متحدہ کی فتح کے بعد پی ٹی آئی،جےآئی کی حکمت عملی؟

کراچی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 7 اپریل کو ہونے والے کراچی ضمنی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ہاتھوں ہاری ہوئی نشست دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اب نچلی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے نئی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کر رہی ہے.

پی ٹی آئی نے اس مبینہ ‘نئی حکمت عملی’ پر غور کا آغاز اپنے امیدوار کے ‘دھوکے’ کے بعد کیا ہے جو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 254 میں پولنگ سے محض چند گھنٹے قبل ہی ایم کیو ایم کے حق میں دستبردار ہوگیا جبکہ پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی پی ایس 115 میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا.

دوسری جانب جماعت اسلامی بھی ضمنی الیکشن سے باہر ہونے کے بعد ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کھو جانے والے سیاسی گراؤنڈز دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ‘مذہبی بنیادوں’ پر انحصار کر رہی ہے.

کراچی کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کراچی کے رہنما علی زیدی کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں اس نتیجے پر پہنچے ہی کہ حالیہ ضمنی الیکشن ‘کارکنوں کا سروے تھا، جس میں پارٹی کارکنوں نے لوگوں سے زیادہ حصہ لیا’، جس کی وضاحت کم ٹرن آؤٹ سے بھی ہوتی ہے.

پی ٹی آئی کو 7 اپریل کے ضمنی الیکشن میں اُس وقت بڑے سیاسی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب این اے 245 میں اس کے امیدوار امجد اللہ خان آخری لمحات میں ‘انتخابی مہم کے دوران پی ٹی آئی کی بد انتظامی اور مجموعی غفلت’ کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن اس کے باوجود بھی انھیں اس حلقے سے 1489 ووٹ ملے.

3 سال قبل 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی امیدواروں نے یہ ثابت کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ میں بھی ان کا ووٹ بینک موجود ہے، مثال کے طور پر پی ٹی آئی امیدوار ریاض حیدر نے حلقہ این اے 254 سے ایم کیو ایم کے ریحان ہاشمی کے مقابلے میں 50 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے، جنھیں ایک لاکھ ووٹ ملے تھے.

اسی الیکشن کے دوران پی ٹی آئی امیدواروں نے این اے 243، این اے 246، این اے 247 اور این اے 251 سے بالترتیب 30 ہزار، 32 ہزار، 35 ہزار اور39 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے، جنھیں ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا.

اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقوں پی ایس 103، پی ایس 105، پی ایس 116، پی ایس 118، پی ایس 119 اور پی ایس 120 میں بھی پی ٹی آئی امیدواروں نے ایم کیو ایم امیدواروں کے مقابلے میں 20 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے.

تاہم عام انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی مسلسل نیچے کی طرف جارہی ہے اور 3 انتخابات ہار چکی ہے جبکہ پارٹی میں بد انتظامی بھی دیکھنے میں آرہی ہے. 5 دسمبر 2015 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے باوجود شکست کے بعد علی زیدی نے پارٹی سے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا.

پی ٹی آئی-جماعت اسلامی اتحاد کے نتیجے میں 205 میں سے صرف 4 سیٹوں پر کامیابی ملی، جس کے بعد رواں برس جنوری میں پی ٹی آئی نے تمام پارٹی عہدے تحلیل کرکے اس سال جون میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا اعلان کیا.

تجزیہ نگاروں کے خیال میں لوکل باڈی الیکشن کے دوران پی ٹی آئی-جماعت اسلامی اتحاد نے پانی، سیوریج اور بجلی جیسے بڑے مسائل کے حال کے بجائے ایم کیو ایم پر تنقید کا رویہ اپنایا.

علی زیدی کے مطابق، ‘ان شکستوں کی وجہ مرکزی قیادت کا کراچی میں موجود نہ ہونا ہے’، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پارٹی قیادت کو کہا ہے کہ انھیں کراچی پر دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.

ان کا کہنا تھا، ‘ہم الیکشن کے دوران بیٹھیں گے نہیں، ہم ہم الیکشن لڑیں گے چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو’.

انھوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کردیا کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی سے اتحاد کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی، علی زیدی کا کہناتھا ‘حالیہ الیکشن میں جماعت اسلامی نہیں تھی، اس کے باوجود بھی ہم گذشتہ حاصل کیے گئے ووٹوں کا 10 فیصد بھی حاصل نہ کرسکے’.

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ، ‘ان کا خیال ہے کہ ہمارے ووٹرز انتخابی عمل پر سے اعتماد کھو بیٹھے ہیں’.

علی زیدی نے بتایا، ‘ایم کیو ایم کو دھچکا دینے کے بعد ہم نے فالو اپ نہیں کیا اور مقامی سطح پر اجلاس وغیرہ منعقد نہیں کیے، لیکن اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم ایک ایسی پارٹی کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں جو کئی دہائیوں سے اس شہرکا حصہ ہے’.

جماعت اسلامی مستقبل کی حمکت عملی کے بارے میں تذبذب کا شکار
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے مطابق پارٹی کو ‘مذہبی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو کئی دہائیوں سے ہماری خصوصیت رہی ہے’.

ایک پارٹی کارکن کے مطابق جماعت اسلامی کے اندر بھی ایک بحث جاری ہے، ان کا کہنا تھا، ‘بہت سے کارکنوں اور طلبہ رہنماؤں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا پارٹی کو انتخابی سیاست کرنے یا عسکریت پسندی کی طرف جھکاؤ کی ضروت ہے.’

انھوں نے مزید بتایا کہ یہ سوچ مقامی الیکشن میں جماعت اسلامی کی شکست کے بعد پیدا ہوئی ہے.

واضح رہے کہ حافظ نعیم کو یونین کونسل 18 میں ایم کیو ایم رکن مظہر حسین کے مقابلے میں 72 ووٹوں سے شکست ہوئی.

اس سے قبل اور حالیہ شکستوں کے بعد جماعت اسلامی نے ضمنی الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے ووٹر لسٹوں پر کچھ تحفظات تھے.

جماعت اسلامی اس وقت ان حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے.

ایک تو انتخابی نطام پر جو کہ ناقص ووٹر لسٹ پر چل رہا ہے.

دوسرا، جماعت اسلامی کے امیدواروں کی جانب سے جیتی گئی اور ہاری ہوئی نشستوں میں ووٹوں کی تعداد کا واضح فرق.

یاد رہے کہ جماعت اسلامی نے 2013 کے عام انتخابات میں دن ساڑھے 12 بجے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا لیکن جماعت اسلامی سندھ کے امیر معراج الہدیٰ صدیقی کے مطابق انھوں نے این اے 245 سے 24 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے. انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس مرتبہ ضمنی الکیشن میں حصہ نہیں لیا کیوں کہ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اپنی نئی حکمت عمل کے لیے کچھ وقت چاہیے’.

اس حوالے سے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے پروفیسر جعفر احمد کا کہنا تھا، ‘جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اس سے قبل ایک عقلمند اور اعتدال پسند رہنما کے طور پر ابھرے تھے جنھوں نے اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے مظاہرین کا بھی ساتھ دیا. لیکن اب جماعت اسلامی میں اعتدال پسند عناصر کی کمی اور انتخابی شکستوں کے بعد اس کے کارکنوں میں عسکریت پسند نظریات دوبارہ سے جنم لے رہے ہیں.’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے