنہیں اس نوجوان ناظم نے بڑی تن دہی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔

لارنٹ نے کڑی تحقیق کے بعد دریافت یہ کیا کہ کراچی کا طاقت ور ناظم ہوتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے سب سے زیادہ توجہ فلائی اوورز کی تعمیر پر مرکوز رکھی۔ 2001ء سے 2012ء میں شہر کراچی میں ایک نہیں 46فلائی اوورز تعمیر کئے گئے۔ مصطفیٰ کمال ان فلائی اوورز، انڈر اور بائی پاس کی تعمیر پر بہت نازاں رہے۔ ان کی تعمیر کا اصل مقصد مگر کیا تھا؟ اس کا جواب کسی اور نے نہیں بلکہ مصطفیٰ کمال نے ان الفاظ میں دیا ’’کراچی میں (فلائی اوورز وغیرہ کی تعمیر کے بعد) پہلی بار یہاں کے شہری اپنی گاڑیاں چلانے کا صحیح معنوں میں لطف لے رہے ہیں‘‘۔

اصل مقصد اگرچہ گاڑی کے مالکوں کو تیز ڈرائیونگ کا لطف فراہم کرنا ہی نہیں تھا۔ بنیادی ہدف یہ بھی تھا کہ گاڑیوں کے خوشحال اُردو بولنے والے مہاجروں کو سفر کرتے وقت ان علاقوں سے گزرنا نہ پڑے جہاں غیر مہاجروں کی اکثریت تھی۔ ان علاقوں کو Bypassکرنا مقصود تھا۔ غیر مہاجر گندی، گنجان آبادی اور بے نور گلیوں کو Bypassکرتے ہوئے مصطفیٰ کمال Gentrifyہونا شروع ہوگیا تو بالآخر نوبت بہ اینجا رسید کہ اس نے اپنی نئی ہٹی کسی زمانے میں لالو کھیت اور گولی مار کہلاتے علاقوں اور ان کے مکینوں کو Bypassکرتے ہوئے کراچی کی ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں کھول لی ہے۔ یہ Bypassکئے لوگوں کی حقیقی ترجمان بن ہی نہیں سکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے