آف شور کمپنیاں

دنیا میں دو امریکا ہیں، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا، یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا (یو ایس اے) شمالی امریکا میں ہے جب کہ جنوبی امریکا چھوٹے بڑے 14ممالک پر مشتمل خشکی کا ایک بڑا ٹکڑا ہے۔

ان دونوں امریکاؤں کے دونوں طرف دو بڑے سمندر ہیں، پیسفک اوشین (بحرالکاہل) اور اٹلانٹک اوشین (بحراوقیانوس)۔ ان دونوں امریکاؤں کو خشکی کی ایک لمبی پٹی آپس میں ملاتی ہے، اس پٹی پر چھ چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں، یہ چھ ملک ایک طرف سے میکسیکو سے ملتے ہیں، میکسیکو شمالی امریکا کا پہلا ملک اور امریکا کا ہمسایہ ہے، یہ چھ ملک دوسری طرف سے کولمبیا سے ملتے ہیں اور یہ جنوبی امریکا کا پہلا ملک ہے، پانامہ دونوں امریکاؤں کو آپس میں ملانے والی اس پٹی پر آباد ہے، امریکا کے دو بڑے شہر سان فرانسسکو اور نیویارک الگ الگ سمندروں کے کناروں پر واقع ہیں۔

نیویارک اٹلانٹک اوشین پر ہے اور سان فرانسسکو اور لاس اینجلس پیسفک اوشین میں۔ ان دونوں کے درمیان چھ ملکوں کی یہ بڑی پٹی آتی ہے، پچھلی صدی کے شروع تک سان فرانسسکو سے بحری جہاز چلتے تھے اور پورے جنوبی امریکا کے گرد 22 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے نیو یارک پہنچتے تھے اور اس میں عموماً 15 دن لگ جاتے تھے۔
امریکا نے پچھلی صدی کے شروع میں یہ فاصلہ کم کرنے کا فیصلہ کیا، پانامہ دونوں امریکاؤں کے درمیان واحد ایسا ملک تھا جہاں دونوں سمندروں کا درمیانی فاصلہ کم ہو جاتا ہے، امریکا نے اس قدرتی تحفے کا فائدہ اٹھایا اور 1904ء میں پانامہ میں 77 کلو میٹر لمبی نہر کھود دی، یہ نہر پانامہ نہر کہلاتی ہے اور اس نے دونوں سمندروں کو آپس میں جوڑ دیا، یہ نہر سو سال سے پانامہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس سے سالانہ نو لاکھ بحری جہاز گزرتے ہیں اور پانامہ اس سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔

پانامہ کی نہر نے جہاں نیویارک اور سان فرانسسکو کا فاصلہ 22 ہزار کلو میٹر سے کم کر کے ساڑھے نو ہزار کر دیا وہاں یہ نہر ملک کیلیے کمرشل ازم کا نیا ریلا بھی لائی، پانامہ کی زیادہ تر تجارتی کمپنیاں شروع میں بحری جہازوں سے وابستہ ہو گئیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کاروبار کے نئے ذرائع سامنے آنے لگے، عرب ملکوں نے تیل کی تجارت میں چھلانگ لگا دی، وسائل سے مالامال ملکوں میں آمریت نے پنجے گاڑھ دیے۔

سوویت یونین اور امریکا کے درمیان کولڈ وار شروع ہوئی اور دنیا میں ہتھیاروں کی تجارت ہونے لگی، ویتنام اور افغانستان کی جنگوں نے منشیات کو انڈسٹری بنا دیا اور ایشین ٹائیگرز نے سر اٹھایا اور دنیا میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہو گیا، ساٹھ سے اسی کی دہائی کے درمیان دنیا کے 37 ممالک میں فوجی انقلاب اور باوردی حکومتیں آئیں، ان حکومتوں نے لوٹ مار شروع کر دی اور نوے کی دہائی میں دنیا میں کارپوریٹ انقلاب آ گیا، ہزاروں لاکھوں کمپنیاں بنیں اور ان کمپنیوں نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔

یہ نئے ٹرینڈز پانامہ سمیت دنیا کے غریب اور چھوٹے ملکوں کیلیے نعمت ثابت ہوئے اور یہ سرمایہ کاری اور ٹیکس فری جیسے خوبصورت لفظوں کے ذریعے دنیا بھر کے اسمگلروں، مافیاز، آمروں، ٹیکس چوروں، اسلحہ فروشوں اور شاہی خاندانوں کی ’’لانڈری‘‘ بن گئے، آپ اگر نقشہ دیکھیں تو آپ دیکھیں گے، پانامہ کی سرحدیں کولمبیا سے ملتی ہیں اور کولمبیا منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کی جنت ہے، پانامہ کے دو وکیلوں جارجن موزیک (Jurgen Mossak) اور رومن فانسیکا نے دنیا کی ان تبدیلیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

انھوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پانامہ میں 1977ء میں ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے نام سے لاء فرم بنا لی، یہ فرم شروع میں کولمبیا کے منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کیلیے ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بناتی تھی، پانامہ نے ان دنوں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کیلیے ’’ٹیکس فری‘‘ اصلاحات متعارف کرائی تھیں، دنیا کا کوئی بھی امیر شخص پانامہ میں کمپنی بنا سکتا تھا، بینک اکاؤنٹ کھول سکتا تھا اور اس اکاؤنٹ میں جتنی چاہے رقم جمع کر سکتا تھا، حکومت اس سے ’’سورس‘‘ نہیں پوچھتی تھی، موزیک فانسیکا اینڈ کو نے کلائنٹس کیلیے پانامہ کے ہزاروں شہریوں کے شناختی کارڈ جمع کیے، بینکوں کو ساتھ ملایا اور دھڑا دھڑ آف شور کمپنیاں بنانے لگی۔

لاء فرم کے کلائنٹس ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں اپنی ’’بلیک منی‘‘ ڈالتے تھے اور پھر اس رقم سے یورپ، مشرق بعید اور امریکا میں جائیدادیں بھی خریدتے تھے، کاروبار بھی کرتے تھے، فیکٹریاں بھی لگاتے تھے اور عیاشی بھی کرتے تھے، یہ لوگ رشوت اور کک بیکس بھی ان اکاؤنٹس کے ذریعے لیتے ہیں، رشوت دینے والی پارٹیاں ان آف شور کمپنیوں کے نام پر تجارتی سامان خریدتیں، یہ سامان دوسرے ملکوں میں بیچ دیا جاتا اور رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں آ جاتی، یہ لوگ مختلف ملکوں کی ٹیکس رعایتوں، اسٹاک ایکسچینجز اور اسٹے بازی کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے اور یوں ان کی بلیک منی بھی وائٹ ہو جاتی تھی اور دولت میں بھی دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو جاتا تھا۔

’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا کاروبار چل پڑا، یہ فرم آہستہ آہستہ پانامہ سے باہر نکلی اور دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم بن گئی، دنیا میں اس وقت ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پچاس کے قریب دفاتر اور 500 اعلیٰ پائے کے مستقل وکلاء ہیں، اس فرم نے دنیا کے سو سے زائد ممالک میں جزوقتی وکلاء کا بندوبست بھی کر رکھا ہے اور اب اس کے کلائنٹس میں صرف مافیاز اور منشیات فروش شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اب دنیا جہان کے امراء کی لاء فرم ہے، یہ ان کیلیے آف شور کمپنیاں بھی بناتی ہے، ان کیلیے عارضی دفاتر کا بندوبست بھی کرتی ہے۔

ان کیلیے جعلی اسٹاف بھی بھرتی کرتی ہے، ان کو ٹیکس سے بھی بچاتی ہے اور انھیں سرمایہ کاری کے نئے طریقے بھی بتاتی ہے، یہ فرم اس قدر مضبوط ہے کہ یہ چھوٹے ملکوں میں حکومتیں بدل دیتی ہے، یہ پھر ان حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر سسٹم تبدیل کراتی ہے، اپنے کلائنٹس سے وہاں سرمایہ کاری کراتی ہے اور آخر میں ان ملکوں کا سارا سرمایہ سمیٹ کر غائب ہو جاتی ہے، یہ فرم ہمارے ملک کے نظام میں بھی خوفناک حد تک دخیل ہے، کیسے؟ میں اس کیلیے صرف دو مثالیں پیش کروں گا، ہمارے ملک میں شوکت عزیز نام کے ایک وزیراعظم ہوا کرتے تھے، یہ کہاں سے آئے، یہ چند ہفتوں میں وزیر خزانہ کیسے بن گئے۔

یہ وزیراعظم کیسے بنے، ان کے دور میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیسے ہوا، پاکستان کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچی، ڈالر کی قیمت کیسے مستحکم رہی اور پھر یہ 2008ء میں اچانک کہاں غائب ہو گئے اور ان کے جانے کے چند ماہ بعد ملکی خزانہ کیسے خالی ہو گیا؟ اس کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پاس ہے، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہ فرم پاکستان لائی تھی، اسی نے انھیں وزیراعظم بنوایا تھا، اسی نے اپنے کلائنٹس کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کرائی تھی اور اسی نے شوکت عزیز کے ذریعے اپنے کلائنٹس کا کالادھن سفید کرایا تھا اور ان کے اثاثوں میں اضافہ کیا تھا، دوسری مثال پاکستان کے تمام بااثر خاندان ہیں۔

یہ خاندان مختلف جماعتوں سے تعلق کے باوجود اس لاء فرم کے کلائنٹ ہیں اور یہ وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا، کیوں؟کیونکہ ملک کی ہر حکومت اور ہر اپوزیشن کے ڈانڈے پانامہ کی اس فرم سے جا کر مل جاتے ہیں، ملک میں مقدمے بنانے، تحقیقات کرنے اور فیصلے کرنے والے بھی اس فرم کے کلائنٹ ہیں، شوکت عزیز ہوں، شریف خاندان ہو، بھٹو فیملی ہو، چوہدری ہوں، سیف اللہ خاندان ہو، ملک کے جرنیل ہوں، جج ہوں، میڈیا مالکان ہوں یا پھر بیوروکریٹس ہوں یہ تمام لوگ ایک خاص مقام کے بعد ایک ہو جاتے ہیں، یہ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ شوکت عزیز کے دور کا تجزیہ کر لیں، شریف خاندان اور بھٹو فیملی یہ دونوں اس دور میں ایک طرف حکومت کا ٹارگٹ تھے اور دوسری طرف ان کے کاروبار، ان کے اثاثوں اور ان کی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا، کیسے؟ اس کیسے کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ ہے۔

یہ فرم چل رہی تھی لیکن پھر اچانک پچھلے سال اس کا ڈیٹا چوری ہو گیا، کمپنی کے مین سرور سے ایک کروڑ پانچ لاکھ ڈاکومنٹس نکلے اور یہ سیدھے جرمنی کے شہر میونخ کے مشہور اخبار زیتوشے زائتونگ(Süddeutsche-Zeitung) جا پہنچے، یہ میونخ کا سب سے بڑا اخبار ہے، یہ روزانہ ساڑھے گیارہ لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے، یہ یورپ کے سو بڑے اخبارات میں بھی شمار ہوتا ہے، یہ نیویارک ٹائمز کا ایڈیٹوریل پارٹنر بھی ہے، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کا پہلا اخبار تھا جسے امریکا نے اشاعت کی اجازت دی تھی، یہ تحقیقاتی صحافت میں پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا خفیہ ڈیٹا اخبار تک پہنچا تو ادارے میں سراسیمگی پھیل گئی۔

کیوں؟ کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکینڈل تھا، اس سکینڈل میں دنیا کے 143 اہم لوگ، ان کے خاندان اور ان کے فرنٹ مین شامل تھے، ان میں حکمران بھی تھے، شاہی خاندان بھی، بزنس گروپس بھی، اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی، کھلاڑی بھی، اداکار بھی اور این جی اوز بھی۔ یہ ایک بڑی خبر تھی لیکن اخبار نے یہ ’’کیک‘‘ اکیلا کھانے کی بجائے دنیا کے ان 76 ممالک کے صحافیوں کو ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کی اعلیٰ شخصیات کے نام اس ڈیٹا میں موجود تھے، اخبار نے ڈیٹا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور اسے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلزم (آئی سی آئی جے) کے ساتھ شیئر کر دیا، یہ ڈیٹا ملنے کی دیر تھی۔

دنیا کے 76 ممالک کے صحافیوں نے تحقیقات شروع کر دیں، اس ڈیٹا میں ابتدائی طور پر دو سو پاکستانی خاندانوں کے نام سامنے آئے، ان میں بھٹو فیملی بھی شامل تھی، شریف فیملی بھی، چوہدری صاحبان بھی، سیف اللہ خاندان بھی اور بے شمار بزنس مین اور اعلیٰ شخصیات بھی، ڈیٹا میں میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز جب کہ میاں شہبا زشریف کے خاندان سے ان کی اہلیہ تہمینہ درانی اور برادر نسبتی الیاس معراج کے نام شامل ہیں، تہمینہ درانی کے نام پر آخری کمپنی 2010ء میں اس وقت رجسٹر ہوئی جب میاں شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنے دو سال ہو چکے تھے۔

یہ کمپنیاں کیوں بنائی گئیں، یہ میں اگلے کالم میں بیان کروں گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے