لاہور میں درندگی ،اسلام آباد میں شرمندگی

ایک طویل عرصے بعد دوحوالوں سے پاکستانی قوم عملا متحد اور منظم ہوگئی تھی۔

(1)مذہب ، مسلک ، زبان ، رنگ ، نسل اور دیگر تعصابات کے خلاف بلا امتیاز کارروائی اتحاد کا پہلا مرحلہ تھا۔ قومی ایکشن پلان میں اگرچہ اہل مذہب کو نشانہ بنایاگیا مگراہل مذہب نے بھی شدید خدشات و تحفظات کے باوجود قومی ایکشن پلان کی کامیابی میں اپنا ہر ممکن کردار اداکیا اور کر رہے ہیں کہ بچوں کے قاتلوں ، دہشت گردوں ، ان کے اندرونی و بیرونی سہولت کاروں کو منطقی انجام تک پہنچایاجائے۔ اس پرالحمد اللہ قوم آج بھی متحد ہے اگرچہ کچھ عناصر نے اس ایکشن کومخصوص طبقے کے خلاف استعمال کرانے کی ہر ممکن اندرونی وہ بیرونی کوشش کی مگر شکست ان کا مقدررہی ہے اور رہے گی۔

سانحہ لاہوردرندوں کا ایک ایسا زخم ہے جس نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیاہے، جب بزدل، درندے اورانسانیت دشمن عناصر کو ذلت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ پھر آخری حربے کے طور پر بچوں، عرتوں ، بزرگوں اور بے گناہوں کا انتخاب کرتے ہیں ، یہی کچھ لاہور میں ہوا۔ کیا قصور تھا ان معصوم بچوں اور عورتوں کا جو پارک میں صرف تفریح کے لئےآئے تھے ۔ اب قوم کو متحد ہو کر ایک فیصلہ کرنا ہوگاکہ اصل مجرموں کو رات کے اندھروں کی بجائے دن کی روشنی میں چوکوں اورچوراہوں پر نشان عبرت بنادیا جائے ۔سہولت کار اندرونی ہوں یا بیرونی ، فرد ہو یا افراد ، تنظیم ہو یا ملک ، پڑوسی ہویا غیر پڑوسی ، مسلم یا غیر مسلم اس کو بھی نشان عبرت بنا ضروری ہے۔ معصوموں کی شہادت نے ایک پھر قوم کو ایک صف پرلا کھڑا کردیا ہے ، بس یہ صف ٹوٹنے نہ پائے۔

(2)شہید ناموس رسالت ملک ممتاز حسین قادری شہید کی پھانسی کے خلاف پوری قوم متحد تھی،جس کا عملی مظاہرہ شہید کے نماز جنازے سے بھی ہوا۔اگر چہ کم علم لوگوں نے شہید کےعمل کو”مذہبی” فریضے کی بجائے "مسلکی” فریضہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی، شہادت کی رات مسلکی اختلافی منقبت کی مرحوم کی ویڈیو کا اجراء،شہادت کے بعد مخصوص مسلکی اور اختلافی علامات کی بھرپور رو نمائی وغیرہ وغیرہ مگر اس کے باوجود اکثر مکاتب فکرنے مرحوم کی سزا کے خلاف نہ صرف اپنے بھرپور غم وغصے کا اظہار کیا بلکہ عملی طور پر احتجاج میں صف اول میں رہے ۔ یہاں تک کہ مختلف مسالک کے بعض ایسے بزرگ جو عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کے لئے چند قدم چلنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ بھی جنازے میں شرکت اور سزا کے خلاف احتجاج میں شمولیت کو باعث نجات قراردیکر میلوں پیدل سفر کرتے رہے جن کا مقصد صرف اللہ کی رضا اورآقائے دوجہان کی شفاعت ہے ۔

افسوس کہ چہلم سے ایک روز قبل جنید جمشید کے ساتھ اسلام آباد کے انٹر نیشنل ائیرپورٹ پرچند مسلکی درندوں کی درندگی اوراب چہلم کے اجتماع کے بعد اسلام آباد کو میدان جنگ میں بدلنے کے عمل نے قوم کو تقسیم کردیا ہے۔بریلوی مسلک کے اکابرپہلے بھی اس کے خلاف تھے اور آج بھی ہیں ، جن کو جنازے کے روزبھی بزدل اور سرکاری پٹھوں سمیت مختلف القابات سے نوازا گیا۔

جنازے کے روز شہید کے والد کردارادا نہ کرتے تو پورا ملک میدان جنگ بن چکا ہوتا۔ افسوس کہ یہ سازشی عناصراس باراپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوگئے اور وفاقی دار الحکومت کو میدان جنگ بنادیا، جو چیز راستے میں آئی اس کو خاک میں بنادیا، میٹرو بس ایک قومی اثاثہ ہے اس کو شدید نقصان پہنچایاگیا، اب دنیا یہ سوال کر رہی ہے کہ کیا شہید ناموس رسالت ملک ممتاز حسین قادری شہید کا یہی مقصد اور سبق تھا؟

احتجاج سب کا حق ہے مگر جلاؤ گھیراؤاور لوٹ مار کی کسی کو اجازت نہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی املاک کوکوئی نقصان اسلحے پہنچائے یا ماچس کی تیلی سے، اسلام وملک کو بدنام بندوق سے
کرے یانام نہاد دھرنوں سے اب بلا امتیاز نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے اور اس کو بھی قومی ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے، ورنہ حالات خراب سے خراب تر ہونگے ۔

[pullquote]آئی بی سی اردو کا بلاگر کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ۔ آپ کو تحریر سے اتفاق نہیں تو آپ اپنا جواب ibcurdu@yahoo.comپر بھجوا سکتے ہیں ۔ شکریہ ۔عبدالجبار ناصر [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے