پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے پشاور میں چوہے کش مہم شروع کی تو اس پر کئی طرح کے تبصرے ہونے لگے .
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عمران خان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ” نواز شریف دہشت گرد ختم کر رہے ہیں جبکہ عمران خان چوہے مارنے میں مصروف ہیں.
پشاور میں چوہوں کا معاملہ بظاہر ایک مضحکہ خیز سی بات لگتی ہے لیکن اگر وہاں کے مقامی باشندوں سے بات کی جائے تو معاملہ کی سنگینی کسی حد تک سمجھ میں آ سکتی ہے .
عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہ چوہے عام چوہوںسے اپنے سائز اور عادات کے اعتبار سے کافی مختلف ہیں. ان کے دانت بھی عام چوہوں کی نسبت کافی بڑے اور نوکیلے ہیں.
پشاور میں کافی عرصے سے شکایات عام تھیںکہ یہ عجیب وغریب چوہے گھر میںداخل ہو کر کوئی چیز نہیںچھوڑتے. وہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کپڑوں اور کاغذوں کو کتر کا تباہ کر دیتے ہیں.
معاملہ اگر یہیںتک ہو تا تو بھی کسی حد تک قابل برادشت تھا لیکن اب ان چوہوں کے گھر میںموجود چھوٹے بچوں اور سوئے ہوئے افراد پر جارحانہ حملوں میںتیزی آ گئی ہے .
پشاور کے میئر کے مطابق اب تک آٹھ بچے ان چوہوں کے کاٹنے سے زندگی کی بازی ہار گئے اور کئی زخمی ہوئے ہیں.
ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے رات دورازے کے نیچے خالی جگہ پر اپنے جوتے اتارے. صبح اٹھ کر دیکھا تو ایک جوتا نصف کے قریب کترا ہوا تھا.
ایک اور شہری قادر نے بتایا کہ وہ 22 مارچ کی رات اپنے گھر میںسویا ہوا تھا کہ اچانک اس کے 8 ماہ کے بچے کی رونے کی آواز آئی .
قادر نے بتایا کہ” جب میں بچے کے پاس گیا تو دیکھا کہ ایک چوہا بستر سے نیچے چھلانگ لگا رہا ہے . میںنے چوہے کو مارا اور بچے کی جانب متوجہ ہوا. بچے کے چہرے پر خون اور دانتوں کے واضح نشانات تھے. بروقت علاج کی وجہ سے قادر کا بچہ بچ تو گیا لیکن اس کی آنکھ کے قریب ابھی تک زخم کے نشانات باقی ہیں. ”
اسی طرح پشاور اور اس کے اطراف میںچوہوں کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں اور افواہیں بھی عام ہو چکی ہیں. کئی شہری تو قسمیںکھا کھا کر کہتے ہیں کہ یہ معمول کے چوہے نہیں ہیں بلکہ یہ تو کوئی اور مخلوق ہیں.
پشاور کے بعضشہریوںکا کہنا ہے کہ یہ چوہے دیسی نہیںبلکہ ”ولایتی ساختہ ” ہیں . ان کا خیال ہے کہ یہ چوہے افغانستان میںامریکی فوجیوں کی چھاونیوں میںپال کر اسلحے کی سپلائی کرنے وال ٹرکوں کے ذریعے پشاور میںچھوڑے گئے.
کچھ عام شہری یہ بھی کہتے ہیںکہ یہ چوہے ان عارضی پناہ گزینوں کے سامان میںپشاور کی سرزمین تک پہنچے ہیں جو قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے در بدر ہو ئے ہیں.
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پشاور میں چوہوں کی بہتات 2010 اور 2012 کے سیلاب کے بعد سے ہوئی ہے. ان کا کہنا ہے کہ یہ چوہے سیلاب کے وجہ سے پہاڑی علاقوں سے بہتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں. سیلاب کی وجہ سے پہاڑوں میںموجود ان کے بِل تباہ ہو گئے تھے.
ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان زہریلے چوہوں کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا ہے. یہ مسلمانوں کو زہر کے ذریعے ختم کرنے کی سازش ہے.
پشاور میںعام لوگوں اب اس بات پر کافی حد تک متفق نظرآتے ہیں کہ یہ چوہے درحقیقت انسانوں کے قاتل ہیں.
ان سب افواہوں اور شکایات کے بعد پشاور کی انتظامیہ میں ”چوہے مار مہم” کا اعلان کیا اور ایک مردہ چوہا دکھانے پر 25 روپے ادا کرنے کا اعلان کیا. اس اعلان کی دیر تھی کہ عام لوگ چوہوں کے شکار میں سرگرم ہو گئے.
اس دوران میڈیا پر کافی ،مضحکہ خیز قسم کی خبریں بھی چلتی رہیں. ایک اخبار کی خبر تھی کہ ”پنجاب سے 100 مردہ چوہے خیبر پختون خوا سمگل کرنے کی کوشش ناکام .” اس طرح کی خبریںسوشل میڈیا کی زینت بنیں.
سوشل میڈیا پر ”چوہے مار مہم” کے حوالے سے مسلم لیگ نواز کے کارکنوں اور پاکستان تحریک انصاف کے حامیوںکے درمیان دلچسپ طنزیہ فقروں اور تبصروں کا تبادلہ جاری ہے .
ادھر پشاور کے مئیر محمد عاصم نے بلدیہ کے 30 ملازمین کی ایک ٹیم بھی تشکیل دی جو رات کے وقت پشاور کی گلیوںاور چوہوں کے ممکنہ بلوں میں زہریلی دوائی رکھنے کا کام کرتی ہے. دوسری جانب چوہے مار دوائی عام شہریوںکو بھی فراہم کی گئی ہے.
پشاور شہر میںچوہوں کی سفاکی کے خلاف مہم کے روحرواں نصیر احمد ہیں جنہیں اب ”ریٹ کلر” یعنی چوہے مارنے والا بھی کہا جاتا ہے.
نصیر احمد نے سات برس قبل اس وقت ان چوہوں کے خلاف ”کارروائیوں ” کا آغاز کیا تھا جب اس کے ایک دوست کی بیوی ان عجیب الخلقت قسم کے چوہوں کے حملے میں زخمی ہو گئی تھی.
نصیر احمد کا کہنا ہے کہ اس کےگزشتہ سات سالوں میں ایک لاکھ 30 ہزار 50 چوہوں کو قتل کیا ہے.
پشاور کے میئر محمد عاصم کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے سارے حربے بھی ناکام ہو جائیں تو 25 روپے والی تکنیک ضرور کامیاب رہے گی.
یہی وجہ ہے کہ اس وقت پشاور میںبڑے اور بچے سب چوہوںکے شکار میںمصروف نظر آتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب دینا قبل از وقت ہو گا کہ یہ سب لوگ مل کر ایسی مخلوق کو ختم کر پائیں گے جو ہر 20 دن بعد 20 نئے بچوں کو جنم دیتی ہے.
اس رپورٹ کی تیاری میں پاکستانی اخبارات کی خبروں اور امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے .(فرحان)