قرارداد مقاصد کی بحث

قرارداد مقاصد پر نہ ختم ہونے والی بحث بدستور جاری ہے۔اس قرارداد کی منظوری سے یہ بحث چلی آرہی ہے۔سیکولر طبقات کبھی اس کو مولانا شبیر احمد عثمانی کی سازش قرار دیتے ہیں یا مولانا مودودی کی(Occult Conspiracy) یا پھر ضیاء کی کارستانی کہ انہوں اس کو دستور کے (operational) حصے میں شامل کیا ہے۔یہ وہ اعتراضات ہیں جو باربار ان کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔اسلئے ہم اس میں کوئی اضافہ نہیں کرنا چاہتے فقط کارنیلسن کے چند اقوال کی روشنی میں اس کی "جوہری حثیت” عیاں کرنا مقصود ہے۔تاہم اس قرارداد کے اثبات کا سہل مقدمہ سوالیہ نشان میں مندرجہ ذیل ہے۔

"پاکستان کی آزادی کا مقدمہ مسلم لیگ نے کس "بنیاد”پر لڑا تھا؟اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا، تو جداگانہ ریاست کس مقصد کیلئے حاصل کی گئ؟ کیا یہ مقصد متحدہ ہندوستان میں پورا نہیں ہوسکتاتھا؟اگر جداگانہ ریاست کا مطلب مسلمانان کی شوکت کی تحصیل تھی تو پھر قرارداد مقاصد پر حملے کیوں؟

تاہم قرارداد مقاصد پر پہلا حملہ سریش چندرا چٹوپا دھیا نے کیا تھا۔جوہمارے سیکولر طبقے میں بہت عزیز سمجھے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے سریش چندراکانگرسی تھا اور ان کے مقاصد اس”جداگانہ مسلم ریاست "میں بھی پورا کرنا چاتے تھے۔

اس کا محاکمہ اس وقت بھی سردار عبدالرب نشتر نے کیا تھا لیکن ہمارے یہاں ڈبل سٹینڈر کی وجہ سے اہل مذہب کو ہمیشہ تنگ نظر اور متعصب کے القابات سے نوازا گیا ہے۔اس لئے نشتر صاحب بھی تنگ نظروں کے لسٹ میں آتے ہیں۔بہر کیف سریش چندرا جیسے کم نگاہ کے مقابلے میں پاکستان کے چوتھے جیف جسٹس الوین رابرٹ كارنيليس{جو مذہبا عسائی لیکن پاکستان کے مزاج شناس تھے} کے فرامین کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

۱۱مارچ ۱۹۶۵ء کو ایس ایم لا کالج ،کراچی میں دوسری کُل پاکستان لا کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ان کا ارشاد تھا:
عظیم ’قراردادِ مقاصد‘ بھی ہمارے دستور کا حصہ ہے، جو آزادی عطا ہونے کے فوراً بعد کے زمانے میں، دستورسازی کے دوران بہترین ذہنوں کے اتفاق راے کی نمایندگی کرتی ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ میں پاکستان کے دنیوی معاملات کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ ان کو جمہوری انداز میں طے (conduct) کیا جائے تاکہ اسلام کے احکام کے مطابق مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنایا جاسکے۔ بنیادی حقوق بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ہیں، جو جمہوری انداز میں معاشرتی عدل، رواداری اور انصاف کے لیے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ ایک جج جو دستور کے دیے ہوئے بنیادی حقوق کی تفصیلی وضاحت (expound) کرتا ہے، اس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ان اعلیٰ ذرائع سے تحریک پائے گا، جو ہمیشہ کے لیے قرآنِ مجید کے الفاظ میں ثبت (inscribe) کردیے گئے ہیں۔ اگرچہ عدالتوں میں بنیادی حقوق کے اطلاق سے متعلق مقدمات میں مسائل و معاملات کی ایک بڑی تعداد بھی زیربحث آتی رہتی ہے، تاہم عدالت کبھی کبھار ہی اس سوال پر اس لحاظ سے غور (adress)کرتی ہے کہ اس قانون کو اسلام کے اصولوں کے حوالے سے کس طرح سمجھا جائے؟ میں مستقبل میں وہ دن دیکھتا ہوں جب ایک وکیل اپنے مقدمے کے حقائق بیان کرنے کے بعد عدالت کے سامنے اس طرح اپنا نقطۂ نظر رکھے گا کہ متعلقہ آیاتِ قرآنی کا صورتِ حال پر کس طرح اطلاق کیا جائے۔

پاکستان میں مذہبی شعور کے تحت بنیادی حقوق کا اطلا ق ہونا چاہیے۔ بنیادی حقوق کی وضاحت اور اطلاق اسلام کی اخلاقی اقدار کے مطابق مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے ملکوں میں رائج جمہوری انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں صرف پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں دستور کے تقاضوں کے تحت دنیوی معاملات کو مذہبی شعور کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ (Law and Judiciary in Pakistan اے آر کارنیلیس، تدوین و ادارت: ڈاکٹر ایس ایچ حیدر۔ لاہور لا ٹائمز پبلی کیشنز، لاہور، ص ۶۶۔۶۷)
جسٹس اے آر کارنیلیس نے پاکستان کے دستور کے موضوع پر ڈھاکہ میں کونسل آف نیشنل انٹگریشن کے اجلاس سے ، ۱۵جون ۱۹۶۷ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

دستور کا دیباچہ [’قراردادِ مقاصد‘] یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ اسلام نے جمہوریت، آزادی، رواداری اور معاشرتی انصاف کے جو اصول واضح طور پر بیان کیے ہیں، انھیں مکمل طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔اگر تسلیم شدہ نظام (حکومت) اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی خواہش کو عمل میں نہ لایا جائے تو یہ دستور سے دھوکا ہوگا۔ اس مقصد کو مختصر طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک انسانی معاشرے میں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پورا موقع ملنا چاہیے اور جمہوریت اس طرح کی ہو جہاں مذہب اسلام کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق ’انصاف سب کے لیے برابر‘ کا اصول رائج ہو۔

اس خطبے کا اختتام جسٹس کارنیلیس نے اس طرح کیا:

ہمارا دستور ہر چیز کو ایک واحد متحد (unifing) کرنے والے مرکزی اصول کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ایک ایسا متحد کرنے والا اصول، جس کے تحت ہر معاملے میں ہمہ مقتدر طاقت ہے جس کے سامنے حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے دار سے لے کر ایک عام شہری تک اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کے لیے پلٹے گا۔ ۱۲صدیوں میں اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں روایت اور ثقافت میں جو ارتقا ہوا ہے، اس کے جواز کے لیے دستور اعتماد دیتا ہے۔ اس یقین پر مبنی انسانی نسل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ زمین پر امن کا ایک اخلاقی نظام قائم کیا جائے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام، یعنی مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں کو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اسلام کا اخلاقی نظم و ضبط، انصاف اور سچائی کے بنیادی تصورات پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے امکانات بہت روشن ہیں۔ یہ وہ روح ہے جسے میں دستور کے ضمیر کی حیثیت سے سمجھا ہوں۔ (ایضاً، ص۱۷۲۔۱۷۴)

جسٹس کارنیلیس نے اس سلسلے میں عدالت کے کردار کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کرتے ہوئے ارشاد کیا ہے:

جب کوئی مقننہ، ایسا قانون منظور کرتی ہے جو بنیادی حقوق کی براہِ راست خلاف ورزی کرتا ہے، وہ قانون دستور کی رُو سے غیرمؤثر (void) ہے، اور عدالتیں رٹ (writ) کی حدود پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ (ایضاً، ص۹۴)

اور بات بنیادی حقوق تک محدود نہیں۔ جسٹس کارنیلیس بڑی صراحت اور جرأت سے کہتے ہیں کہ:

لیکن عوام یہ بھی خواہش کرسکتے ہیں کہ عدالتیں، تمام اُمور میں (جو وہ سرانجام دیتی ہیں) قانون کا نفاذ قرآن و سنت کے مطابق کریں جیساکہ دستور میں مطلوب ہے۔ ہرشخص کو یہ سوال درپیش ہے کہ آیا وہ اپنے فرائض مناسب طور پر ادا کر رہا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ہر وکیل کے ذہن میں بھی ہونا چاہیے، جب وہ کسی خاص معاملے پر دلائل دینے کے لیے کھڑا ہو کہ کیا میں یہ کام دستور کے تقاضوں کے مطابق کر رہا ہوں، یا بلاشبہہ اس مقصد کے مطابق کر رہا ہو کہ جس کے لیے ملک قائم کیا گیا تھا؟

اور وہ مقصد کیا ہے؟ ایک خدا ترس اور پاکستان کے وفادار غیرمسلم ماہر قانون کی زبان سے سن لیجیے:

یہ ایک حقیقت ہے کہ فقہا اور فلسفی دونوں فلسفے کے سیاسی یا ریاستی ہیئت کے معاملات میں اعلیٰ ترین سطح پر ان کے نتائج سے کتنے ہی متنبہ کیوں نہ ہوں، شریعت کے حتمی احکامات و اقدامات (جو کچھ وہ کہتے ہیں) کی طرف بار بار پلٹتے ہیں۔ اس کا واضح ہدف یہ ہے کہ ہرشخص کو اپنی زندگی اس طرح گزارنی چاہیے، جس طرح اللہ نے اس کے لیے مقدس کتابوں میں درج کی ہے۔ پوری قوم کو بھی اپنے تمام معاملات میں یہ ہدایت ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں اس دنیا کے ساتھ، بعد کی دنیا میں بھی تحفظ اور سلامتی فراہم ہوجائے گی۔ چنانچہ مجھے یقین ہے کہ ایک مسلم ملک میں زندگی شریعت کے مطابق گزاری جانی چاہیے۔ (ایضاً، ص۳۔۳۸۲)

نوٹ:کتابی حوالہ جات پروفیسر خورشید احمد کے مضمون سے ماخوذ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے