وفاقی حکومت پارلیمان کے سامنے بیٹھے ممتاز قادری کے حامیوں کو دو گھنٹے کی وارننگ دی ہے کہ وہ دھرنا ختم کر یں ورنہ آپریشن کیا جائے گا . ایف سی ، فوج اور رینجرز کے تازہ دم دست پہنچ گئے .
[pullquote]دھرنا کے شرکاء کو مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے دو گھنٹے کا نوٹس دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غیر قانونی دھرنا فی الفور ختم کیا جائے .[/pullquote]
تقریبا سات ہزار سے زائد اہلکار اس وقت ریڈ زون میں پہنچ چکے ہیں.
دھرنا قیادت کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ نے مذاکرات کر نے کی کوشش کی تاہم دھرنا قیادت نے اسلام آباد انتظامیہ سے مذاکرات کے بجائے وفاقی وزراء سے مذاکرات کا مطالبہ کیا .
ذرائع کے مطابق دھرنا قیادت لوگوں کے مسلسل چلے جانے کی وجہ سے پہلے ہی پریشانی کا شکار تھی . قیادت نے حکومت تک پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ ان کی باوقار روانگی کے لئے راجا ظفر الحق کو ہی بھجوا دیں تاکہ ان کے سامنے مطالبات پیش کر کے دھرنا ختم کر دیا جائے.
دھرنا شرکاء نے کراچی ائیر پورٹ پر وزیر اطلاعات پرویز رشید کو جوتا مارا اوران کے ساتھ گالم گلوچ کی . چہلم کے موقع پر اسلام آباد ائیر پورٹ کے اندر جنید جمشید کی مارا اور گالم گلوچ کی . ان دو واقعات کی وجہ سے حکومت نے کسی حکومتی نمائندے کو نہیں بھجوایا .
دھرنا شرکاء نے ڈی چوک میں دھرنے کے لیے کسی سے اجازت لی اور نا ہی اطلاع دی .
دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد کے شہری یرغمال بنے ہوئے ہیں اور شہری محصور ہیں . دوسری جانب کراچی میں بھی تین دنوں سے نمائش چورنگی پر مظاہرہ جاری ہے جس کی وجہ سے کراچی میں ٹریفک کا نظام انتہائی مشکلات کا شکا ہے .
[pullquote]دھرنے کے قیادت نے میڈیا کے ساتھ بدتمیزی بھی کی اور مائیک پر گالم گلوچ کی .[/pullquote]
دوسری جانب دھرنے کے شرکاء نے میٹرو بس کے سٹیشن توڑ ڈالے جس کی وجہ سے تین دنوں سے میٹرو بس سروس بند ہے . موبائل سروس بند ہے اور سیکرٹریٹ کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے .
اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے 700 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر کے انھیں پنجاب کی مخلتف جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔
کیپیٹل پولیس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 500 سے زائد مظاہرین کو اتوار کی رات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے جھڑپوں کے دوران گرفتار کیا گیا، جن میں کچھ رہنما بھی شامل ہیں۔ بقیہ گرفتاریاں پیر کو عمل میں آئیں۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ میں دھرنے میں شامل افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن دھرنے سے باہر جانے والے مظاہرین کی گرفتاری عمل میں آئی، (چاہے وہ کسی بنیادی ضرورت کے لیے گئے ہوں یا دھرنا چھوڑ کر گئے ہوں)۔
واضح رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پنجاب پولیس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تقریباً 2 ہزار مظاہرین نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون ایریا ڈی چوک میں دھرنا دے رکھا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ گرفتار مظاہرین کو کچھ پولیس تھانوں سمیت مختلف مقامات پر رکھا گیا اور بعدازاں انھیں اسلام آباد کے قریبی ضلعوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔
ایک پولیس اہلکار کے مطابق گرفتار شدگان کی جیلوں میں منتقلی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
مذکورہ اہلکار نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ بہت زیادہ تعداد میں گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، لہذا کیپیٹل پولیس پہلے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ جس جیل میں مظاہرین کو بھیجا جارہا ہے، وہاں جگہ موجود ہے یا نہیں۔
سنی تحریک (ایس ٹی) اور تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں یہ مظاہرین اتوار کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ممتاز قادری کے چلہم میں شرکت کے لیے پہنچے اور بعد ازاں انھوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔
یہ مظاہرین تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچے، جہاں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں، پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا جب کہ آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔
حکومتی درخواست پر پاک فوج کے دستوں کو بھی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون کی سیکیورٹی کیلئے طلب کرلیا گیا۔
ان مظاہرین نے اپنے مطالبات کی منظوری تک ریڈ زون میں دھرنا دے رکھا ہے، ان مطالبات میں ملک میں شریعت کا نفاذ، دہشت گردی اور قتل سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار کیے گئے سنی علماء اور رہنماؤں کی غیر مشروط رہائی، ممتاز قادری کو شہید تسلیم کیا جانا، راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قادری کے سیل کو قومی ورثہ قرار دینا اور توہین کے قوانین میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہ کیے جانے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں۔
اتوار کی شام سے شروع ہونے والا مذہبی جماعتوں کا احتجاج تاحال جاری ہے، تاہم دھرنے میں شریک افراد کی تعداد گذشتہ روز 10 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار رہ گئی تھی۔دو