لیڈردوٹوک موقف اختیار کرتا ہے

2015ء میں ’’برج آف سپائیز‘‘ جاسوسوں والا پل نامی ہالی ووڈ فلم ریلیز ہوئی جو کہ ساٹھ کی دہائی میں امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ کے واقعات پر تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نیویارک میں ایک پروفیشنل روسی جاسوس کو گرفتار کرتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ ایک جاسوس ہے لیکن اس سے آگے کچھ بھی نہیں بتاتا۔ ہندوستانی جاسوس کل بھوشن یادیو کو ہماری سکیورٹی فورسز نے پکڑا اس نے بہت کچھ اگل دیا ۔ ’’را‘‘ ایجنٹ نے پاکستان میں اپنی باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز 2002ء میں کیا انڈین پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ کے بعد جب دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آ چکی تھیں انہی دنوں کل بھوشن یادیو نے ایک مسلمان تاجر کے روپ میں پاکستان میں قدم رکھا جس کے پاس ایران میں جاری کاروبار کی دستاویزات موجود تھیں۔

’’را‘‘ ایجنٹ چونکہ نیوی آفیسر ہے یہ بندرگاہوں کی دفاعی اور معاشی اہمیت سے واقف ہے چنانچہ اسے گوادر ، پسنی اور کراچی کی بندرگاہوں والے علاقوں کی کمان سونپی گئی۔ یہ جیمز بانڈ ٹائپ ماردھاڑ کرنے والا جاسوس نہیں ہے بلکہ یہ ایک سٹریٹیجسٹ اور منصوبہ ساز ہے اس نے بڑی چالاکی سے بلوچستان کے ناراض عناصر سے رابطہ استوار کیا اور انہیں مختلف ذرائع سے مالی اور اسلحہ کی امداد شروع کی تا کہ یہ لوگ ان علاقوں میں بدامنی پھیلائیں۔ وہ ہر دوسرے مہینے ایران جاتا جہاں وہ اپنے مشن کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا اور نئے احکامات لیتا۔

ہندوستانی جاسوس کی گرفتاری پر ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف کی خاموشی معنی خیز ہے انہیں چاروں طرف سے مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے بات کریں جس طرح پٹھان کوٹ حملے کے بعد نریندر مودی نے پاکستانی ہم منصب کو اس وقت کال کی جب وہ سری لنکا کے دورے پر تھے تو اس وقت میاں صاحب نے ان سے جو وعدہ کیا وہ نبھایا بھی۔ پٹھان کوٹ حملے کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں کاٹی گئی تھوڑا ماضی پر نظر دڑائیے تو آپ پر ساری حقیقت عیاں ہو جائے گی مودی جو ازلی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے وہ وزیراعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف سے پیار بھرے تعلقات بنانا شروع کرتا ہے تقریب حلف برداری میں انہیں شرکت کی دعوت دیتا ہے میاں صاحب نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ بھاگے بھاگے دہلی جا پہنچتے ہیں ۔ پروٹوکول کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بڑی کاروباری شخصیت کے گھر جاتے ہیں شنید میں آیا ہے کہ ہندوستانی صنعت کاروں نے انہیں بھاری بھر آفرز کیں جس کی بناء پر وہ ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے میں لگ گئے۔ بارڈر پر کیسی ہی صورتحال کیوں نہ ہو میاں صاحب کی فیملی کے مودی کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہی رہے۔ آموں اور ساڑھیوں کے تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا کچھ عرصہ پہلے میاں صاحب کی نواسی کی شادی میں ہندوستانی صنعتکار اور مودی کی آمد کے تانے بانے کہاں جا ملتے ہیں۔

سابق صدر (ر)جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے لیکن حکومت روزانہ کی بنیادوں پر وضاحتیں پیش کر رہی ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت برہم ہے کہ انہیں کیوں جانے دیا گیا جس کے جواب میں وزیر داخلہ چوہدری نثار فرماتے ہیں کہ عدالت حکم کرے تو ہم 24گھنٹوں میں پرویز مشرف کو واپس لائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر ہی پرویز مشرف کو باہر جانے دیا گیا۔ 1999ء میں ہندوستان کی وجہ سے ہی سول ملٹری تعلقات خراب ہوئے تھے اس وقت بھی میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان بداعتمادی کا سلسلہ چل نکلا تھا لفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالمجید ملک اپنی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ پرویز مشرف کے ذہن میں اس خیال میں جگہ بنا لی کہ نواز شریف ان کو بھی اسی طرح فوج سے نکالیں گے جس طرح انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کیا تھا دوسری طرف نواز شریف کے قریبی حلقوں میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید پاکستانی فوج حسب عادت سویلین حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے دونوں میں بداعتمادی کی فضاء روز بروز بڑھ رہی تھی اس موقع پر نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے مبینہ طور پر نواز شریف سے کہا کہ آپ کو پرویز مشرف کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے چاہئیں اس کے بعد ان دونوں حضرات میں ملاقات ہوئی اور کچھ تعلقات میں بہتری آئی انہی دنوں میاں نواز شریف کا عمرے پر جانے کا پروگرام بنا ہوا تھا تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنے ساتھ عمرے پر جانے کی دعوت دی رائے ونڈ کھانے پر بھی بلایا گیا اور تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوا یہ سب کچھ ہونے کے باوجود معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑتے گئے ، بداعتمادی بڑھ کر عداوت کا روپ دھار چکی تھی انہی دنوں آرمی چیف پرویز مشرف کو سری لنکا کے فوجی دن کی تقاریب میں شرکت کیلئے جانا تھا شنید ہے کہ چند قریبی کور کمانڈروں نے پرویز مشرف سے کہا کہ آپ اس وقت ملک سے باہر نہ جائیں انہوں نے ضد کی اور تین دن کے دورے پر سری لنکا چلے گئے ۔ 12اکتوبر 1999 کو جب پرویز مشرف جب سری لنکا کا دورہ ختم کر کے واپس آ رہے تھے تو اس سے آگے جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ باتیں مجھے اس لئے لکھنا پڑیں کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی حالیہ آرمی چیف سے ملاقات ’’سب اچھا‘‘ کا تاثر نہیں دے رہی ہے اس وقت بھی یہی صورتحال تھی ۔ ’’را‘‘ ایجنٹ کی گرفتاری کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے جس طرح ہندوستان پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہمارے پاس تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ کل بھوشن یادیو بھی موجود ہے۔ مانا کہ ہمارے وزیراعظم کے کاروباری مفادات آڑے آ رہے ہیں لیکن ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ملک ہو گا تو آپ کاروبار کریں گے اور حکومت بھی۔

حکومت کو جنرل (ر)پرویز مشرف کے کیس میں ہونے والی پیشرفت سے بھی قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے آرمی چیف ایرانی صدر سے ملاقات کے دوران کل بھوشن یادیو کے معاملے کو اٹھاتے ہیں اور دوسری طرف منتخب وزیراعظم کے منہ میں دہی جم جاتا ہے جو کام منتخب حکومت کو کرنا چاہیے وہ کام آرمی چیف کر رہے ہیں اور پھر ہمارے سیاستدان واویلا کرتے ہیں کہ اداروں کو اپنی حدود و قیود میں رہنا چاہیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے