نورانی کا منور بیٹا

واقفان حال کا کہنا ہے کہ شاہ اویس نورانی اور سعد رفیق مذاکرات میں کردار ادا نہ کرتے تو اسلام آباد میں بڑے تصادم کا امکان بڑگیا تھا۔شاہ اویس نورانی نے اپنے اس مثبت کردار کے ذریعے اپنے والد جمعیت علما پاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کی طویل عرصہ کے بعدیاد تازہ کر دی ہے ۔

مرحوم شاہ احمد نورانی کئی دہائیوں تک پاکستان میں اتحاد امت کے داعی اور دینی قوتوں کے اتحاد کے لئے کوشاں رہے ۔ مجلس ختم نبوت ،قومی اتحاد ،متحدہ مجلس عمل ،ملی یکجہتی کونسل،دفاع پاک افغان کونسل اور دیگر دینی اتحادوں میں ان کا کردار ہمیشہ ہراول دستے کا رہا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حیات تک جمعیت علماء پاکستان ملک میں اہم پارلیمانی مذہبی جماعتوں میں شمار ہوتی رہی۔ ان کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کےبعد عملاََ جمعیت علماء پاکستان یتیم ہوئی ۔

ملک ممتاز حسین قادری شہیدکے 28 روزہ چہلم کے بعد اسلام آباد میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال میں شاہ احمد نورانی کے فرزند شاہ محمداویس نورانی نے جو اہم کردار ادا کیا اس سے جہاں انہوں نے ملک کو ایک بڑے تصادم سے بچایا وہیں پر مذہبی طبقے کو بھی بحران سے بچانے کی بھر پور کوشش کی اوریوں اپنے والد کی یاد کو تازہ کر دی ورنہ”استرا سرکار”نے تباہی کا اور لاشوں کے حصول کی مکمل منصوبہ بندی کی تھی اور”استرا سرکار”کا وہی انجام ہونے والا تھا جو بندر کے ہاتھ استرا لگنے کے بعد بندر کاہوتا ہے۔

شاہ اویس نورانی اپنے والد کی طرح کئی برسوں سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے بھی کوشاں ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پیدا ہونے والے بحران کے حل میں حکومت کی جانب سے سب سے اہم کردار وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے ادا کیا اور مذہبی شخصیات کی جانب سے شاہ محمد اویس نورانی نے حکومت کے ساتھ رابطے کئے اگر چہ وہ اور ان کی جماعت سمیت کئی اکابر علماء و مشائخ نہ صرف دھرنے کے شدید خلاف تھے بلکہ چہلم کے اجتماع میں شرکت کے بعد وہاں سے چلے بھی گئے تھے لیکن تصادم کی کفیت پیدا ہونے کے اثار کے بعد دو روز قبل شاہ محمد اویس نورانی نے حکومت سے رابطہ کیا اور ثالثی کی پیشکش کی ۔

دھرنے کے بیشتر قائدین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن ،شاہ اویس نورانی ،صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر اور دیگر کئی اہم ہم مکتب اکابر علماء، مشائخ اورقائدین کو اپنی محفلوں میں غدار سمیت مختلف الزامات سے نوازتے رہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر شاہ اویس نورانی ثالثی کی پیشکش نہ کرتے تو حکومت نے 29 مارچ کو بھرپور آپریشن کے ذریعے ڈی چوک کو خالی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ میٹرو اسٹیشن کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ دھرنے کی قیادت کرنے والے کریں گے اس کی ضمانت مذاکرات میں شامل اہم کاروباری شخصیت نےدی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے