حیا کی دیوی، وفا کی آیت، حجاب کی سلسبیل زہرا

حضرتِ فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کی وہ صاحبزدی ہے، جس سے آپ ﷺ اور پوری امتِ مسلمہ کے تمام افرادبے پناہ محبت کرتے ہیں،آپﷺ نے ان کو جو مشہور لقب عطافرمایاتھا،وہ (زہراء)ہے،جس کا معنی ہے پھول کی کی طرح خوبصورت وحسین۔ حسن ؓ وحسین ؓ کی والدہ اور نبی اکرمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباً پانچ سال قبل 20جمادیٰ الآخرہ بروزِ جمعہ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہوئی،حضرت فاطمہ ؓکی ولادت کے وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر تقریباً۳۵ سال تھی، اور یہ وہ وقت تھا جب کعبہ کی تعمیر نو ہورہی تھی،آپﷺ کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی، چنانچہ تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا ۲۔۳ سال سے زیادہ بقیدِحیات نہ رہ سکا،چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ہوگئی تھی۔حضرت فاطمہؓ جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اللہ ﷺکے بالکل مشابہ ہوتی تھی (مسلم) اسی طرح حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا،(ترمذی)۔

مسند احمد میں حضرت علی ؓ کا واقعہ خود ان کی زبانی نقل کیا گیا ہے : جب میں نے حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا، تو میں نے کہا، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، پھر یہ کام کیونکر انجام پائے گا؟ لیکن اس کے بعد ہی دل میں حضور اکرم ﷺکی سخاوت اور نوازش کا خیال آگیا۔میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغام نکاح دے دیا، آپ ﷺنے سوال فرمایا : تمہارے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری زرہ کہاں گئی؟ میں نے کہا: جی ہاں وہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اس کو فروخت کر دو۔یہ زرہ حضرت عثمان غنی ؓ نے خریدی، لیکن بعد میں سیدناعلی ؓ کو یہ زرہ بطورِ ہدیہ واپس کردی تھی،حضرت فاطمہؓ کا مہر۴۰۰ درہم سے ۵۰۰ درہم کے درمیان تھا،جس کو امت مسلمہ مہر فاطمی سے جانتی ہے۔جہیز صرف چند چیزوں پر مشتمل تھا

1ایک چارپائی۔2ایک بچھونا۔ 3۔ایک چمڑے کا تکیہ ۔4۔ایک چکی۔5۔ دو مشکیزے۔ شادی کے بعد آنحضرتﷺنے اختیاروقدرت کے باوجود غريبوں پر خرچ کرنا ضروری سمجھا ،چنانچہ حضرت فاطمہ ؓ کواپنے گھر کا سارا کام خود ہی کرناپڑتاتھا،جس کی وجہ سےچکي پيستے پيستے آپ کے مبارک ہاتھوں ميں گٹے بھی بن گئے تھے،کنويں سے ڈول کی رسی کھينچنے کی بناپر جسم میں چھالے پڑ گئے تھے، جس سے بسا اوقات خون رسنے لگتا، چولہا پھونکتے پھونکتے رخِ زيبا متغير ہو جاتا اور دھوئيں سے آنکھيں سرخ ہو جاتيں ،ايک دن حضرت علی ؓ نے جب حضرت سيدہ فاطمہؓ کی يہ حالت ديکھی، تو آپ تڑپ گئے اور فرمايا:فاطمہ، آج کل دربارِ رسالت ﷺ ميں بہت سے غلام اور کنيزيں آئی ہيں،حضورﷺ مالِ غنيمت تقسيم فرما رہے ہيں ،آپ بھی ايک کنيز مانگ لو، سيدہ فاطمہ ؓ حاضر ہوئيں، حضورﷺنے حضرت فاطمہ سے آنے کا مقصد دريافت فرمايا، تو وہ شرم و حيا کی وجہ سے اصل مُدّعیٰ بيان نہ کر سکيں ،عرض کيا ، زيارت وسلام کی غرض سے حاضر ہوئی ہوں ،یوں خالی ہاتھ واپس لوٹ گئيں،جب حضرت علی ؓنے جاننا چاہا،تو کہا ، شرم و حيا نے حضورﷺ کے آگے دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہيں دی، پھر دونوں بارگاہِ نبوت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا ،حضور! بارگاہ ميں بہت سے قيدی آئے ہوئے ہيں، کرم فرمائيے اور ان ميں سے کوئی کنيز يا غلام ہميں بھی عنايت فرما دیں، يہ سن کر سرکارِ دو عالم ؓنے فرمايا، آپ کو کوئی خادم نہيں دے سکتا، کيا ميں اہل صفہ کے حق کو چھوڑ دوں اور ان کو بھلادوں جو کہ محتاج ہيں، ميرے پاس ان غلاموں اور کنيزوں کے علاوہ کوئی چيز نہيں، جس سے ان کی امداد کروں ، ميں انھيں بيچ کر ان کی قيمت اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا،يہ سن کر دونوں ہی دامنِ صبر کو تھامے گھر واپس آ گئے، بعد میں ان کی دل جوئی کی خاطر خود رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشريف لائے اور فرمايا ، تم لوگ ميرے پاس جو چيز مانگنے آئے تھے ،کيا ميں تم کو اس سے اعلیٰ چيز نہ دوں ؟انہوں نے عرض کيا، ضرور عطا فرمائيے،تو آپ ﷺ نے فرمايا ، سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ، 33بار الحمدللہ اور 34بار اللہ اکبر کا ورد کيا کرو- يہي تمہارے ليے خادم ہے، اس سے تمہارے تمام مشکل کام آسان ہو جائيں گے- يہ وظيفہ پاکر حضرت ِمرتضیٰ اور حضرت زہراء رضی اللہ عنہما حد درجہ خوش ہو گئے(ابو داؤد ج۲ ص ۶۴)گویا آپ ﷺنے اپنی چہیتی بیٹی کو خادم یا خادمہ نہیں دی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بہترین بدلہ یعنی تسبیحات عطا فرمائیں، ان تسبیحات کو امت مسلمہ تسبیح فاطمی کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت فاطمہؓ کے بطن سے تین صاحبزادے حسنؓ ، حسینؓ اور محسنؓ اور دو صاحبزادیاں زینبؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئیں۔ حضرت محسنؓ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔

مباہلہ کا ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ ؓ کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا،نجران کے مسیحی جب محمد ﷺ سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے ،تو اللہ نے قرآن میں درج وحی نازل کی:اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں، ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ،ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61۔اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیتِ مباہلہ پر عمل کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہﷺ اپنے ساتھ حضرت حسنؓ اور حضرت حسین کو چادر میں لپیٹے ہوئے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں ،تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہ جائے گا۔
نیزآپﷺ حضرتِ فاطمۃ الزہراء سے کتنی محبت کرتے تھے اس کا اندازہ امام بخاری کی اس روایت سے لگایا جاسکتاہے: حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال: حدثني علي بن حسين ان المسور بن مخرمة قال: إن عليا خطب بنت ابي جهل فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله ﷺفقالت: يزعم قومك انك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت ابي جهل فقام رسول الله ﷺفسمعته حين تشهّد يقول:” اما بعد انكحت ابا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني وإن فاطمة بضعة مني وإني اكره ان يسوءها والله لا تجتمع بنت رسول الہي وبنت عدو الله عند رجل واحد ” ، فترك علي الخطبة ۔

حضرت علی ؓ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ ؓ کو ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺکے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے ،سیدنا علی ؓابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ ﷺنے صحابہ ؓ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ ﷺکو خطبہ پڑھتے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب ؓ کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی ،تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ (صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔

۳ رمضان المبارک۱۱ ھ (632ء)کو بعدمغرب ۲۹ سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں اور عشاءکے بعدان کی تدفین ہوئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے