پاناما لیکس، سازش کیوں ہے

امریکی سی آئی اے کے سابقہ اہلکار ایڈورڈ سنوڈن جب منحرف ہوئے اور چند بے مطلب انکشافات کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں کی زینت بنے تو امریکی سرزمین ان کے لیے تنگ پڑ گئی تھی۔ جان بچانے کی خاطر انہیں روسی پناہ لینی پڑی۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات عالمی سیاست کو اتھل پتھل کرنے میں اگرچہ ناکام رہے مگر اس بات کے بھرپور امکانات موجود ہیں کہ روسی پناہ میں کے بدلے وہاں کے خفیہ اداروں کو ان سے بہت کچھ حاصل ہوا ہو گا۔ دنیا اب دوبدو جنگ کے زمانے سے نکل آئی ہے، میدان میں لڑنے کی بجائے اب جنگیں انٹیلی جنس اداروں کی خفیہ سازشوں اور پراکسی وار کے سہارے لڑی جا رہی ہیں، جن میں وارفیئرتھیوری اور اپنی چالوں کودشمن کی رسائی سے دور رکھنا محفوظ رکھنا نہایت ضروری امر ہے۔ ایسے میں ایڈورڈ سنوڈن کا روسی خفیہ اداروں کے ہاتھ لگنا امریکی ایجنسیوں کے لیے بھونچال سے کم ہرگز نہیں تھا، اور جاننے والے جانتے ہیں کہ سی آئی اے دیر سے سہی مگر جوابی وار ضرور کرے گی۔اور ہمارے خیال میں پاناما لیکس اسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔

اس پس منظر میں پاناما لیکس کے نام پر جو کچھ ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے اسے سمجھنا نہایت آسان ہے۔ پاناما لیکس میں جن جن شخصیات کا ذکر ہے ان میں چند غیر معروف امریکیوں کے علاوہ تمام کا تعلق روس، شام، چین اور تیسری دنیا کی ابھرتی معیشتوں سے ہے۔ اور یہی چیز اسے مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ مغربی ذرائع ابلاغ جنہوں نے ایڈورڈ سنوڈن کے ان انکشافات کو جو امریکی سازشوں سے متعلق تھے معمولی ثابت کرنے کے لیے تحقیقاتی رپورٹس شائع کی تھیں پاناما لیکس کو آسمانی صحیفے کی طرح مقدس بتا رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے باسیوں کا المیہ تو یہ ہے کہ جن رسائل و جرائد اور میڈیا چینلز نے انہیں مقامی سیاسی رہنماؤں کے نام بطور کرپٹ لیڈرز رٹا دیے ہیں انہوں نے کبھی نہیں بتایاکہ کتنے اور کون کونسے مغربی و امریکی لوگ ریاستی سرپرستی میں کالا دھن سفید کرنے کے لیے آف شور کمپنیاں چلا رہے ہیں۔

امریکی ریاست ڈیلاویئر میں قریب ساڑھے نو لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو وہاں کی آبادی کے حساب سے فی کس ایک کمپنی بنتی ہے۔ایک چھوٹی سی ریاست میں اتنی بڑی تعداد میں حقیقی کمپنیاں ہونا تو ممکن ہی نہیں پھر یہ گھوسٹ کمپنیاں فراڈ نہیں تو اور کیا ہے؟ امریکی ریاستیں ڈیلا ویئر، نیواڈا، ایریزونا اور ویاؤمنگ کے ساتھ ساتھ کینیڈا اور سویٹزرلینڈ گھوسٹ کمپنیوں کی جنت کہلاتے ہیں، لیکن آج تک ان کمپنیوں سے جڑے لوگوں اور ان کے کالے کارناموں کا ذکر کسی مغربی جریدے کی زینت نہیں بن سکا۔وجہ کیا ہے؟

وجہ جاننے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ دنیا میں جب اور جہاں بھی مالیاتی کرپشن کی بات چلے گی اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں بینکنگ کا زہریلاناگ اپناپھن پھیلائے کھڑا ہو گا۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں دولت مند طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ اور سرمایہ دار ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ ریاستی پالیسیوں کا کنٹرول ہاتھ سے جانے نہ پائے تاکہ اس کے مالی مفاد کو کوئی گزند نہ پہنچے اسی مقصد کے لیے وہ خفیہ اداروں یہاں تک کے غیر ملکی خفیہ اداروں کو بھی راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ حالات جیسے بھی ہوں اس کا سرمایہ محفوظ رہے۔
پاناما لیکس منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے ہاں سمجھا گیا ہے کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے از خود استعفی دیا، حالانکہ انہیں استعفی دینے پر مجبور کیا گیا تھا ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں مجبور کرنے والوں کی سپورٹ ان29 بینکوں نے کی جنہیں 2008 کے ایک مالیاتی سکینڈل کی بنیاد پر آئس لینڈ کے موجودہ وزیر اعظم نے جیل بھجوایا تھا، جبکہ اسی سکینڈل میں ملوث وہ لوگ جن کا تعلق برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا سے تھا انہیں وہاں کی سرکار نے معمولی سرزنش کے بعد رہا کر دیا تھا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں دراصل انہی بڑے بینکوں کے خفیہ اکاؤنٹس کی ایک قسم ہے، جہاں کلائنٹ کو فل پرائیویسی مہیا کی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل بینک میں فیئر بزنس کرتے ہوئے خوبصورت چہرہ دکھایا جائے اور آف شور کمپنیوں میں کالا دھن رکھ کر کلائنٹ اور بینک دونوں کے لیے ون ون سچویشن بنائی جائے۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ پاناما لیکس منظر عام پر لاکر مجھ اور آپ جیسے عام فرد کو مالیاتی کرپشن سے خوفزدہ کر دیا تاکہ کبھی ٹیکس چوری یا آف شور کمپنی کا خیال ہمارے دل میں نہ سما سکے اور ہمارا مٹھی بھر سرمایہ انہی بینکوں میں جائے جو اسے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جب چاہیں ہمارے خلاف اور عالمی طاقتوں کے حق میں استعمال کر سکیں،جبکہ بڑے مگر مچھوں کو یہ باور کرا دیا گیا کہ محفوظ جگہ وہی ایک ہے جو ہماری منظور نظر ہے۔ جس کے بعدکل کہانی یہ بنتی ہے کہ بینک کسی حال میں نہ ہارے، میں،آپ اور ہمارا ملک چاہے بھاڑ میں چلے جائیں۔

یہاں ایک خاص نکتہ ہمارے مذہب پسند دوستوں کی نذر کرتا ہوں کہ جیسے آپ نے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ باطل کے تیر جس ہدف کی طرف آئیں سمجھ جاؤ وہیں حق موجود ہے بالکل ایسے ہی عالمی منظر نامے میں جب کچھ نیا ہونے لگے تو دیکھا کیجیے کہ فائدہ کون اٹھا رہا ہے۔ اگر کسی تحقیقاتی رپورٹ کا کامل فائدہ عالمی ساہوکاروں کے پجاری بینک اٹھا رہے ہوں وہ کیسے حق ہو سکتی ہے؟

پاناما لیکس میں ساڑھے گیارہ ملین ڈاکومنٹس ہیں، جن میں سے چند ہزار سامنے لائے گئے ہیں، جس قانونی فرم سے ڈیٹا چوری ہوا اس کا نام موزیک فونسیکا ہے، جو ستر کی دہائی سے آف شور کمپنیوں کو قانونی مدد فراہم کرتی تھی۔ جرمن اخبار زڈوئشک زیٹون جسے یہ ڈیٹا فراہم کیا گیا وہ جریدہ ہے جسے جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے اس وقت اشاعت کی اجازت دی جس وقت جرمنی میں پرنٹ میڈیاپرمکمل پابندی تھی۔ Jhon Doe جس نے یہ ڈیٹا اخبار کو فراہم کیا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے۔ ایک نامعلوم شخص دو ہزار جی بی سے زیادہ ڈیٹا بنا کسی شرط اخبار کو فراہم کرکے کہتا ہے کہ اسے پبلک کیا جائے۔ ایک اکیلا انسان دنیا کے طاقتور اور مالدار ترین لوگوں کے ساتھ دشمنی مول لیتے ہوئے سیلف پروٹیکشن کی ضمانت تک نہیں مانگتا۔ حیرت انگیز۔۔ تنہا ایک انسان اتنا بڑا قدم اٹھاسکتا ہے؟ عقل نہیں مانتی۔
ہاں مگر اسے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا تعاون حاصل ہو تو سب ممکن ہے۔ اور اس کا ثبوت وہ ادارے ہیں جنہوں نے اس پورے تحقیقاتی عمل کو مالی و تکنیکی معاونت فراہم کی۔ پاناما لیکس اور اس کے تحقیقاتی عمل کو سپورٹ کرنے والے ادارے یو ایس ایڈاوراوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن ہیں جن کے تعلقات امریکن خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ گیارہ ملین ڈاکومنٹس میں سے وہ فائلیں جو ان سیاستدانوں اور عالمی رہنماؤں کے متعلق ہیں جنہیں مغرب مخالف سمجھا جاتا ہے،سامنے آئی ہیں۔اور کاروائی کی ٹائمنگ بھی ایسی جب مغرب اور امریکہ دباؤمیں اور مذکورہ رہنما عالمی سیاست میں ابھرتا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔حیرت انگیز
قابل غور معاملہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں سے کسی کا نام ان لیکس میں نہیں ہے۔پوری کاروائی کے پیچھے عالمی ساہوکاروں کے نمائندہ بینک اور عالمی سامراج کا ہراول دستہ سی آئی اے ہے۔ لیکس میں جو نام لیے جا رہے ہیں وہ سب مغربی پالیسیوں کے مخالف شمار ہوتے ہیں۔ جس اخبار نے لیکس نشر کی ہیں اسے بھی پرو امریکہ کہا جاتا ہے۔ جس شخص نے ڈیٹا فراہم کیا وہ بھی غیر معروف مگربظاہر اتنا طاقتور محسوس ہوتا ہے کہ تن تنہا روس اور چین جیسی طاقتوں سے دشمنی مول لے کر بھی حفاظت کی ضمانت طلب نہیں کرتا۔ پھر بھی یار لوگ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے پاناما لیکس کو عالمی سازش کہہ کر نواز شریف کو خوش کرنا چاہا ہے۔ اچھا جی! آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا مگر جب کبھی کنویں سے سر باہر نکالنے کا موقع ملے تو واقعے کا پس منظر و پیش منظر جاننے کی کوشش ضرور کیجیے گا۔ رب راکھا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے