تحریک نظام مصطفی ؐ ﷺ، چند سوالات

مذہبی قیادت نے وطن عزیز میں تحریک نظام مصطفی ﷺکا اعلان کر دیا ہے۔جس اہتمام سے ملک کی نظریاتی شناخت تبدیل کرکے اسے سیکولر بنانے کی کوششیں جاری ہیں ، یہ اعلان ایک مژدہ جانفزا ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے دکھوں کا اندازہ کیجیے ، چند سوالات دامن گیر ہو گئے ہیں ۔اہل مذہب کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یہ مبارک اعلان کرتے سنا تو اقبال ؒ نے دریچہ دل پر دستک دے دی:

’’ میں نے اے میر سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے
’قل ہواللہ‘ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام‘‘

نعرہ تو بہت مبارک ہے ، کہ سیکولر انتہا پسندی کے لشکری لمحہ لمحہ بے باک ہوتے جا رہے ہیں ، لیکن سوالات بھی بہت اہم ہیں۔خیال خاطر احبا ب کے پیش نظر ، فی الوقت ، محض چند سوالات پر اکتفا کرتے ہیں۔

1۔تحریک نظام مصطفی ؐ کے عنوان سے چلنے والی یہ پہلی تحریک نہیں ہو گی۔اسی عنوان سے اس سے پہلے بھی ایک تحریک چل چکی ہے۔اس کا حساب کون دے گا۔کس عالی مارتبت بارگاہ سے رجوع کیا جائے کہ اس تحریک کا حاصل معلوم ہو سکے جو اسی مقدس عنوان کے تحت چلائی گئی، حق کی خاطر لوگ باہر نکلے اور اس شان سے نکلے کہ جان پہ کھیل گئے لیکن انجام کیا ہوا؟ ان کی جھولی میں حق کی بجائے ’ضیاء الحق ‘ ڈال کر اہل جبہ و دستار اپنے اپنے حجروں کو مراجعت فرما گئے، اور وہاں سے نکلے تو ’ مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں‘ سیدھے’امیر المومنین ‘کی مجلس شوری میں جلوہ افروز ہوئے۔دستر خوان کی بے پایاں وسعتوں میں لب شیریں سے تازہ چشمے پھوٹ پڑے : مرد مومن مرد حق۔۔۔ ضیاء الحق ضیاء الحق۔ آج سب جانتے ہیں کہ وہ تحریک اصل میں انتخابی دھاندلی کے خلاف اٹھی اور حبیب جالب اپنے شعروں سے اسے تمازت بخشتے رہے تو تحریک استقلال جیسی سیکولر جماعت ہراول میں کھڑی رہی ۔مقصود کچھ اور تھا ، عنوان کچھ اور۔اسی عنوان سے نئی تحریک بپا کرنے والے حضرات اب کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلہ کے کہ پہلی تحریک کا انجام کیا ہوا اور اس کے نتیجے میں کتنا اسلام نافذ ہوا؟ ان حضرات کو کوئی تو یہ بتائے کہ وقت کے موسم بدل چکے ہیں اور اب ان کی مخاطب وہ نسل ہے جو گاہے سوال اٹھاتی ہے ۔

2۔ تحریک کا عنوان نظام مصطفی ﷺ ہے ، کیا یہ حضرات وضاحت فرمائیں گے کہ نظام مصطفی سے ان کی مراد کیا ہے؟اگر تو اس کا تعلق قوانین کے تعین سے ہے تو یہ مرحلہ تو دستور میں طے ہو چکا۔اب یہ ایک متعین شدہ اصول ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔لیکن اگر اس کا تعلق آئین کی اسلامی روح کا کامل نفاذ ہے اور یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ حکومت اس ضمن میں مجرمانہ غفلت کا مطاہرہ کر رہی ہے اور مغربی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے تو اس حوالے سے تحریک چلانے سے پہلے ان حضرات نے قبلہ حضرت مولانا فضل الرحمن سے اتنا تو پوچھ لیا ہوتا کہ وہ کس جواز کے تحت حکومت کا حصہ ہیں اور نہ صرف وزارتوں بلکہ دیگر اہم مناصب سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔تحریک چلا رہے ہیں تو صف بندی تو درست کیجیے۔مولانا سے یہ تو پوچھ لیجیے وہ کس صف میں ہیں۔اور اگر نظام مصطفی ﷺ سے مراد رویوں کی تطہیر ہے اور تزکیہ ہے تو اس کے لیے سیاسی تحریک کی نہیں سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے میں جو زبان استعمال ہوئی وہ بتا رہی ہے کہ خود اہل مذہب کے ہاں اخلا قی بحران کتنا شدید ہے۔اس بحران کا حل کسی سیاسی تحریک میں نہیں سماجی تحریک میں ہے جو معاشرے کی تہذیب کرے۔اور اگر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ نظام مصطفی ﷺ سے مراد یہ ہے کہ ریاست کی زمام کار اہل مذہب کے حوالے کر دی جائے اور پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیا جائے تو کیایہ قرارداد مقاصد میں طے کیے گئے اصولوں کی واضح خلاف ورزی نہیں ہو گی؟یاد رہے کہ قرارداد مقاصد ریاست کی اسلامی شناخت کا نقش اول ہے ۔ اس میں ملائیت کی نفی کی گئی ہے اور قرآن و سنت کی بات کی گئی ہے اور طے کر دیا گیا ہے کہ عوام الناس کے منتخب نمائندے اقتداراور اختیارات کو کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک مقدس امانت سمجھ کر قرآن و سنت کے مطابق استعمال کریں گے۔

3 ۔ تحریک برپا کرنے سے پہلے کیا یہ جماعتیں اس فکری ابہام کی وضاحت کریں گی جو نفاذ اسلام کے باب میں ان کے ہاں پایا جاتا ہے؟کالم کی تنگنائے تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، ایک ہی مثال کفایت کرے گی۔جمعیت علمائے پاکستان جب تقسیم نہیں ہوئی تھی اس کا منشور پیش کیا گیا جس کا پیش لفظ مرحوم مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ نے لکھا تھا۔ اسمیں جمعیت علماء پاکستان کا تعارف یوں کرایا گیا: ’’ سواد اعظم اہل سنت والجماعت ملک کی غالب اکثریت پر مشتمل ایسی تنظیم ہے جو سیاست میں خلافت علی منہاج النبوت، معیشت میں مساوات محمدی اور اعتقادی لحاظ سے مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی علمبردار ہے اور کتاب ، سنت رسول ﷺ ، سنت صدیقین ، سنت خلفائے راشدین ، سنت تبع تابعین ، سنت شہداء، سنت صالحین و ائمہ اہل بیت، ائمہ فقہ ، ائمہ علم الکلام، ائمہ حدیث ، ائمہ تصوف اور اجماع امت تمام کو آئینی، قانونی، دینی، تہذیبی، تمدنی ، معاشرتی ، معاشی اور بین الاقوامی معاملات اور مسائل میں اپنے لیے واجب الاتباع تصور کرتی ہے ‘‘ ۔۔۔۔۔ذرا غور فرمائیے کتنوں کو واجب الاتباع قرار دے دیا گیا۔مولانا مرحوم کا بہت احترام ہے ، خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، انہوں نے ہمیشہ مجھے پیار دیا لیکن یہ سوال تو موجود ہے کہ تمام ائمہ فقہ کو واجب الاتباع قرار دے دیا گیا۔اب چاروں امام اگر مختلف مسائل پر مختلف رائے دیں تو ایک ہی وقت میں سب کی اطاعت کس طرح کی جائے؟یہ فکری ابہام اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب اسی تحریر میں آ گے جا کر ہم پڑھتے ہیں : ’’ قرآن مجید یا اسلام کی ایسی کوئی تعبیر قابل قبول نہیں ہو گی جو خاتم النبیین ﷺ اور فقہ حنفی سے انحراف کر کے پیش کی جائے ‘‘ ۔

4۔تحریک کا اعلان کرنے والی جماعتوں کے داخلی تضادات اور مسلکی جماعتوں کے تضادات ایک عالم پر آشکار ہیں۔یہ تضادات اتنے گہرے ہیں کہ جب تک ان سے بالاتر نہ ہوا جائے تحریک کے ثمرات حاصل کرنا ناممکن ہے۔کیا یہ ان تضادات سے بلند ہو سکیں گی؟ان کے ایک دوسرے کے بارے میں خیالات میں جو شدت ہے جب تک ان سے اعلانیہ رجوع نہیں کیا جاتا ان کا اتحاد ایک سوالیہ نشان ہی رہے گا۔محض ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر فوٹو بنوا لینے سے عوام الناس کے دلوں میں ابھرتے خدشات کو جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟مقصد سے واقعی اخلاص ہے تو اسے ثابت کرنا ہو گا۔کیا یہ جماعتیں اس بھاری پتھر کو اٹھا پائیں گی؟

5۔قائدین کرام کی حیران کر دینے والی صلاحیت بھی عروج پر ہے۔فرمایا ’’ حقوق نسواں بل کو قرآن و سنت سے متصادم ثابت کر دیں گے ‘‘۔اس ارشاد کی شرح کیا ہے؟کیا یہ سمجھا جائے کہ ابھی تک اسے قرآن و سنت سے متصادم ثابت نہیں کیا جا سکا؟تحریک پہلے چلائی جا رہی ہے ثبوت بعد میں دیے جائیں گے۔اتنی بے تابی کیا ہے۔؟پہلے یہ ثابت کر لیتے پھر تحریک چلا لی جاتی تو کیا مضائقہ تھا؟اگر دلیل کی قوت کی یہی مظاہر ہم نے دیکھنا ہے تو زیادہ بہتر نہ ہوتاجناب سراج الحق ا پنے شعبہ اطلاعات سے کہہ دیتے کہ ہم نے تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے آ پ فوری طور پر اس تحریک کے چلائے جانے کے سترہ اسباب بیان کریں۔

سارے درد دل کے ساتھ گذارش ہے کہ ان سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور فرما لیا جائے۔ورنہ ملک میں جاری فکری کشمکش کے ہنگام سیکولر احباب طعنے کے طور پر اقبال ؒ کا وہ شعر بھی کہہ دیں گے جسے کالم کے شروع میں نے دانستہ نظر انداز کر دیا تھا
’’قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیا ہے!

اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے