جناب وزیر اعظم

چونکہ قانون انسانوں کے لیے بنتے ہیں اور انسان معاشرتی جانور ہے اس لیے ضروری ہے کہ قوانین معاشرے کے عمومی مزاج سے مطابقت رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر قوانین کے درست یا نادرست ہونے کا پیمانہ خلق خدا کے ہاں اس کی قبولیت و عدم قبولیت رکھا گیا ہے۔ یاد رہے یہ انسانیت پرستوں کا مقدمہ ہے۔ مذہب اس بابت کیا کہتا ہے اس کا ذکرہم بعد میں کریں گے۔ پہلے ایک سرسری نظرپاکستان کے معاشرتی و ثقافتی پس منظر میں وومن پروٹیکشن بل اور اس کے مندرجات پر ڈالتے ہیں۔

آپ ساری دنیا گھوم آئیں لیکن خاندانی رسم و رواج کا جو حسن پاک وہند میں ہے وہ آپ کو دنیا کے کسی اور خطہ ارضی پر کہیں نہیں ملے گا. بلکہ جن لوگوں کو بیرونی دنیا دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا وہ بھی مختلف فلموں، ڈراموں اور ڈاکومینٹری پروگراموں کی وجہ سے یہ بات جاننے لگے ہیں کہ مشرق و مغرب کی ساری قومیں سر زمین پاک و ہند کی ثقافت اور یہاں کے خاندانی نظام (Family System) کو حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ پروپیگنڈہ کے زور پر پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈکلیر کر دیا گیا ہے پھر بھی لوگ ہماری ثقافت اور رسم و رواج کے دیوانے ہیں. آج جب انٹرنیٹ نے ساری دنیا کو انسان کی ہتھیلی پر لا کر رکھ دیا ہے تو آئے روز ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ بیرونی دنیا کے باشندے جب پاکستان اور پاکستانیوں کی حقیقی زندگی سے واقف ہوتے ہیں تو کس قدر جلدی متاثر ہوتے ہیں. انسانیت بیزار معاشرے کے باسیوں کو جب علم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایک گھر میں دو دو تین تین چار چار خاندان ایک ساتھ رہتے ہیں اور ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں تو حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دبا دیتے ہیں.

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قانون علاقائی آبادی کی ثقافت کو محفوظ رکھنے اور اس کے رسم و رواج کو تقویت دینے کے لیے بنتے ہیں نہ کہ دیگر اقوام کی نقالی کے لیے. اور قانون سازی کے وقت سب سے اہم چیز جو ہمیشہ مدنظر رکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی قانون مقامی آبادی کے مزاج، رسوم و عبادات اور مذہبی عقائد سے متصادم ہرگز نہ ہو. جبکہ ہمارے ہاں چونکہ بھیڑ چال اور مغرب کی نقالی کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے اس لئے پنجاب اسمبلی نے قوانین بھی وہیں سے درآمد کرنے کی ریت ڈالی ہے. سوال یہ ہے کہ جن قوانین کا ہمارے طرز زندگی سے دور پار کا تعلّق نہیں ہے انہیں ہم پر لاگو کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے کہ صدیوں سے چلتی آ رہی ہماری معاشرتی اقدار کو بھی یکسر نظر انداز کرنا پڑا.؟ اور اگر کسی "خاص مجبوری” کے تحت مغربی اقدار کے مطابق بنے قوانین ہمارے ہاں لاگو کر بھی دیے جائیں (جو سراسر ظلم ہے) تو کیا گارنٹی ہے کہ مفید بھی ہوں گے۔؟ تقسیم سے قبل کے بیمار انگریزی قوانین کیا کم ہیں جو وومن پروٹیکشن بل بھی وہیں سے درآمد کیا جا رہا ہے.؟ باوجود اس کے کہ بل کے مندرجات کروڑوں انسانوں کے مذہبی عقائد و نظریات سے متصادم ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ وومن پروٹیکشن بل کے دو پہلو ہیں۔ ایک عورتوں کے حقوق کا تحفظ اور انہیں گھریلو تشدد سے بچانا اور دوسرا پہلو اس بل کی ساخت ہے۔

عورت کو جائز حقوق ملیں اور اس پر کسی قسم کا گھریلو تشدد نہ ہو یہ وہ پہلو ہے جس سے شاید ہی کوئی معقول انسان اختلاف کر سکے. خواہ وہ مولوی و ملا ہو، روشن خیال و لبرل ہو، تاجر و دکاندار ہو، یا کوئی سیاسی رہنما.. اس لیے بل کی مخالفت کرنے پر کسی مخصوص طبقہ یا جماعت کو یہ کہہ کر نشانہ استہزاء بنانا کہ فلاں تو عورتوں کو حقوق نہیں دینا چاہتے ناصرف غیر ضروری تنقید بلکہ قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے ہم بل کے دوسرے پہلو یعنی اس بل کی ساخت پر نظر ڈالتے ہیں۔ سادہ اور مختصر لفظوں میں وومن پروٹیکشن بل ہرعورت کو جسمانی و نفسیاتی تشدد کے خلاف قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ جسمانی تشدد تو واضح ہے جبکہ نفسیاتی تشدد سے ڈرانا دھمکانا اور قطع کلامی کے ساتھ اسے پریشان رکھنا مراد ہے. ہر دو یا دو میں سے کسی ایک جرم کی شکایت پر قانون کو اختیار مل جائے گا کہ عورت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے مرد کو اس سے دور رکھے. خواہ وہ عورت کا شوہر، بھائی، بیٹا یا والد ہی کیوں نہ ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کی سچائی طے ہونے سے پہلے ہی بطور سزا اس کے شوہر، بھائی، بیٹے یا والد کو دور رہنے کا حکم سنانا بذات خود سزا ہے یا نہیں.؟ کیا انسانی حقوق کا چارٹر ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم بنا دیا جائے؟

وومن پروٹیکشن بل یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ جو مرد اپنی بیوی کو فقط نکاح کی بنیاد پر "ہوم منسٹری” سونپ دیتا ہے اسے بیوی کی شکایت پر اگر جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مجرم بنا دیا جائے (دیکھیے آرٹیکل8 ) تو کیا وہ اس عورت کے پاس یہ عہدہ باقی چھوڑے گا.؟ اگر رد عمل کے طور پر ان کا گھر تباہ ہو گیا تو ذمہ دار کون ہو گا اور سزا کسے دی جائے گی۔ روشن خیالی کے علمبرداروں کو جب ملا و مولوی کے خلاف جنگ سے فرصت مل جائے تو اس بارے میں کچھ غور و فکر ضرور فرمائیں۔

وومن پروٹیکشن بل کی مخالفت ہم اس وجہ سے بھی کر رہے ہیں کہ مذکورہ بل پاکستان کے آئین سے متصادم ہے۔ آئین پاکستان کی پہلی شق ہے کہ مملکت میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا۔ جبکہ مذکورہ بل میں قرآن و حدیث کے واضح احکامات کو نظر انداز کر کے چند ایسے قوانین شامل کیے گئے ہیں جو قرآن کے عائلی قوانین سے براہ راست متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ نساء آیت نمبر 34 میں اللہ کا فرمان ہے کہ "جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں (پہلے مرحلے میں) نصیحت کرواور انہیں ان کے بستر پر تنہا چھوڑ دو(نفسیاتی تشدد) اور (اگر اس پر بھی نہ مانیں تو) انہیں سزا دو(جسمانی تشدد)” ترجمہ میں ’نفسیاتی تشدد‘ اور ’جسمانی تشدد‘ کے الفاظ بڑھانے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ اللہ کے ان دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک حکم پر عمل کرنے سے آپ وومن پروٹیکشن بل کے تحت نفسیاتی یا جسمانی تشدد کا ارتکاب کر بیٹھیں گے. جس کی بنا پر آپ کو گھر بدر کرنے سے لے کر کڑا (جی پی ایس ٹریکر) پہنائے جانے اور جیل کی ہوا کھانے تک کی سزا مل سکتی ہے۔ سورہ نساء ہی کی اگلی آیت میں اللہ کا حکم ہے کہ "اگر تمہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف شخص کو مرد کے گھر والوں میں سے اور ایک منصف شخص کو لڑکی کے گھر والوں میں سے مقرر کرو” (نساء 35) جبکہ مذکورہ قانون میاں بیوی کے ہمدرد و خر خواہ رشتہ داروں کی بجائے پروٹیکشن کمیٹی کی چیئر پرسن کو فیصلے کا اختیار دیتا ہے کہ وہ عورت کی شکایت یا خفیہ معلومات کی بنیاد پر ناصرف گھر میں چھاپہ مار سکتی ہے بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق مرد کو گھر سے بیدخل بھی کر سکتی ہے۔ (دیکھیے شق 14/3 کا جز "دال” اور شق 15 کا جز "الف”) مذکورہ قانون کا سب سے عجیب حکم "آرٹیکل 18” میں ذکر ہے اور وہ یہ کہ اگر پروٹیکشن آفیسر گھر میں داخل ہونا چاہے اور شوہر، والد، بھائی یا بیٹا اسے یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کرے کہ گھر میں دیگر خواتین موجود ہیں تب بھی اسے مجرم سمجھا جائے گا، اور زبردستی گھر میں داخل ہو کر تفتیش کی جائے گی. یاد رہے گھر میں داخل ہونے کے لئے لازم نہیں ہے کہ پروٹیکشن آفیسر "خاتون” ہو. یعنی چاردیواری کا تقدس گیا بھاڑ میں..

حیرت تو اس بات پر ہے کہ بل تیار کرنے والے لوگ اگر قرآن و حدیث سے لاعلم تھے تو کیا آئین پاکستان سے بھی نابلد تھے۔

اور اگر آئین پاکستان بھی ان کی نظر سے نہیں گزرا تو کیا وہ لوگ پاکستان کی خاندانی و معاشرتی اقدار سے اتنی بھی واقفیت نہیں رکھتے کہ چار دیواری کا تقدس جانتے ہوں؟ بالخصوص سیاستداان…
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیاستدانوں پر مشکل وقت آیا، ان کی رنگین دنیا تاریک ہوئی، اور خلاصی کی صورت باقی نہ رہی تو جہاں انہوں نے قوم کے سامنے مظلومیت کا رونا رویا وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ظلم اپنے مشہور زمانہ جملے میں بیان کیا کہ "چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے”

وومن پروٹیکشن بل کی حمایت کرنے والے سیاسی رہنماؤں سے کوئی پوچھے کہ جناب عالی جب کوئی آپ کے دولت کدے کا رخ کرے تو چاردیواری کا تقدس پامال ہو جاتا ہے لیکن عوام کی باری آئے، اس عوام کی باری جس کے ووٹ سے آپ کرسی اقتدار پر براجمان ہیں تو چاردیواری کا تقدس گھاس چرنے چلا جاتا ہے.. کیا عوام الناس کی چاردیواری تقدس پروف ہوتی ہے.؟ غریب آدمی کو روٹی، کپڑا، مکان، امن و امان، صحت اور تعلیم تو دے نہیں سکے لیکن اس سے معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں.؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری پولیس کس قدر مہذب ہے.؟ کئی بار جیل یاترا کرنے کے بعد بھی آپ کو احساس نہیں ہو سکا کہ جو لوگ منتخب وزیراعظم کو پرائم منسٹر ہاؤس سے دھکے دے کر باہر نکال سکتے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بالوں سے گھسیٹ سکتے ہیں انہیں جب لاچاراورغریب آدمی کی کٹیا میں بلا روک ٹوک داخلے کا پروانہ ملے گا تو کیا کیا گل کھلائیں گے.؟ اور کوئی نہیں تو کم از کم نواز شریف صاحب کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیے..

وزیراعظم صاحب.! آپ لبرل پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے بنائیے مگر یہ مت بھولئے گا کہ پاکستان لا الہ الا الله کے لئے بنا تھا. اور بنانے والوں نے جان، مال، عزت اور آبرو کی قربانیاں اس لئے نہیں دی تھیں کہ حقوق اور قوانین کے نام پر آنے والی نسلوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے