جان تو آنی جانی ہے

شہر اقتدار کی خوبصورتی کسی موسم کی محتاج نہیں ہے بہار کی خوبصورتی ہو یا جاڑے کا رومانوی موسم، خزاں کی اداسی ہو یا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ۔۔ یہاں کے سبھی موسم اپنی دلکشی کے سحر میں مبتلا کرنے کو بےتاب نظر آتے ہیں۔۔ سبھی اہل دل فطری حسن کے سحر میں جکڑے نظر آتے ہیں۔۔

بہار کے ایسے ہی ایک دلفریب دن میں مرغزار چڑیا گھر جانے کا اتفاق ہوا۔۔ توقع تھی سانحہ لاہور کے بعد شاہد عوام میں خوف پایا جا رہا ہو گا۔۔ اور لوگ بمعہ اہل وعیال تفریحی مقامات پر جانے سے گریزاں ہوں گے۔۔ مگر وہاں جا کر خوشگوار حیرت ہوئی یونیفارم پہنے ہنستے مسکراتے بہت سے روشن چہرے نظر آئے۔۔ یاد آیا آج تو سرکاری سکولوں میں رزلٹ بھی تھا اور بچے اسی لیے یونیفارم میں ہی مرغزار چڑیا گھر آ رہے تھے۔۔ آخر پاس ہونے کے بعد سیلیبرشنز بھی تو بنتی ہیں نا۔۔

دشمن نے کیسے کیسے ظالم وار نہ کیے۔۔ کبھی سکولوں پر حملہ، کبھی یونیورسٹیز پر، کبھی مساجد میں اور کبھی امام بارگاہوں پر اور تو اور گزشتہ دنوں جب مسیحی برادری ایسڑ منا رہی تھی تو گلشن اقبال پارک میں بھی دھماکہ کر ڈالا جس میں ستر سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔۔ ہر وار کے بعد دشمن نے توقع کی ہو گی کہ شاید اب یہ قوم خوفزدہ ہو جائے۔۔ شائد اب یہ بچوں کو سکول بھیجنا چھوڑ دیں شاید اب یونیورسٹی جانے کے خیال سے نوجوان خوف میں مبتلا ہو جائیں۔ شاید اب لوگ مسجد اور امام بارگاہ جانا بند کر دیں۔۔ شاید تفریح گاہوں کو قبرستان بنا دیں تو اگلی دفعہ ایسے مقامات سے کوئی کھنکتی ہنسی سنائی نہ دے۔۔ مجھے یاد ہے دو نومبر دو ہزار چودہ کو واہگہ بارڈر پر پریڈ سے واپس جانے والوں پر بم دھماکہ ہوا دشمن نے سوچا ہو گا کہ شاید جذبے ماند پڑ جائیں۔۔ مگر کیا ہوا نہ بچوں نے سکول جانا چھوڑا اور نہ مساجد اور امام بارگاہیں بند ہوئی، نہ تفریح گاہوں کی رونقیں ماند پڑی اور نہ ہی دھماکے سے اگلے دن بھی واہگہ بارڈر پر عوام کا جوش کم ہوا۔۔

دشمن خون کی ہولی کھیلنے میں تو کامیاب ہے مگر ان جذبوں کو کیسے مات دے گا جو ہر حملے کے بعد مزید بڑھ جاتے ہیں۔۔ اس بہادری کو کیسے ختم کرے گا جو اس قوم کو میراث میں ملی ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر اس نڈر قوم سے کتنا مقابلہ کرے گا جس کو دلیری وراثت میں ملی ہے۔

وقت کا کام گزرنا ہے اچھا برا وقت بالحال گزر جاتا ہے۔۔ اگرچہ جانے والوں کا غم کبھی ختم نہیں ہوتا۔۔ ایک فرد کے جانے سے پورے پورے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔۔ یہ گھاو دل پر لگنے کے باوجود بھی پاکستان کے نام پر دھڑکتے دلوں کی رفتار کم نہیں ہوئی۔۔ غم کے بادل تو یقینا چھائے ہیں مگر ڈر اور خوف نے نہ تو بہار کے رنگ پھیکے کیے اور نہ جاڑے کی رومانیت کو کم کیا۔۔ خزاں کا طلسمی حسن اب بھی اہل دل کو جکڑے رکھتا ہے اور گرمیوں کا چمکتا سورج اب بھی آب و تاب برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔ سب کی جانیں قیمتی ہیں پھر بھی پاگل پاکستانی قوم کا ایک ایک فرد کہتا ہے.

وطن قائم رہے، جان تو آنی جانی ہے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے