پانامہ لیکس سے سوشل میڈیا کے مباحث تک

پانامہ لیکس نے دنیا بھر میں ایک بھونچال پیدا کیا،کئی ممالک اس سے ہل کر رہ گئے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی خبروں، افواہوں، تجزیوں اور تنقید ودفاع پر مبنی آرا ءکا ایک سیلاب سا آیاہوا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات کتنی دیر تک رہتے ہیں اور کیا آف شور کمپنیوں کے کلچر میں ٹھوس تبدیلی آ سکے گی یا نہیں؟ پچھلے دو تین دن سفر میں گزرے ،پانامہ لیکس پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا،نہ ہوپایا۔ ویسے بہت چیزیں آ چکی ہیں، کوئی پہلو ایسا رہا نہیں جو تشنہ ہو۔ایک دو باتیں البتہ ایسی ہیں، جن کے اثرات آگے تک چلیں گے۔
ایک تو اس لیکس سے اڑنے والی گرد جن چہروں پر پڑی، نوے فیصد سے زیادہ وہی ہیں، جن کے بارے میں پہلے ہی ایسے گمان موجود تھے۔ پاکستانی تناظر میں کم ازکم سرپرائز کم ہی نظر آیا۔ وہی شریف خاندان سب سے زیادہ زد میں آیا ،جن کے بارے میں بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے پرجوش حامی بھی نجی محفلوں میں جن کی تصدیق بلکہ حسب توفیق دو چار اضافے ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔ ریمنڈ بیکر نے برسوں پہلے اپنی کتاب میں یہ سب اشارے دئیے تھے۔پیپلزپارٹی کے جن لوگوں کے نام آئے ہیں، ق لیگ کے رہنماﺅں یا دوسرے بعض لوگوں کے نام لئے جا رہے ہیں، ان میں سے اکثر پر اسی نوعیت کے الزامات ان کے مخالفین عائد کرتے رہتے تھے۔پانامہ لیکس نے صرف ان شکوک وشبہات کو ایقان کی حد تک پہنچا دیا ہے۔تحریک انصاف کے قائدپرمالی کرپشن کے الزامات کم ہی لگتے رہے ہیں، ان کے بعض صاحب ثروت رہنماﺅں کے نام بھی شامل نہیں ہوئے، جس پر پی ٹی آئی کے کارکنان کا اطمینان دیدنی ہے۔وہ پوری یکسوئی کے ساتھ، اپنی مرضی کے اہداف پر گولہ باری فرما سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی جیسی مذہبی سیاسی جماعتیں اس بار بھی سرخرو ٹھہری ہیں۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا موجودہ سسٹم اس قسم کے سنگین الزامات کی شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات کی سکت رکھتا ہے؟پاکستان میں وزیراعظم تو دور کی بات ہے، کسی وزیر تک کے استعفا دینے کی روایت موجود نہیں۔ کیا مجوزہ جوڈیشل کمیشن ایسی تحقیقات کر سکے گا، جو بامعنی ثابت ہوں ۔ پھر کمیشن رپورٹ پر کس حد تک عمل ہوپائے گا …. یہ سب ایسے سوالات ہیں، جن پر ہمارے سیاسی ،جمہوری سسٹم کی ساکھ داﺅ پر لگی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے ماضی کے برسوں میں جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے بڑی قوت حاصل کی تھی، اگرچہ اسے ضائع کر دیا گیا۔ کیا اس بار عدلیہ اتنے بڑے سکینڈل کو اَن نوٹس جانے دے گی؟ خدشہ مجھے یہی ہے کہ اس منجدھار سے جو باہر نہیں آ سکے گا، وہ موجودہ سسٹم کا بھرم ہوگا۔ جمہوری سیاسی نظام اور اس کی ساکھ ہی کہیں شکست خوردہ (Looser)نہ ٹھہرے ۔

سوشل میڈیا پر پانامہ لیکس کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ نت نئے شگفتہ کاٹ دار فقرے، جگتیں، کارٹون، آڈیو ، ویڈیو کلپس روزانہ پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ دھڑا دھڑ ان پر تبصرے ہو رہے ہیں، شئیر کیا جاتا ہے۔یہ صرف پانامہ لیکس کے ساتھ نہیں ،بلکہ ہراہم واقعے کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے۔ ایک چوپال نیوز چینلز نے شام سات سے گیارہ بجے تک لگائی ہوتی ہے تو اسی وقت سوشل میڈیا پر کئی جہان ِ رنگ وبوہر قسم کی مہک، چہکاراور کھنکھناہٹ سموئے ملتے ہیں۔ دلچسپی ان کی کسی طور ٹاک شوز سے کم نہیں ، اکثر تو سوا ہوتی ہے۔اوروں کا نہیں پتہ،اس خاکسار کی یہ رائے روز بروز مستحکم ہو رہی ہے کہ ہمارے مین سٹریم میڈیا کے لئے سوشل میڈیا بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ فیس بک نے لکھنے والے کواپنی رائے کے بے لاگ اظہار کی جو قوت بخشی ہے، وہی اسے ممتاز و ممیز بناتی ہے۔ ٹوئٹر پرالفاظ کی بندش ہے، مگر وہاں آپ ایک فقرے میں بہت کچھ سمو سکتے ہیں۔

فیس بک اور ٹوئٹر کے مثبت ،منفی پہلو اپنی جگہ ہیں، ان کا استعمال ایک نشے کی طرح ہے، کچھ عرصہ عادت پڑ جائے تو پھر آسانی سے چھوٹتی نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں اس پر کئی ادارے ریسرچ بھی کرا رہے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک سمندر کی طرح ہے،یہ آپ پر ہے کہ اس سے کس طرح کا استفادہ کرناچاہ رہے ہیں۔ ساحل پر بیٹھ کر بھیگی بھیگی نم آلود ہواﺅں سے لطف اندوز ہونا ہے ، لہروں سے پاﺅں بھگونے، ساحل کے قریب کے پانیوں میں نہانے یا پھر گہرے پانیوں میں اتر کرکھنگالنے کا ارادہ ہے۔سوشل میڈیا آپ کے مطابق ہی ردعمل دے گا۔ ایک اور بات جس کا خاص طور سے فیس بک پر آنے والے نووار د اندازہ نہیں کر پاتے ، وہ آپ کا دوست بنانے کی چوائس ہے۔ آپ نے اپنا حلقہ انتخاب خود ہی ترتیب دینا ہے۔ اپنے جماعتی، مسلکی، نظریاتی اتحادیوں سے اسے بھرنا ہے یا پھر مختلف سوچ رکھنے والوں کے لئے بھی جگہ رکھیں گے ؟اگر آپ اپنے جیسے لوگوں ہی کو فیس بک فرینڈ بنائیں گے تو پھر ایک ہی طرح کی پوسٹوں اور کمنٹس سے واسطہ پڑے گا۔

سوشل میڈیا کے دو پہلواب زیادہ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔اردو ٹائپنگ کے ایپس، سافٹ وئیرز نے بے پناہ آسانی پیدا کر دی ہے۔ کئی ایسے اصحاب علم وادب جو اپنی افتاد طبع یا تساہل کی وجہ سے باقاعدہ لکھنے کی طرف نہیں آ رہے تھے‘ بعض کے لئے قومی اخبارات کے دروازے وا نہیں ہوئے‘ فیس بک پر اب انہوں نے اپنی اپنی محفل سجا لی ہے۔ بہت عمدہ تجزئیے اور نہایت خوبصورت تخلیقی تحریریں روزانہ متعدد فیس بک والز پر مل جاتی ہیں۔پچھلے سال ڈیڑھ میں بعض لکھنے والوں نے اپنی انفرادیت اور مہارت منوا لی اور وہ ممتاز ہوچکے ہیں۔ فیس بک پر تھیٹر والا حال ہے۔ فنکار سٹیج پر کھڑا پرفارم کر رہا ہے، حاضرین سے کسی نے فقرہ کسا ، فنکار نے ترنت جواب دیا۔ تھیٹر فنکار کے کسی اچھے جملے پر تالیاں گونجنے لگتی ہیں تو فیس بک پر شئیر کی آپشن لکھنے والے کاحوصلہ بڑھاتی اور خون گرماتی ہے۔

بعض بہت عمدہ لکھنے والوں سے میں فیس بک کے ذریعے ہی متعارف ہوا اور یہ ماننا پڑے گا کہ انہیں مین سٹریم میڈیا میں داخل ہوئے بغیر ہی صرف اپنی تحریرکے زور پر کامیابی مل گئی۔ متحدہ عرب امارات میں مقیم قاری حنیف ڈار سے لے کر پروفیسر طفیل ہاشمی جیسے استاد،ڈاکٹر خضر یاسین جیسے سکالر،ڈاکٹر عاصم اللہ بخش جیسے جینوئن دانشور جن کی ہر پوسٹ اعتدال کے معنی کو نئے انداز سے اجاگر کرتی ہے،دینی حلقوں سے فیصل آباد کے مفتی زاہد ، گوجرانوالہ کے مولانا عمارخان ناصر، مفتی عدنان کاکا خیل اور سید متین شاہ نمایاں ہیں تو صحافت کی وادی پرخار میں برسوں گزارنے والے رعایت اللہ فاروقی کی تحریروں کا اپنا منفرد ذائقہ ہے۔قانون دان ، لکھاری آصف محمود کا تیکھا کاٹ دار اندازدیدنی ہے تو نوجوان لکھاریوں میں فرنود عالم اور یدِ بیضا اپنا الگ دلکش رنگ جماتے ہیں۔ وجاہت مسعود جیسے صاحب علم لکھاری اپنی مخصوص شائستگی کے ساتھ سیکولر فکر کے مختلف زاویوں کو بیان کرتے ہیں ،عدنان خان کاکٹر ،حسنین جمال، ذیشان ہاشم اسی مکتب فکر کے قابل ذکر لکھاری ہیں۔ فلسفہ ، ادب اور دینیات پر حیران کن علمی استعداد کے ساتھ قلم اٹھانے والے عاصم بخشی، حنیف سمانا کی اصلاحی تحریریں، کراچی کے ممتاز دینی سکالر جاوید اکبر انصار ی کے شاگرد رشید زاہد مغل کا تجزیاتی منطقی انداز ، ملتان کے حافظ صفوان چوہان کی شوخی تحریر،نوجوان لکھاری یوسف سراج اور غلام اصغر ساجد کی علمی نکتہ سنجی۔ یہ چند نام فوری طور پر ذہن میں آ گئے، ورنہ یہ فہرست خاصی طویل ہوسکتی ہے۔ خواتین لکھاریوں میں سے صدف زبیری، فرحانہ صادق ،حوریہ ذیشان وغیرہ نمایاں ہیں۔

ایک اور اچھا کام یہ ہوا کہ یہ لکھنے والے اور ان جیسے بعض دوسرے بلاگرز کی تحریروں پر مشتمل کئی اہم اور دلچسپ ویب سائٹس بن چکی ہیں۔ برادرم وجاہت مسعود کی” ہم سب“،”سبوخ سید کی آئی بی سی اردو“، ابو علیحہ کی” چٹکی“ نمایاں ہیں۔” اردو ٹرائب“ نے زیادہ فوکس نیوز اور دلچسپ فیچرز پر کیا، مگر اب وہ بھی بلاگز کی طرف آ رہی ہے۔ میری ایران پر لکھی ایک پوسٹ اس نے شائع کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ اسے ڈھائی تین ہزار کے قریب لوگوں نے اپنی اپنی فیس بک وال پر شئیر کیا۔ اچھے اور ممتاز لکھاریوں کی شئیرنگ ظاہر ہے اور زیادہ ہوگی ۔ہمارے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تو کرنٹ افئیرز کے مباحث ہی چھائے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے دسترخوان پر اس سے ہٹ کر بھی بہت سی نئی، ذائقہ دار ڈشز ملتی ہیں۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تشکیل میں اب سوشل میڈیا کا کردار سب سے اہم اور کلیدی نوعیت کا ہوگا۔ اگرچہ ابھی تک اس کا مکمل ادراک بہت سے حلقوں کو نہیں ہوسکا۔ شائد یہی فیکٹر اس کے حق میں جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے