چاک گریباں

شنید ہے کہ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے "نفاذ نظامِ مصطفی” کے جھنڈے تلے اتحاد کا اعلان کر دیا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا بنیادی عناصر کے فقدان کے ساتھ اس طرح کا کوئی بھی اتحاد کسی بھی درجہ میں کامیابی کی کوئی ہلکی سے نوید بھی سنا سکتا ہے؟ یا پھر یہ بھی صرف مداری کا ایک تماشا ہے جو کہیں بھی کسی بھی وقت کسی کو بھی دکھایا جا سکتا ہے اور جس کا مقصد سوائے چند ٹکوں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ حیرت ہوتی ہے کہ عملی طور پر لوگ مصطفی کے اس نظام کو کیوں پسند نہیں کرتے جس کی بنیاد ہی فوری عدل، مساوات، صلہ رحمی اور اعلی اخلاقی اقدار پر رکھی گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج لوگ اسلامی اقتصادی نظام سے دور بھاگتے ہیں جبکہ یہ وہی نظام ہے جس کی کامیابی کا عالم یہ تھا کہ صاحبِ نصاب زکاة ہاتھ میں لیئے مستحق ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ اور نظامِ مصطفی کی اخلاقی اقدار اور تربیت کا عالم یہ تھا کہ جہاں اس نے صاحبِ نصاب کو زکاة نکالنے پر مجبور کیا وہیں غیر مستحق کو قبول یا مطالبہ کرنے سے بھی روک دیا حالانکہ بظاہر دونوں کے اوپر کوئی نگران یا دیکھنے والا نہ تھا۔ جب نظام اتنا خوبصورت ہو تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک مسلم ملک کے لوگ اسکی طرف مائل نہیں ہوتے اور آئے دن اس کے نفاذ کے لئے کبھی تو اتحاد بنائے جاتے ہیں اور کبھی شاہراہوں پر راہگیروں کا راستہ روک کر ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو خالصتا مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا اور جس کے رہنے والے مذہب کو لے کر اتنے جذباتی ہیں کہ مرنے اور مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب بھی چننے کی باری آتی ہے تو یہی لوگ ملک کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں جو بظاہر مذہبی نہیں ہوتے اور کسی بھی مذہبی نظام کا دعوی نہیں کرتے۔

دراصل نظامِ مصطفی کا نعرہ لگانے والوں نے کبھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے انکا حق ادا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ گئے وقتوں کی بات ہے کہ اقتدار اور زمامِ حکومت مذہبی اور باشرع افراد کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی اور یہی وہ غیر شعوری احساس ہے جو آج بھی مذہبی رہنماؤں کی نفسیات کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہے اور گاہے بگاہے ان کی تشنہ لبی کو مہمیز دیتا رہتا ہے۔ نظامِ مصطفی کا نعرہ اصل میں حصولِ اقتدار کا نعرہ ہے جس تک پہنچنے کے لیئے اس نظام کو بطور سیڑھی استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور چونکہ مقصد خالص نہیں تو کوشیشیں بھی مطلوبہ نتائج مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ فکری طور پر ہم اپنے آپ کو انبیاء كا وارث اور "إنما يخشى الله من عباده العلماء” کا مصداق تو قرار دیتے ہیں لیکن عملی طور پر نہ تو ہماری اکثریت کے اندر انبیاء والی صفات کا کوئی پرتو پایا جاتا ہے اور نہ ہی عالم جیسے باوقار لفظ کے مستحق ہیں۔ جس نبی ﷺ کے نظام کا ہم نعرہ لگاتے ہیں اس نے تنِ تنہا یہ نظام اس معاشرے میں نافذ کیا تھا جو ہمارے موجودہ سماج سے کہیں زیادہ جاہل اور ظالم تھا اور ہم بنیادی سہولیات، افرادی قوت اور سازگار ماحول ہونے کے باوجود آج تک اس میں کامیاب نہیں ہو پائے کیونکہ ہم نے کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کے بنیادی عناصر پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ کسی بھی معاشرے کی دائمی تبدیلی کا آغاز ہمیشہ فرد کی سوچ سے ہوتا ہے اور یہ سوچ صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فرد کو اس کی افادیت کا احساس دلا دیا جائے۔

منبر و ٘محراب کا بنیادی مقصد سماجی فکر کی تشکیل اور مثبت اقدار کا حامل معاشرہ تعمیر کرنا تھا لیکن افسوس کہ ہم اس میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور اس کو چند مخصوص قسم کے دائروں میں محدود کر کے رکھ دیا۔ جس منبر و محراب سے اصلاح کا کام لینا تھا اسی کو ہم نے فرقوں اور گروہوں میں بانٹ کر متنازع بنا دیا، جن اوقات میں ہمیں سماج کی فکری تعمیر کرنی تھی ان میں ہم نے مخالف گروہ کو نیچا دکھانے کے لیئے زہر اگلنا شروع کر دیا، جس جگہ کو ہمیں اجتماعی خیر خواہی اور رہنمائی کر مرکز بنانا تھا اسی کو مسلک کا قلعہ بنا کر مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا، جو جگہیں کبھی اللہ کا گھر کہلاتی تھیں وہ آج عملا ذاتی جاگیر کا منظر پیش کرتی ہیں جس سے صرف وہی مستفید ہوسکتا ہے جو متعلقہ افکارو نظریات سے اتفاق رکھتا ہو۔ جو دین سلامتی اور امن و امان کا استعارہ تھا آج ہم نے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا ہے کہ غیر تو غیر اپنے بھی اس کے نظام کا نعرہ سن کر بدک جاتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی نظام کا جو چہرہ ہم ان کو دکھاتے ہیں وہ اس میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سممجھتے۔ ہمارے اقوال ہمیشہ ایک خاص زاویہ پر مرکوز ہوتے ہیں جس کو اگر عملی شکل دی جائے تو وہ رہبانیت ہے جس کا انتہائی مقصد جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ مجموعی طور پر ہمارے قول و فعل میں مشرق و مغرب جیسا تضاد پایا جاتا جو بذاتِ کسی بھی تحریک اور نظام کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

آج کی دنیا، جو گلوبل ویلج بن چکی ہے اور جس کی رفتار کا عالم یہ ہے کہ ایک کونے میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو دوسرے ہی لمحے اس کی خبر دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی وہ آج امن، محبت اور سکون کی تلاش میں ہے، جس چیز میں بھی آج لوگوں کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے وہ اسکی طرف بنا کسی تشہیر کے کھچے چلے آتے ہیں، ہمیں صرف یہ تاثر دینا ہے کہ جس امن کی دنیا کو تلاش ہے وہ ہمارے پاس ہے، جس ترقی کے دنیا خواب دیکھتی ہے اس کی کنجی ہمارے نظام میں ہے۔

جس دن ہم یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے اس دن ہمیں اسلام کا علم بلند کرنے کے لیئے یا اس کا نظام نافذ کرنے کے لیئے کسی تحریک، دھرنے، ریلی یا بل کی قطعا ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ لوگ خود چل کر ہمارے پاس آئیں گے اور ہمیں کندھوں پر اٹھا کر ہماری کامیابی کا اقرار کرتے ہوئے ہمیں رہنما تسلیم کر لیں گے۔ لیکن اس کے لیئے ہمیں اسلام کا حقیقی چہرہ لوگوں کو دکھانا ہو گا جس میں بدلے سے زیادہ معاف کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، ٘مخالف کی عزت اور اس کی رائے کا احترام سکھایا جاتا ہے، فساد کا خدشہ ہو تو اپنا حق تک چھوڑ دینے کا درس دیا جاتا ہے، پڑوسی کو، قطع نظر اس کے رنگ، نسل اور مذہب کے اتنے حقوق دیئے جاتے ہیں گویا وہ گھر کا فرد ہو ۔ ہمیں اس اسلام کی تعلیم دینی ہو گی جو ایک غیر مسلم کو کسی بھی مسلمان سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمیں اس اسلام کی ترویج کرنی ہوگی جس کی اخلاقی اقدار اتنی اعلی ہیں کہ ابو جہل جیسے شخص کو باوجود اپنی تمام تر خباثتوں کے کسی قسم کے فدائی حملے یا ذاتی استحصال کا خوف نہ تھا۔ اور ہمیں اس اسلام کی تعلیم بھی دینی ہو گی جو کفر و الحاد کے فتوے تو دور مخالفین کو برے القابات دینے سے بھی منع کرتا ہے۔

اگر ہم اپنے نعروں میں مخلص ہیں تو ہمیں عملی نمونہ بن کر اپنی نسلوں کی تربیت کا عمل شروع کرنا ہو گا اور یہی انقلاب کا واحد راستہ ہے کہ جس طرح معاشرے لمحوں میں بگڑتے نہیں اسی طرح لمحوں میں بنتے بھی نہیں ہیں۔ یہ صدیوں کا وہ سفر ہے جس کا آغاز تو ایک نسل کرتی ہے لیکن منزل پر کوئی اور نسل پہنچتی ہے اور کامیابی کا تمغہ بہرحال اسی کے سر سجتا ہے جو پہلا قدم اٹھاتا ہے۔

[pullquote]ناصر محمود یونیورسٹی آف لائپزگ جرمنی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں .[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے