ڈونلڈ ٹرمپ، نفرت کا سوداگر ؟

اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے تو مستقبل کا امریکہ کیسا ہو گا، یہ سوال صرف امریکہ میں ہی نہیں پوری دنیا میں زیر بحث ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر ایک اور بات اہم ہے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو بھی مستقبل کا امریکہ کیسا ہو گا ؟

ٹرمپ صدارتی دوڑ میں شامل ہوئے تو کچھ زیادہ اہمیت نہ پا سکے، رئیل اسٹیٹ کا بزنس ٹائیکون، ایک ٹی وی ہوسٹ، کوئی سیاسی تجربہ نہیں، حلیے، انداز تخاطب اور رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر امریکی سیاست کا ایک انوکھا واقعہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی مقبولیت حاصل کرتے گئے کہ سیاسی پنڈت بھی بوکھلا اٹھے، امریکی اشرافیہ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں

شاید سیاست کا کوئی تجربہ نہ ہونا ہی ٹرمپ کی سب سے بڑی کامیابی بنی، خواتین کیلئے غیر اخلاقی جملے بازی، مکسیکو سے نقل مکانی کرنیوالوں پر نفرت انگیز سیاسی حملے، کالوں کے خلاف نسل پرستانہ رویہ اور سب سے بڑھ کر مسلم دشمنی کا کھلم کھلا اظہار، یہ سب کچھ کسی معمولی سیاستداں کے بھی بس کی بات نہیں، تعصب اور تنازعات ٹرمپ کی پہچان بنتے رہے اور عوامی مقبولیت آسمان چھونے لگی

آج ڈونلڈ ٹرمپ کی سب سے بڑی پہچان مسلم دشمنی ہے، انہوں نے اپنی نفرت کو چھپانے کی کبھی کوئی کوشش کی اور نہ ہی تاویلات کا سہارا لیا، ٹرمپ کھل کر مسلم دشمنی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے اور مساجد پر پر پابندی تک کا برملا اظہار کرنے میں نہیں چوکتے، اس کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت عروج پر ہے اور یہ واضح ہے کہ ہلیری کلنٹن کے مقابلے پر اب صرف ٹرمپ ہیں

موجودہ سیاسی تباظر میں یہ سوال صرف امریکہ کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے نہایت اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد دنیا کیسی ہو گی، فیصلہ بہرحال 8 نومبر کو ہو گا، بڑی روشن خیالی کیساتھ یہ فرض کر لیا جائے کہ ٹرمپ انتخابات ہار جاتے ہیں تو کیا ہو گا؟

جیت یا ہار، حقیقت تو یہ ہے کہ ٹرمپ ہار بھی جائیں تب بھی امریکی معاشرے میں ایسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن چکے ہیں جسکو دنیا نظر انداز نہیں کر سکتی، روشن خیال امریکی عوام کے ذھنوں میں نفرت کے ایسے بیج بو چکے ہیں جسکی فصل کاٹنا ناگزیر ہے، انتہا پسندانہ سوچ کے باوجود ٹرمپ کی بڑھتی مقبولیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امریکی عوام مسلم دشمن اور برہنہ نسل پرستانہ رویے کو تیزی سے قبول کر رہے ہیں، امریکی روایات اور سوچ میں تیزی سے بڑی تبدیلی آ رہی ہے، مستقبل کا امریکہ یقینی طور پر آج کے امریکہ کے قطعی مختلف ہو گا

امریکہ دنیا جمہوریت کی سب سے بڑی پہچان، امریکی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی عوام روشن خیال، غیر متعصب، اظہار آزادی کے علمبردار اور دیگر معاشرتی اقدار و مذاہب کا احترام کرنیوالے تصور کیے جاتے ہیں، امریکی آئین بھی تمام مذاہب، برادریوں کے حقوق کے تحفظ کا نگہباں تصور کیا جاتا ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہا پسندانہ سیاسی سوچ امریکی معاشرے میں دراڑ ڈالنے ڈال چکی ہے، روایت پسند اور روشن خیال امریکی جلد خاموش اکثریت میں تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں جبکہ متعصبانہ اور متکبرانہ سوچ کے حامل امریکی ٹرمپ کی چھتری تلے بڑھتے جا رہے ہیں

امریکہ تاریخ کی تبدیلی کے اہم موڑ پر ہے، اس نظریاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا بھی نہیں بچ سکتی، پچاس کی دہائی کے آخر میں روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی نسل پرستی کے خلاف تحریک، منٹگمری بس بائیکاٹ نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا، بالاخر 1964 میں سیاہ فام شہریوں کو ووٹ کا حق ملا، 1963 سے خواتین کے حقوق کیلئے شروع ہونیوالی تحریک نے بالاخر 1972 میں کانگریس کو خواتین کو یکساں حقوق دینے کی آئینی ترمیم کرنے پر مجبور کیا، 80 کی دہائی میں میں صدر رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دوچار اور امریکہ کو نیو ورلڈ آرڈر کی راہ پر ڈالا، دنیا کا واحد سپر پاور امریکی ریاست آج پھر نظریاتی تبدیلی کے موڑ پر کھڑی ہے، امریکی عوام کے ذھنوں میں اگائی گئی ٹرمپ کی فصل تیاری کے مراحل میں ہے

گندم از گندم بروید جو از جو، یعنی گندم بوئو گے تو گندم پائو گے اور جو بوئو گے تو جو، یہ بات ہم پاکستانیوں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہو گا، جنرل ایوب کے دور میں بنگالی نفرت کی فصل سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں کاٹی، جنرل ضیا کی نفرت کی فصل کو 60 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد بھی کاٹ رہے ہیں، آج پورا پاکستانی معاشرہ انتہا پسندانہ سوچ کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، نفرت کا سودا نسل در نسل چل رہا ہے، قبائلی علاقوں سے لے کر بڑے شہروں تک، غریب، امیر۔ جایل، پڑھے لکھے، عورت، مرد بچے، سب نفرت کی فصل کی لپیٹ میں ہیں، معاشرہ تقسیم کا شکار ہے، خاموش اکثریت نفرت کے سوداگروں کے نشانے پر ہے، نفرت، انتہاپسندی، زہریلی سوچ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے، ساتھ دیں یا مقابلہ کریں، تیسری کوئی صورت نہیں

کچھ ایسا ہی بھارت میں ہوا، سنگھ پریوار کے بوئی گئی نفرت کی فصل آج پک چکی ہے، راشٹریہ سیوک سنگھ سے لیکر شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی تک ایک طویل تاریخ سے نفرت کی، گجرات کے وزیر اعلیٰ اور بھارت کے وزیر اعظم میں بڑا فرق ہے، آج کے نریندر مودی ماضی سے پیچھا چھڑانے کی کتنی کوشش کیوں نہ کریں، عوام کے ذھنوں میں اگائی گئی نفرت کی فصل کو ختم نہیں کی طاقت نہیں رکھتے، ہندووتا کے پرچارک عوامی جذبات کو قابو کرنے میں ناکام ہیں، آج بھارت میں مسلمانوں سمیت کوئی اقلیت محفوظ نہیں

ہر ذی روح کو موت آنی ہے، مگر سوچ زندہ رہتی ہے، مٹایا نہیں جا سکتا، سوچ اچھی ہو یا بری، محبت و اخوت کی ہو یا نفرت اور انتہا پسندی کی، سب کو متاثر کرتی ہے

امریکہ میں تعصب اور انتہاپسندی کی یہ فضا ابتدائی مراحل میں ہے، ڈونلڈ ٹرمپ امریکی عوام کے ذھنوں میں فصل بو چکے ہیں، حیرت انگیز عوامی مقبولیت زمین کی زرخیزی کی مظہر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا ہاریں، دنیا کے سب سے زیادہ روشن خیال معاشرے کو مسموم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں، زندہ دل امریکی معاشرہ ٹرمپ کے زہریلے افکار کو تیزی سے قبول کر رہا ہے، امریکہ معاشرہ کتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، کتنا لڑ سکتا ہے اس سوچ کے خلاف، یہ فیصلہ وقت کرے گا، مگر یہ بات طے ہے کہ امریکی تبدیلی پوری دنیا کو متاثر کریگی، آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے