دماغ لگاوں یا امید؟

خیالی منصوبہ تکمیل کی طرف جاتے دیکھ کر بہت سارے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں خیالی منصوبہ بندی بڑی دفعہ ہوئی لیکن تکمیل میں بہت ساری خامیوں کے باعث وہ منصوبہ اپنا اثر نہ چھوڑ سکا اور نتائج کمزور ملے اسی طرح سیاسی طاقت کھڑی کرنے کی کو کشش کئی مرتبہ ہوئی مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا زور کم نہ ہوا۔ شائد اس لیے کے زیادہ تر منصوبے فکر وتکمیل سے خالی تھے۔ حالانکہ فکر سے فہم و دانش بنتی ہے اور فہم و دانش سے معاشرے میں دانشور پیدا ہوتے ہیں۔ جو ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ سندھ کی سیاست میں اور خاص طور پر پرانے دارالحکومت میں ایم کیو ایم زوروں پر تھی حالانکہ ایم کیو ایم میں چند دانشور ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری باگ ڈور دانشورکے ہاتھ میں ہے مگر اب نیا ہچکولے کھا رہی ہےاور پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ویسے تو کراچی میں اکثر جماعتوں کے عسکری سیل تھے مگر کچھ تجاوز ہونے کی سزا ایسی کے بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر میں کبھی بھی ایسے کھیل کا حصہ نہیں رہا تھا۔کبھی میں ایک صوبے کا بڑا نام تھا۔لوگ مجھے ملنے کو ترستے تھےمیں بھی عوام کا خدمت گار بنا ہوا تھا وہ دن آج بھی مجھے یاد آتے ہیں۔ میرے اس وقت کے بڑوں نے میرا منہ چوما مجھے گلے لگایا میں نے بھی ان کے پیار کا جواب پیار سے دیا۔ مگر مجھے ایک خدشہ رہتا تھا کہ یہ محبت اتنا وای واری جانا کہیں میرا رہنا محال نہ کردے۔ پھر ایسا ہی ہواوہ دن آن پہنچا کہ مجھے جان بچانے کے لیے فراریت اختیار کرنا پڑگئی اور میں منظر نامے سے غائب ہوا جان بچی سو لاکھوں پائے۔ پھر مجھے جو اصل میں اپنے ہی ہیں جن کے بغیر ہم نہیں چل سکتے ان سے قربتیں بڑھنے لگیں اور وہ قربتیں مجھے چیلنجزکی شکل میں میرے سامنے تھیں۔ ہم سیاست دان جب سیاست میں آجاتے ہیں تو پھر اس جال سے باہر نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ آج میں دوبارہ سے اپنوں کے سامنے ہوں وہی لوگ جو مجھے اس وقت عزت دیتے تھے وہی آج عزت دینا چاہتے ہیں جو بے خطر ہیں وہ میرے گرد جمع ہیں جو کچھ ڈرتے ہیں وہ ابھی موقعے کی تلاش میں ہیں ہوائیں چل تو رہی ہیں مگر اب ہواوں میں گرد شامل ہے۔ خطرات لٹکتی ہوئی تلوار ہے جو سر پے لٹک رہی تھی میں نے حوصلہ پکڑا اپنوں نے اپنائت کا احساس دلایا میں پھر میدان میں جم کے کھڑا ہو ں۔ رسک لے چکا ہوں ساتھی حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ قائد سے ملاقات خفیہ ہوئیں آئندہ کا لائحہ عمل مل جاتا ہے۔ اور میں دن رات ویسے ہی جیسے پہلے محنتی تھا اسی پٹڑی پر چل رہا ہوں۔ اب مجھے اپنے لوگ ٹکڑوں میں بٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ میں اورمیرے پس پردہ محسن دن رات جوڑ توڑ میں ہیں بڑے بڑے فیصلوں کی نوید سننے اور دیکھنے کا موقع مل رہا ہے کچھ انہونیاں مجھی رات کو سونے نہیں دے رہیں چند دن پہلے ہمارا قائد اپنے مقام پے پہنچا دیا گیا ہے۔ دشمنوں کے جال سے بال کی طرح نکل گیا ہم حیران ہوئے مگر ساتھ ساتھ ایسا لگا کہ ہماری طاقت آج بھی وہی ہے ۔

ہم ایک صوبے کی جماعت نہیں ہیں ہم قومی جماعت ہیں۔ بڑوں نے بتایا ہے اعتماد میں لیا ہے کہ جو غلطیاں پہلے ہوتی رہی ہیں وہ نہیں ہیں ۔پھندوں کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مالا کا دھاگہ بہت مضبوط ہے پھولوں کی کافی رکھوالی کر لی ہے بس اب مالا کے دھاگے میں پھولوں کو پرونے کا وقت قریب ہے۔ سوئی دھاگے کے آگے پہلے سے لگ چکی ہے۔ بڑوں کی یہ باتیں سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں تیر رہا ہوں خیالات کے نگر میں سمندر سے نکل کر ہواوں میں اڑنے کے لیے اڑن تشتری والے بڑے بڑے سیاسی برج مجھے اپنے گرد جمع ہوتے نظر آرہے ہیں کہیں مجھے پنجاب کی بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالک اپنے گرد محسوس ہو رہے ہیں تو کبھی جنوبی پنجاب کے بڑے بڑے پہلوان قافلے میں شمولیت کے لیے ٹکٹوں کا انتظار کررہے ہیں کراچی کے سمندر میں اپنا جزیرابننے کے قریب ہے مگر ہم پنجاب کے محلات پے نظر رکھے ہوئے اپنی مالا کے پھولوں کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ ملک کی پہلی اور دوسری بڑی سیاسی طاقت کہلانے والوں کے خواب بھی بدل چکے ہیں ایسے ڈراونے خوابوں نے ان کو گھیر لیا ہے کہ وہ ششوپنج میں پڑ چکے ہیں مگر ایک اور سیاسی قوت کے باگ ڈور بڑوں کے پاس ہے مگر ہمارے بڑوں نے ان کے کچھ بڑوں کو سمجھا لیا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ہماری دوسری بڑی سیاسی قوت کہلانے والے لیڈر کو لاحق ہے۔ وہ ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوا بڑوں نے بتایا ہے کہ فکر کی بات نہیں کھچڑی جب پکے گی تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی معاملات الجھتے لجھتے سلج جائیں گے۔ پرانے لیڈر کے پاس وقت کم ہے احساس ان کو ہو چکا ہے بس اپنی بقا کی جنگ ، سمندر میں ڈوبنے والے آخری ہاتھ پاوں چلا رہے ہیں۔ پہلی اور دوسری سیاسی طاقت کے پاس وقت کم مگر ہم ہیں کہ وقت ہمارا ہے۔ پاکستان ہمارا ہے یہ پاک سرزمین کا نظام ہے۔ میں تو ایک ورکر ہوں قائد اپنی کرسی پے براجماں ہیں فیصلے بڑے تیزی سے ہو رہے ہیں۔ نازک موڑ گزر چکے بس مشکلیں ایسی ہیں کہ بہت جلد آساں ہو جائیں گی۔
قصہ گوئی بس اتنی ہی کہانی کو مختصر کرنے کی کوشش کی تھوڑا سا ہو سکتا ہے کامیابی ملی ہو ۔ بس اس پہ ہی مطمئن ہو ا جا رہا ہوں جیسے پاکستان کرکٹ ٹیم کی جاری ورلڈ کپ کرکٹ میں کارکردگی رہی ہو۔

وہی ہوا جو سوچا جا رہا تھا جوکچھ تاریخی غداری کہی جا رہی تھی اور جس نے ملک میں جمہوریت کی بنیادوں کو ہلایا ہو یا نہ وہ اب ختم ہو چکی بلکہ اس کی شکل اب بدل چکی اور ہم دیکھیں گے کہ ایک اور سیاسی جماعت میدان میں آنے والی ہے۔

ایسے موقعے کیوں آتے ہیں تب آتے ہیں کہ جب جمہوریت کے ٹھیکیداروں میں فرعونیت کی بو آنے لگ جائے۔ پاک سر زمین شاد باد،کشور حسین شاد باد۔اس قصہ گوئی کو سمجھنے کے لیے دماغ لگانا پڑے گا اور پھر بہت سے امید ضرور لگائیں گے۔

امیدلگانے والوں کی نظرغالب کا یہ شعر حاضر خدمت ہے۔

اگ رہا ہے درودیوار پہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے