ریاست پاکستان بمقابلہ ایران ؟

پاکستانی حکومت نے آخرکار ایران کے حوالے سے اپنے احتجاج کو باقاعدہ طور پر اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ پچھلے کئی برسوں میں اس پر غور تو ہوتا رہا، مگر ہر بارحکومت اور سکیورٹی ادارے گریز کر جاتے ۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ ریاست پاکستان نے ایران سے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ پہلے تو ایرانی صدر کے دورہ کے موقعہ پر کل بھوشن والے معاملے کو دبانے کے بجائے پوری جرات اور صاف گوئی کے ساتھ منظرعام پر لایا گیا۔ ایرانی صدر سے آرمی چیف کی ملاقات میں یہ ایشو زیربحث آیا اور پھر اس گفتگو کی تفصیل سے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا کو آگاہ کیا۔ محترم حسن روحانی کی تردید کے باوجود اپنے موقف پر اصرار کیا گیا۔

 

 

ایران کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات متوازن رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ دوتین مواقع بہت اہم تھے، ایک اسی کے عشرے میں جب ایران عراق جنگ جاری تھی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت پاکستان کے قریبی حلیف تھے، جہاد افغانستان کے حوالے سے بھی یہ بھرپور امداد دے رہے تھے۔ ان کا بھرپور دبائو تھا کہ پاکستان ایران کے بجائے عراق کا ساتھ دے۔ اس وقت ریاست پاکستان نے بڑی مشکل سے اس دبائو کا مقابلہ اور توازن قائم رکھا، نائن الیون کے بعد ایران نے کھل کر اینٹی طالبان کرزئی حکومت کا ساتھ دیا، پاکستان کے لئے بعض اوقات مشکلات بھی پیدا ہوئیں، مگر تحمل سے برداشت کیا گیا اور اختلافات منظرعام پر لانے سے گریز کیا گیا۔ یمن کا ایشو تیسرا فیصلہ کن مرحلہ تھا، جب سعودی حکومت نے اپنا تمام زور لگا لیا ، ریاست پاکستان نے اس دبائو کو برداشت کیا اور یمن کے معاملے پر سعودی اتحادی بننے سے گریز کیا، بلکہ ثالثی کی کوشش کی اور ایران کا باقاعدہ دورہ بھی کیا گیا، جس میں خاصے مایوس کن اور بداخلاقی کی حد تک پہنچے ایرانی ردعمل کو بھی برداشت کرنا پڑا۔

iran2
ریاست پاکستان نے دبائو کو برداشت کیا اور یمن کے معاملے پر سعودی اتحادی بننے سے گریز کیا

 

 

دوسرا ہمیشہ ایران ہی نے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کئے رکھا ۔ ہر دور میں پاکستان پر الزامات لگائے جاتے رہے، کبھی اعلانیہ، کبھی غیر اعلانیہ ۔ جنداللہ کے حوالے سے پاکستانی سکیورٹی اداروں پر الزامات لگائے جاتے رہے، حتیٰ کہ جب جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ایران کی فضا سے گزرتی ایک فلائیٹ کو روک کر گرفتار کیا گیا تو ریگی کی ڈی بریفنگ اسی نقطہ نظر سے ہوئی کہ شائد پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ تعلقات ظاہر ہوجائیں ،مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور پرجوش ایرانی انٹیلی جنس افسروں کو مایوسی ہوئی۔

 

 

بلوچستان کے حوالے سے نجی محفلوں میں ہر جگہ یہ بات کی جاتی ہے کہ صوبے میں نو انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرم ہیں۔گوادر پورٹ کے فعال اور فنکشن ہونے سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے، دبئی کو بھی کچھ نہ کچھ نقصان ہوگا، سری لنکا بھی متاثر ہوگا، ادھر قطر، مسقط بھی متاثر ہوں گے ۔ جو جو گوادر سے متاثرہ ہیں، ان سب کی ایجنسیوں کی کسی نہ کسی حد تک فعالیت بلوچستان میں پائی جاتی ہے۔ بھارتی اس لئے بھی پریشان ہیں کہ اس وقت چین سری لنکا سے استفادہ کرتا ہے، سری لنکا کے آس پاس امریکی اور بھارتی آنکھیں موجود ہیں، چینیوں پر نظر رکھنے کے لئے ۔ گوادر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بھارت یہاں کے پانیوں میں دور دور تک موجود نہیں، امریکہ کے لئے بھی یہاں سے چین پر نظر رکھنا آسان نہیں۔ ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کسی بھی اہم فیصلہ کن مرحلے پر بڑی سمندری ٹریفک بلاک کر سکتا ہے۔

گوادر پورٹ کے فعال اور فنکشن ہونے سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے
گوادر پورٹ کے فعال اور فنکشن ہونے سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے

 

 

دنیا بھر پر اثرانداز ہونے کی یہ صلاحیت صرف گوادر کی ڈویلپمنٹ کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی وجہ سے یہ پراجیکٹ بہت سے ملکوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ خطرات را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی وجہ سے ہیں۔ افغان انٹیلی جنس ایجنسی کو بھی مختلف طریقوں سے دبائو ڈال کر نیوٹرل کر لیا جاتا ہے ،مگر را کو ظاہر ہے اس طرح کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ بلوچستان میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت بھی خاصا عرصہ پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ بعض عرب ممالک کی ایجنسیوں کی مداخلت کے اشارے بھی ملے ۔ پاکستانی اداروں نے را کی گوادر کے خلاف مختلف آپریشنز کی منصوبہ بندی کا جو نیٹ ورک تلاش کرکے کل بھوشن جیسے ہائی پروفائل بھارتی جاسوس کو گرفتار کیا،وہ بڑی اہم کامیابی ہے۔ را اپنے آپریشنز کے لئے ایرانی زمین استعمال کرتی رہی ہے۔ یہ تو اب کل بھوشن کے اعترافات سے ثابت ہوگیا۔

لوچستان میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت بھی خاصا عرصہ پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی
بلوچستان میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت بھی خاصا عرصہ پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی

چاہ بہار میں اگر را کے ایجنٹ متحرک اور سرگرم ہیں اور ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہیں تو یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ ایرانی انٹیلی جنس بڑی طاقتور اور متحرک ہے۔ ایران کو طویل عرصہ امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا تو نہایت متحرک اور مستعد انٹیلی جنس سسٹم بنانا ان کی ملکی بقا کا ایشو بھی تھا۔ اس لئے ایران میں کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی فوراً پکڑی جاتی ہے۔ چاہ بہار میں مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
آخر کیوں ؟ اس سوال کا جواب ہی اب پاکستانی ادارے چاہتے ہیں ۔

پہلی بار ریاست پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ ایران کے حوالے سے اپنے تحفظات شئیر کئے جائیں، کھل کر بات کی جائے اور بالواسطہ ایران کو یہ پیغام دیا جائے کہ تہران کو دہلی اور اسلام آباد میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لینا چاہیے یا پھر غیر جانبدار رہا جائے۔ یہ ممکن نہیں کہ انگریزی محاورے کے مطابق خرگوش کے ساتھ دوڑا بھی جائے اور بھیڑیوں کے ساتھ مل کراسی خرگوش کا شکار بھی کیا جائے۔ ایران کے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں۔ ایران پر کئی برسوں سے پابندیاں عائد تھیں، بھارت اس دوران اپنے تیل کی ضرورت کا بڑا حصہ ایران ہی سے پورا کرتا تھا۔ ایران نے چاہ بہار میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ ایران بھارت کا قریب آنا فطری تھا، جبکہ افغانستان میں بھی ان کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ تاہم تجارتی یا اقتصادی تعلقات ایک الگ چیز ہین اور کسی ملک کو اپنے کسی ہمسایہ کے خلاف پراکسی وار میں مدد فراہم کرنا ایک الگ بات۔ گوادر کے خلاف بھارتی سازشوں میں ایرانی سہولت کار کا کام کر رہے تھے، یہ بات دل کو لگتی نہیں ہے۔ ایران کو یقیناً ہم رعایت دینا چاہئیں گے ، بھارتیوں سے کوئی بعید نہیں کہ انہوں نے ایرانیوں کو دھوکے میں رکھ کر پاکستان پر وار کیا ہو۔ اب مگر ایرانیوں کو را کا نیٹ ورک ختم کرنا اور پاکستانی سکیورٹی اداروں کو معلومات فراہم کرنا ہوں گے ۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی ایرانی ردعمل ان کے بارے میں شکوک پیدا کرے گا۔

ایران بھارت کا قریب آنا فطری تھا، جبکہ افغانستان میں بھی ان کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے تھے
ایران بھارت کا قریب آنا فطری تھا، جبکہ افغانستان میں بھی ان کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے تھے

دراصل چائنا پاک اکنامک کاریڈور اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ پاکستانی ریاست فیصلہ کر چکی ہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی پالیسی یا اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا، خواہ ایسا کرنے والا پاکستان کا کتنا ہی برادر دوست ملک ہو، وہ عرب سے ہو یا عجم اور فارس سے ، سی پیک کے خلاف ہر کوشش کے جواب میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی طے ہوچکی ہے ۔

فوج کے ذمے بلوچستان کو کلئیر کرنے کی ذمہ داری ہے۔ انہیں کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ ڈاکتر اللہ نذر ، حیربیار اور مہران مری کی تنظیموں کا صفایا کر دیا۔ خاص کر ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف جو را کے ساتھ براہ راست رابطوں میں تھی، اواران،ماشکے اور تربت وغیرہ میں اس کا نیٹ ورک اور فراری کیمپ تباہ کر دئیے گئے ۔ سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ گوادر پراجیکٹ اور سی پیک کے خلاف غیر ملکی ایجنسیوں کی چالوں کو بھی ناکام بنایا جائے۔ اب یہی کام ہو رہا ہے۔ جس کی کم مداخلت تھی، اسے سخت مگر درپردہ پیغام دیا گیا۔ جس کی مداخلت زیادہ اور خطرناک نوعیت کی تھی، اسے کھل کر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ایرانی سفارت خانے نے ایک جوابی تردید نما وضاحت جاری کی تو سیکرٹری داخلہ کی جانب سے ایک باقاعدہ خط لکھا گیا، جس میں صاف صاف سوالات پوچھے کہ ہمیں بتایا جائے کہ کل بھوشن نے ایران میں کتنا عرصہ قیام کیا، کہاں کہاں رہا ، کس کس سے ملاقات کی، را کا وہاں کس طرح کا نیٹ ورک ہے اس کے علاوہ کل بھوشن کے ساتھی راکیش عرف رضوان کی گرفتاری کا باقاعدہ مطالبہ کیا گیا ہے۔ یعنی یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کل بھوشن ایران میں رہا، وہاں سے را کا نیٹ ورک آپریٹ کرتا رہا۔ اس کے ساتھ وہاں ہیں، اس حوالے سے ایرانی وضاحت یا ممکنہ وضاحت کو پاکستان نے پہلے ہی سے رد کر کے ٹھوس ، بامعنی تعاون کی بات کی ہے۔ جدید پاکستانی تاریخ میں بلکہ شائد پاکستانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے ۔

یہ اس  خط کا لنک ہے جو پاکستانی سیکرٹری داخلہ نے ایرانی سفیر کو لکھا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا؟ ایرانی اسے مثبت انداز میں لیتے ہیں اور اپنے موقف کو واضح کرتے ہیں یا پھر وہ سخت اور شدید الفاظ میں ردعمل ظاہر کریں گے۔ اگلے دو تین دنوں میں ایرانی ردعمل واضح ہوجائے گا۔ سردست تو لگتا ہے کہ ایرانی پاکستانیوں کے اس کھلے، مضبوط اظہار پر بھونچکے ہوگئے ہیں۔

 

ایران کے حوالے سے ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف ایک شیعہ ملک نہیں، بلکہ اس کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت ، علیحدہ قومی مفادات اور پالیسیاں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایران کو صرف ملک ایران کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایران پر تنقید کرنے والے فوراً ہی شیعہ فیکٹر سامنے لے آتے ہیں، ایسا کرنا بالکل غلط ہے ۔ اس کے دو نقصانات ہیں۔ ایک تو ایران پر تنقید شیعہ سنی مناظرے کا شکار ہوجاتی ہے ، دوسرا ایران پر شیعیت کے حوالے سے تنقید کرنا دراصل پاکستانی شیعوں کو ایران کا دفاع کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ جو ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہی غلطی سعودی عرب پر تنقید کرنے والے اسے سلفی ملک کہہ کر کرتے ہیں۔ یہ بھی وہی غلطی ہے۔ سعودی عرب صرف ایک سلفی ریاست نہیں ، اسے سعودی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہیے، جس کے عرب وعجمم کے حوالے سے اپنے تعصبات ، اپنے ریاستی مفادات اور حلیف وحریف ہیں۔ ہمارے شیعہ دوستوں کو ایران پر تنقید شعیت پر تنقید نہیں سمجھنی چاہیے اور سلفی دوستوں کو سعودی عرب یا کرپٹ سعودی شاہی شہزادوں پر تنقید کو سلفیت پر تنقید یا شیعت کوتقویت پہنچانے کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

ہمیں اب مان اور سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا خواہ کوئی بھی مسلک ہو، ہماری اصل شناخت اپنا ملک پاکستان ہی ہے۔ پاکستان کے مفادات ہمارے مفادات ہونے چاہیں، دوسرا ہم مسلک کوئی بھی ملک کبھی ہمیں اون نہیں کرے گا، وہ صرف استعمال کرنا چاہیے گا، ایک ادنیٰ آلہ کار کے طور پر ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ایک حقیقت ہے ، آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اسے حرز جان بنانا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے