سیکولرزم کی مختصر تاریخ

سیکولرازم کی جس طرح کوئی ایک متفقہ تعریف مشکل ہے اسی طرح اس کی جاۓ پیدائش اورتاریخ پیدائش کے بارے میں بھی حتمی طورپر کہنا آسان نہیں- بعض ماہرین سیاسیات یونانی فلسفی انیگزاگورس کو سیکولرازم کا جدامجد سمجھتے ہیں جنہوں نے کائنات کے بارے میں مروجہ مذہبی عقائد کو مسترد کرتے ہوۓ عقلی توجیہات پیش کیں تھیں- لیکن عمومی طورپر یہی مانا جاتا ہے کہ سیکولرازم یورپ میں احیاۓ علوم اور ریفارمیشن کے دور سے باقاعدہ پروان چڑھنا شروع ہوا-

قرون اولی سے لیکر احیاۓ علوم کی تحریک تک یورپ کے اندرپاپائیت کا دور دورہ رہا- اس دوران عیسائی پادری نہ صرف کنگ میکرز رہے بلکہ بڑے بڑے علاقے بھی براہ راست ان کے زیر انتظام رہتے تھے- تحریک احیاۓ علوم اور اس کے بعد پے درپے کئی عوامل کارفرما ہوتے گئے جس کے نتیجے میں نہ صرف مذہبی پیشواووں کا اقتدار اور شان وشوکت قصہ پارینہ بن گیا بلکہ ریاستی معاملات میں مذہب کا کردار بھی ختم ہو۔

پہلا عامل ہیومنزم یعنی بشریت کا تھا جس نےکسی مافوق الفطری ذات (خدا) کی بجاۓ انسان کوعلم ، فکر اور فیصلہ کرنے کے لئے مختار کل قراردیا- ایسے میں نودولتیا طبقہ وجود میں آیا جس کو خدا اور مذہبی قصے کہانیوں سے زیادہ دولت، قیادت اورمادی ترقی سے سروکار تھا- نیشنل ازم ابھرا تو چرچ اور اہل مذہب تقسیم ہوتے چلے گئے- تقسیم کے بعد باہمی جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہوا- مذہبی بنیادوں پر لمبی خونریزجنگیں لڑی گئیں- معاہدہ ویسٹ فیلیا ان مذہبی جنگوں سے بیزاری کی ایک تاریخی دستاویز ہے-

اس کے بعد ایک زندہ متحرک اورریاستی و سماجی سطح پر باثرمذہب ان عوامل کے سامنے کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا – سب سے مہلک کاٹ سائنس نے لگائی- سائنس نے عیسائی مذہب کے صدیوں پرانے عقائد کی قلعی کھول کررکھ دی- اب تابوت پر آخری کیل کا کام بائبل پر نئی تنقید و تفسیرنے کیا جس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ بائبل کس حد تک انسان کی گھڑی ہوئی کہانیوں سے بھری پڑی ہے- اس پورے عرصے کے دوران والٹیئر، ہیوم، نیتشے، مارکس، اور ڈارون جیسے بڑے بڑے اور معتبر شخصیات نے یا تومذہبی عقائد کا کھل کر مذاق اڑایا یا ان کو عقل و فہم کے خلاف قراردیا- آخر وہی ہوا کہ لوگ مذہب کو ریاست سے بے دخل تو کرہی گئے، ساتھ سماجی اداروں اور ذاتی زندگی سے بھی مذہب رخصت ہوتا گیا۔

پندرہویں صدی عیسوی سے لیکر بیسیوں صدی تک یورپی اقوام پوری دنیا میں پھیل گئی اورنوآبادیاتی نظام کےتحت مفتوحہ علاقوں (بالخصوص شمالی اور جنوبی امریکہ ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، جنوبی افریقہ، مشرق بعید، جنوب مشرقی ایشیا، اور برصغیر پاک و ہند) میں گہرے اثرات چھوڑے- اس عمل میں سیکولرازم بھی یورپ سے نوآبادیات میں پھیل گیا- اٹھارہوں صدی کے اندر پیش آنے والا انقلاب فرانس اور انقلاب امریکہ نے سیکولرازم کی دو بڑی واضح مگر باہم مختلف ماڈلزکو جنم دیا- ایک فراسیسی ماڈل سیکولرازم جو جیکوبین ماحول کی وجہ سےمذہب کے بارے میں نہایت سخت گیر موقف لیکر ابھرا ، اور دوسرا امریکی ماڈل سیکولرازم جو پروٹسٹنٹ عیسائیت کی وجہ سے مذہب کے حوالے سےنسبتا” نرم اور ٹالرنٹ (روادار) اپروچ رکھتا ہے۔

سخت گیر سیکولرازم نے ایک طرف مارکسسٹ لیننسٹ آئیڈیالوجی کی صورت میں مذہب اور خدا کے تصور کو ہی مضحکہ خیز اور افیون کی طرح ناسور قرار دیکر اس کی ہر طرح سے بیخ کنی کی کوشش کی تو دوسری طرف فرنچ لائیسیتے کی صورت میں مذہب کے پبلک ڈسپلے پر بھی قدغنیں لگیں، یہاں تک کہ سکارف جیسے وہ سماجی اقدار بھی پابندیوں کے زد میں آئیں جو” خالصتا” مذہبی نوعیت کے تھے بھی نہیں- اس کے برعکس برطانیہ ، امریکہ اور چند دیگرمعاشروں میں کلچرل پلورل ازم (کثرتیت) کی صورت میں سیکولرازم نے مذہب کو ایک سماجی حقیقت کے طورپر برداشت کیا – سیکولرازم کی یہ مختلف رجحانات کم بیش فرق کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں دیکھی جاسکتی ہیں- (جاری ہے—

اگلی قسط کا موضوع ہے” پاکستان میں سیکولر ازم کیوں؟ “

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے