قیام پاکستان کے حوالے سےدیوبند کے دو جید علماء کے درمیان مکالمہ

تحریک پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کی دو بزرگ عالم شخصیات بہت نمایاں ہوئی تھیں جن میں سے ایک مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے۔ اتفاق سے دونوں

حضرات دارالعلوم دیو بند کے ممتاز اساتذہ بھی تھے۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں اس دور کی معروف مذہبی تنظیم ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کے دو ٹکڑے ہوئے جن میں سے اول الذکر کی قیادت حسب دستور مولانا حسین احمد مدنی ؒکے پاس رہی جب کہ دوسرے گروپ ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کی قیادت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے کی۔ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے معاملے پر ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ نے قائد اعظم کا ساتھ دینے کے بجائے کانگریس اور گاندھی کا ساتھ دیا جب کہ جمعیت ’’علمائے اسلام‘‘ نے کانگریس کے بجائے قائداعظم اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒمرحوم قائداعظم کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار کیے گئے۔ پاکستان کے معاملے میں مولانا کا ساتھ دینے والے دیگر علما میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒاور مفتی محمد شفیع ؒجیسی جیّد ہستیاں بھی تھیں۔

تقسیم ہند سے قبل یکم محرم 1365ھ (دسمبر 1945ئ) میں دارالعلوم دیو بند میں دونوں جیّد ہستیوں کے درمیان پاک وہند کے موضوع پر ایک تفصیلی مکالمہ ہوا جس میں مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور ان کے رفقا نے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒسے ’’پاکستان کی حمایت کیوں‘‘ پر کئی سوالات کیے۔

تحریک پاکستان کا یہ ایک نادر دلچسپ اور اہم باب ہے جو شاید اس سے قبل اس طرح منظر عام پر نہیں آیا تھا۔
کتابچے کا نام ’’مکالمتہُ الصّدرین‘‘ ہے جسے آل انڈیا جمعیت العلمائے اسلام کے رکن مولانا طاہر احمد قاسمی نے دیوبند سے شائع کروایا تھا۔ اُردو ڈائجسٹ کے لیے اس کے مندرجات کو کراچی سے جناب رضی الدین سید نے روانہ کیا ہے۔
گفت و شنید کی ابتداء کیسے ہوئی؟

یکم دسمبر 1945ء کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارری ناظم اعلیٰ جمعیۃ العلماء ہند دہلی اپنی کسی ضرورت سے دیو بند تشریف لائے تھے۔ اس وقت وہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے دولت کدہ پر بھی بغرض عیادت و مزاج پرسی حاضر ہوئے۔ دوران مزاجی پرسی، مولانا حفظ الرحمن نے علامہ عثمانی سے فرمایا کہ ہمیں آپ سے حالات حاضرہ پر کچھ نیاز مندانہ گزارشات کرنی ہیں۔ مسئلہ پر شرعی حیثیت سے تو ہم آپ سے کیا گفتگو کرتے۔ یہ درجہ تو ہمارا نہیں، البتہ کچھ واقعات ایسے بیان کرنے ہیں جن کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ آپ کے علم میں نہ آئے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان واقعات کو سن کر حضرت والا کی جو رائے قائم شدہ ہے اس میں تغیر ہو جائے۔

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں گفتگو کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ جب دل چاہے تشریف لائیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ اس گفتگو میں میرے ساتھ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی (ناظم ندوۃ المصنفین دہلی، برادر زادہ علامہ عثمانی) اور کوئی تیسرے صاحب جو مناسب ہوں شریک ہوں گے۔ اس کے بعد 5دسمبر 1945ء کو مولانا حفظ الرحمن کا دہلی سے ایک خط بذریعہ ڈاک بنام علامہ عثمانی موصول ہوا جو بجنسہ درج ذیل ہے۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم o
ازندوۃ المصنفین دہلی
27ذی الحجہ 1364ھ (1941ئ)
ذوالمجد و الکرم استاذ یددام اللہ فیوضکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، مزاج اقدس۔

کل دیو بند سے نو بجے صبح چل کر دہلی پہنچ گیا، حضرت مولانا حسین احمد سے شب میں گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جمعیت العلمائے ہند کی ایک خصوصی مشاورت جمعرات کے روز دیوبند بلانا چاہتے ہیں تاکہ جمعیت العلمائے اسلام سے متعلق بعض اہم معاملات پر گفتگو ہو سکے۔ اس مشاورت میں غالباً حضرت مفتی صاحب (مولانا کفایت اللہ صاحب، رسالے: تعلیم الاسلام چھ حصوں کے مصنف،سیّد )اور مولانا احمد سعید بھی شرکت کریں گے۔

میں نے اپنے اس معروضہ کے پیش نظر جو حضرت والا میں حاضر ہو کر پیش کیا تھا اب یہ مناسب سمجھا کہ مولانا مفتی عتیق الرحمن اور میں جمعرات کو شب میں پہنچیں اور جمعہ کے دن گزارشات پیش کریں۔ اب میری یہ بھی سعی ہو گی کہ اکابر جمعیۃ العلما بھی اس گفتگو میں حصہ لیں، تو اکابر علمائے دیو بند کے سیاسی افکار کی یکجہتی میں ان شاء اللہ بہت مدد ملے گی۔ اگر میری گزارشات منظور ہو گئیں، تو جمعہ کے دن آٹھ بجے یہ گفتگو آپ ہی کے دولت کدہ پر ہو جائے،تو بہت بہتر۔ باقی اپنی مشاورت تو شب میں اور باقی دوسرے وقت بھی ہو سکتی ہے۔
خادم محمد حفظ الرحمن کان اللہ لہ
27ذی الحجہ 1364ھ

اس پروگرام کے بموجب 7دسمبر 1945ء یوم جمعہ کو ساڑھے آٹھ بجے حضرت مولانا حسین احمد (صدر جمعیتہ العلمائے ہند)، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ(سابق صدر جمعیتہ العلمائے ہند)، حضرت مولانا احمدسعید (سابق ناظم اعلیٰ جمعیتہ العلمائے ہند)، مولانا حفظ الرحمن (حال ناظم اعلیٰ جمعیتہ العلمائے ہند)، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا عبدالحنان، مولانا مفتی عتیق الرحمن، علامہ عثمانی کے دولت کدہ پر تشریف لائے۔ علامہ عثمانی نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ان حضرات سے ملے۔ کچھ دیر مزاج پرسی ہوتی رہی، عیادت کے بعد چند منٹ مجلس پر سکوت طاری رہا۔ یہ خاموشی غالباً اس لیے تھی کہ کون ابتداکرے اور کس نوعیت سے مسئلہ پر گفتگو کا آغاز ہو۔
چونکہ علامہ عثمانی کو ابتدا کرنا مقصود نہ تھا اور یہ حضرات خود تشریف لائے تھے۔ اس لیے علامہ عثمانی بھی خاموش رہے۔ آخر مولانا حفظ الرحمن نے مسائل حاضرہ پر گفتگو کا آغاز کیا اور ایک طویل تقریر فرمائی جو تقریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ علامہ عثمانی برابر اس تقریر کو بغور سنتے رہے۔ جب وہ تقریر فرما چکے، تو علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مجھے پورے الفاظ اور اجزا تو آپ کی لمبی چوڑی گفتگو سے محفوظ نہیں رہے جو تخلیص میرے ذہن میں آئی ہے اس کے جوابات بلالحاظ ترتیب عرض کروں گا۔ اگر کوئی ضروری بات رہ جائے، توآپ یاد دلا کر اس کا جواب مجھ سے لے سکتے ہیں۔

اس گفت و شنید کا سلسلہ سوا تین گھنٹا مسلسل جاری رہا اس مکالمہ میںسب سے زیادہ حصہ مولانا حفظ الرحمن لیتے رہے اور دوسرے درجے میں مولانا احمدسعید ان کے شریک رہے۔ کبھی کبھی کوئی اور صاحب بھی کچھ بول پڑتے تھے لیکن حضرت مفتی کفایت اللہ نے جو مزاج پرسی کے بعد سکوت اختیار فرمایا وہ اختتامِ مجلس تک ختم نہیں ہوا۔ کسی موقع پر بھی ایک حرف نہیں بولے۔

علامہ عثمانی کو اس طویل سکوت پر خود حیرت تھی۔ وہ بحث میں تو کیا حصہ لیتے اشارۃً کنایتہ بھی کسی موضوع پر اثباتاً نفیاً کسی طرح کا اظہار نہیں فرمایا۔ آخر مجلس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کچھ بولے جو تقریباً پندرہ منٹ سے زیادہ نہ تھا۔

مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ
مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ کلکتہ میں ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ حکومت کی مالی امداد اور اس کے ایماسے قائم ہوئی ہے۔ مولانا آزاد سبحانی ’’جمعیتہ العلمائے اسلام‘‘ کے سلسلہ میںدہلی آئے اور حکیم دلبر حسن کے ہاں قیام کیا جن کی نسبت عام طور پر لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ سرکاری آدمی ہیں۔ مولانا آزاد سبحانی(سیّد) نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم جمعیتہ العلمائے ہند کے اقتدار کو توڑنے کے لیے علماء کی ایک جمعیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ گفتگو کے بعد طے ہوا کہ گورنمنٹ ان کو کافی امداد اس مقصد کے لیے دے گی۔ چنانچہ ایک بیش قرار رقم اس کے لیے

منظور کر لی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سبحانی کے حوالہ بھی کر دی گئی۔ اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا گیا۔ مولوی حفظ الرحمن نے کہا کہ یہ اس قدر یقینی روایت ہے کہ اگر آپ اطمینان فرمانا چاہیں، تو ہم اطمینان کرا سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا آزاد سبحانی نے اس کے بعد کلکتہ میں جلسہ کیا۔ جلسہ میں انھوں نے جو کچھ بکواس کی وہ آپ کے علم میں ہے۔ ان کی تلون مزاجی بھی سب کو معلوم ہے۔ ایک زمانہ میں وہ گاندھی کے ساتھ سایہ کی طرح رہتے تھے۔ پھر کچھ دنوں بعد ان کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال اس مسلمان افسر کا تبادلہ ہو گیا اور ایک ہندو اس کی

جگہ آ گیا۔ جس نے گورنمنٹ کو ایک نوٹ لکھا۔ جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف ہونا بالکل بے سود ہے۔ اس پر آیندہ کے لیے امداد بند ہو گئی۔ اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمن نے کہا کہ مولانا الیاس ؒ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمدکچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہو گیا۔ اس کے بعد مولوی حفظ الرحمن نے پاکستان کی صورت میں جو نقصانات ان کے نزدیک تھے، وہ ذرا بسیط کے ساتھ بیان کیے اور دکھایا کہ مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان سراسر مضر تھا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ نے کلام اس قدر طویل کر دیا ہے کہ نمبر وار ہر ایک چیز کا جواب دینا مشکل ہے۔ میں جو کچھ یاد رکھ سکا ہوں ان کے جوابات دوں گا۔ اگر کسی چیز کو بھول جائوں، تو آپ مجھے یاد دلا کر اس کا جواب لے لیں۔

علامہ عثمانی کا جواب
پہلے میں اس معاملے کی نسبت گفتگو کرتا ہوں جو روایت آپ نے بیان کی، میں نہ اس کی تصدیق کرتا

علامہ شبیر احمد عثمانی
علامہ شبیر احمد عثمانی

ہوں نہ تکذیب۔ ممکن ہے کہ آپ صحیح کہتے ہوں۔ مجھے اس سے پہلے بذریعہ ایک گمنام خط کے جو دہلی سے ڈالا گیا تھا۔ یہی بتلایا گیا تھا اور مجھے بھی اس خط میں دھمکی دی گئی تھی یہ روایت صحیح ہو یا غلط۔ بہرحال میرے علم میں آچکی ہے۔ لیکن اس روایت سے مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور میری رائے کیا متاثر ہو سکتی ہے۔ میں نے جو رائے پاکستان کے متعلق قائم کی ہے وہ بالکل خلوص پر مبنی ہے۔

’’جمعیتہ العلمائے اسلام‘‘ میں آزاد سبحانی رہیں یا نہ رہیں جمعیتہ العلمائے اسلام خود قائم رہے نہ رہے، میری رائے جب بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان مفید ہے۔ اگر میںتھوڑی دیر کے لیے اس روایت کو تسلیم بھی کر لوں کہ جمعیت العلمائے اسلام گورنمنٹ کے ایما سے قائم ہوئی ہے، تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی ابتدا کس نے کی تھی اور کس طرح ہوئی تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ابتداً اس کا قیام ایک وائسرائے کے اشارہ پر ہوا (اور برسوں وہ گورنمنٹ کی وفاداری کے راگ الاپتی رہی ہے، مرتب) بہت سی چیزوں کی ابتدا غلط ہوتی ہے مگر انجام میں

بسااوقات وہی چیز سنبھل جایا کرتی ہے۔ ہم نے مولانا آزاد سبحانی یا جمعیت العلمائے اسلام کی وجہ سے مسلم لیگ کی تائید نہیں بلکہ دیانتاً یہ رائے قائم کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مرکز اور ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے اور علمائے ملت کو اس کی پشت پناہی اور اصلاح میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو، تو اسی قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلم بزرگ اور پیشوا تھے ان کے متعلق لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ان کو چھ

سو روپے ماہوار حکومت کی طرف سے دیے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ گو مولانا تھانوی ؒ کو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے۔ مگر حکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کو اس کا شبہ بھی نہ گزرتا تھا۔ اب اسی طرح اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اس کو یہ علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جارہا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ شرعاً اس میں ماخوذ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان مولوی عتیق الرحمن سے آپ پوچھیے کہ معاملات دارالعلوم کے سلسلہ دیو بند کے بعض پارٹی باز اشخاص نے

ان کے سامنے نہایت قطعی الفاظ میں کیا یہ نہیں کہا تھا کہ وائسرائے کے دفتر میں ہم اپنی آنکھوں سے وہ چٹھی دیکھ کر آئے ہیں جس کے ذریعہ مولانا مدنی کو شبیر احمد عثمانی نے گرفتار کرایا ہے ( فَلَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ)لیکن میں پوچھتا ہوں کیا اس میں ذرا بھی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ اس پر مولوی عتیق الرحمن نے آنکھیں نیچی کر لیں اور خاموش ہو رہے۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ حضرات کے متعلق بھی عام طور پر مشہور کیا جاتا ہے کہ آپ ہندوئوں سے روپیہ لے کر کھا رہے ہیں کیا یہ صحیح چیزیں ہیں۔ اب ہمیں ان سب قصوں سے بالکل علیحدہ رہ کر غور کرنا چاہیے کہ کون سا راستہ اختیار کرنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے اور کس راستے میںان کا نقصان (قطع نظر اس سے کہ وہ بات انگریز کے ایجنٹ کی زبان سے نکلے یا کوئی ہندو کادلال کہے۔ مرتب)
لہٰذا اب میں مزید گفتگو سے پہلے تین چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہوں؟
گفتگو کا محور
پہلی چیز دریافت طلب یہ ہے کہ جو فارمولا جمعیۃ العلمائے ہند نے پاکستان کا نعم البدل ظاہر کر کے ملک کے سامنے پیش کیا اور جس کا حوالہ مولانا حفظ الرحمن نے اپنی تقریر میں بھی دیا ہے اس فارمولا کو آپ حضرات نے کم از کم کانگریس سے منوا لیا ہے یا نہیں؟
مولانا حفظ الرحمن نے اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کچھ اعذار بیان کیے۔ علامہ عثمانی کو چونکہ ان اعذار سے کچھ بحث نہیں تھی اس لیے فرمایا کہ اعذار کچھ بھی ہوں میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا فارمولا کانگریس نے تسلیم کر لیا ہے یا نہیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ ہمارا یہ اصول نہیں ہے کہ ہم جنگ آزادی کی شرط کے طور پر ہندوئوں سے کوئی چیز منوا لیں۔
دوسری بات یہ کرنی ہے کہ آپ جو کچھ گفتگو اس وقت مجھ سے فرمانا چاہتے ہیں وہ کس تقدیر پر ہے۔ آیا یہ فرض کرتے ہوئے کہ انگریز حکومت ہندوستان سے چلی گئی ہے یا جارہی ہے۔ یا یہ مان کر ابھی وہ موجود ہے اور سردست جا نہیں رہی۔ گویا جو کچھ لینا ہے اسی سے لینا ہے۔
مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ انگریز حکومت ابھی ہندوستان میں موجود ہے۔ اس کی موجودگی تسلیم کرتے ہوئے جو کچھ لینا ہے اسی سے لینا ہو گا۔
تیسری بات دریافت طلب یہ ہے کہ آپ حضرات جو انقلاب اس وقت چاہتے ہیں وہ فوجی انقلاب ہے یا آئینی؟ اس کا جواب دیا گیا کہ فوجی انقلاب کا تو اس وقت کوئی موقع ہی نہیں نہ فی الحال اس کا امکان ہے نہ اس کے وسائل مہیا ہیں۔ اس وقت تو آئینی انقلاب ہی زیر بحث ہے۔
علامہ عثمانی نے فرمایا کہ بس اب بحث کا رخ متعین ہو گیا۔ اب کلام اس پر رہے گا کہ سردست انگریزی حکومت کی موجودگی کے باوجود آئینی انقلاب میں کون سا راستہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ آیا وہ راستہ جو جمعیتہ العلمائے ہند نے تجویز کیا ہے یا پاکستان کا راستہ جو مسلم لیگ اختیار کر رہی ہے۔
پاکستان کے نقصانات کا اظہار
مولانا حفظ الرحمن نے اپنی طویل تقریر میں فرمایا کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت 53فیصد ہے فلاں صوبے میں اس قدر، فلاں میں اتنی اور آسام میں اکثریت دوسروں کی ہے۔ ہر جگہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں غیر مسلم اقلیت اتنی زبردست ہے کہ مسلمان اس سے کسی طرح بھی عہدہ برآنہ ہو سکیں گے اور بہت ہی تھوڑی اکثریت کچھ نہ کر سکے گی۔ بلکہ ہمیشہ معرض خطر میں رہے گی۔ ادھر مسٹر جناح یہ کہہ ہی چکے ہیں پاکستان میں جمہوری طرز کی حکومت ہو گی۔ ایسی مشکل میں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان سے کوئی بھی فائدہ نہ ہو گا۔ بلکہ تنظیم، دولت اور تعلیم میں پست ہونے کی وجہ سے 53فی صد مسلمانوں کی اکثریت 47فی صد غیر اقلیت ہی کے عملاً تابع و محکوم رہے گی۔ سکھ نہایت جنگجو قوم ہے وہ کسی طرح بھی پاکستان قائم نہ رہنے دے گی۔ ادھر جاٹوں کی قوم ہے وہ بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دے گی۔
اس موقع پر علامہ عثمانی نے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ کرنے والے صوبہ وار چھے پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یا تمام مسلم اکثریت والے صوبوں کا ایک پاکستان مطلوب ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں پاکستان تو ایک ہی بنانا چاہتے ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا تب صوبہ جاتی اعداد کی گفتگو اس موقع پر بے کار ہے۔ مولانا عثمانی نے فرمایا کہ اس وقت ہم کو پاکستان کی مرکزی حکومت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلم اور غیر مسلم آبادی میں کیا تناسب ہے۔ مولانا حفظ الرحمن کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان میں مجموعی تعداد مسلمانوں کی چھ کروڑ ہو گی اور غیر

مسلم تین کروڑ ہوں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ تعداد غلط ہے۔ مجموعہ میں مسلمان تقریباً سوا سات کروڑ ہیں۔ لیکن ہم سات کروڑ تسلیم کیے لیتے ہیں اور غیر مسلم جو تین کروڑ سے کم ہیں ان کو پورے تین کروڑ کر لیا جائے۔ اس تعداد سے سات اور تین کی نسبت مسلم و غیر مسلم کے درمیان ہو گی اور مجموعی آبادی میں آپ کے فرمانے کے مطابق ساٹھ اور چالیس کی نسبت ہو گی یعنی مسلمان ساٹھ فی صد اور غیر مسلم چالیس فی صد ہوں گے۔ (حالانکہ اس صورت میں مجموعہ مسلمان ستر فی صد اور غیر مسلم تیس فیصد ہوتے ہیں)

حضرت علامہ کا مسکت اور حقیقت افروزجواب
مگر علامہ عثمانی نے اس وقت بھی اغماض کر کے اور ان کے ہی بیان کردہ تناسب کو صحیح بیان کردہ تناسب کو صحیح مان کر اس پر کلام فرمایا،آپ نے کہا کہ اب آپ اپنے فارمولا پر نظر ڈالیے کہ اس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا مرکزی حکومت میں کیا تناسب رہتا ہے؟ تو آپ کے فارمولے کی رو سے مرکز میں چالیس مسلمان ہوں گے اور چالیس ہندو اور بیس فی صد میں دیگر اقلیتیں ہوں گی۔ اس طرح سے آپ کے فارمولا کے لحاظ سے غیر مسلموں کی تعداد ساٹھ فیصد اور مسلمانوں کی تعداد چالیس فی صد ہوئی اور مسلم لیگ کے پاکستانی فارمولا میں (بقول آپ کے یہی نسبت علی العکس ہوگی) یعنی ساٹھ فی صدمسلمان اور چالیس فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ حالانکہ حقیقی تناسب پاکستانی فارمولا میں ستر فیصد کا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ آپ کے اس فارمولا سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ (ہم اگر ساٹھ فیصد رہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے، تو چالیس فی صد میں کیا کر سکیں گے۔)

نوٹ: جمعیتہ العلما کے فارمولا میں بھی مندرج ہے کہ خالص اسلامی مسائل میں دو تہائی مسلمان اگر کسی چیز کے مخالف ہوں گے، تو وہ چیز مسلمانوں کے لیے قبول نہیں کی جائے گی۔ اس شرط سے کسی درجہ میں مضر امور کا تدارک ہو سکتا ہے۔ لیکن باقی مسلمانوں کے حق میں جو ضروری یا مفید امور ہوں ان کے خاطر خواہ حاصل ہونے کی کوئی تدبیر نہیں کیوں کہ مرکز میں مسلم تعداد چالیس اور غیر مسلم تعداد ساٹھ فیصد ہو گی۔ ایسی تمام تجاویز غیر مسلم اکثریت کے رحم و کرم پر رہیں گی اور یہ معاملہ بھی کہ خالص اسلامی مسئلہ کون سا ہے۔ (اکثریت ہی فیصلہ کرے گی)

پاکستان ہندوئوں کے مفاد میں ہے، تو وہ اس کے مخالف کیوں ہیں؟

اس موقع پر کہا گیا کہ عیسائی ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب پاکستان کا فارمولا سامنے آتا ہے، تو عیسائی مسلمانوں سے علیحدہ غیر مسلم بلاک میں شمار کیے جاتے ہیں اور جب جمعیتہ العلمائے ہند کا (مقدس) فارمولا پیش کیا جاتا ہے، تو وہی عیسائی گویا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف شمار کیے جاتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ غیر مسلم سب کے سب بہرصورت ایک ہی شمار ہوں گے۔ (الکفر ملتہ واحدۃ) اور خالص مسلمانوں کو ان سب کے مقابل رکھ کر مسئلہ پر غور کرنا چاہیے۔ وفد جمعیۃ العلمائے ہند نے آخر کار اس کو تسلیم کر لیا۔

اگر پاکستان ہندو کے لیے مفید ہے، تو وہ اس کی مخالفت کے لیے اس قدر مضطرب کیوں ہے؟

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ پاکستان قائم ہونے میں سراسر مسلمانوں کا نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے۔ اگر تسلیم کر لیا جائے، تو کیا آپ باور کر سکتے ہیں کہ ہندو پاکستان کی مخالفت محض اس لیے کر رہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان ہے اور وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کا نقصان دیکھنے کو تیار نہیں۔ ان کا تو اعلان یہ ہے کہ جو جماعت یا جو شخص بھی پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف کھڑا ہو گا کانگریس اس کی ہر طرح امداد کرے گی۔ (اس وعدہ کا تعلق کسی شخص خاص سے نہیں، کانگریس کے پورے ادارے سے ہے) اور ان کا قول ہے کہ پاکستان

ہماری لاشوں پر ہی بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔آخر یہ پرزور اور انتہائی مخالفت کیوں ہے؟ اس کے جواب میںمولانا حفظ الرحمن نے فرمایا ان کی کوئی مصلحت ہو گی۔ لیکن اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔ اور بار بار اس پہلو سے گریز کیا جاتا رہا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس کی جو کچھ بھی مصلحت ہو آخر آپ حضرات نے بھی کچھ غور کیا کہ وہ مصلحت کیاہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک تو اس کی مخالفت کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ انگریز کی حکومت تو سردست اوپر قائم ہے جسے آپ خود شروع میں تسلیم کر چکے ہیں۔ ہندو یہ چاہتا ہے کہ انگریزی حکومت
کے زیرسایہ دس کروڑ مسلمانوں میں سے ایک شخص کی گردن پر سے بھی ہندو اکثریت کا جوا کبھی اور کہیں اترنے نہ پائے۔ اور اس طرح مسلمان ہمیشہ انگریز اور ہندو کی ڈبل غلامی میں بااختیار خود پستے رہیں۔ علامہ عثمانی نے کئی بار اس چیز کو ان لوگوں سے پوچھا مگر ادھر سے کوئی شافی جواب ہاتھ نہ آیا۔ اس کے بعد جمعیتہ العلمائے ہند کے وفد کی طرف سے کہا گیا کہ اچھا اگر پاکستان بن جائے، تو تین کروڑ کی مسلم اقلیت ہندو صوبوں میں رہے گی۔ اس کی حفاظت کا کیا انتظام ہوگا؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ ان کے لیے معاہدات کے ماتحت مسلم اقلیت ان کے ہاں اور ہندو اقلیت ہمارے یہاں رہے گی اور ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے تلے دبا رہے گا۔ آخر اکھنڈ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمانوں کی حفاظت کس طرح ہو گی۔ اس کے بعد مولانا حفظ الرحمن اور مولانا احمد سعید نے موضع گفتگو بدل کر کہا۔

’’اجی حضرت یہ علی گڑھ کے نیچری علما کے وقار کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ اگر مسلمانوں کے راہنما بن گئے، تو دین کو

برباد کردیں گے۔ علما کو مٹا دیں گے۔ اسی سلسلہ میں اِن بدتمیزیوں کا بھی ذکر کیا گیا جو بعض مقامات میں مولانا حسین احمد کے ساتھ کی گئی تھیں۔ اسی سلسلہ میں بھی کہا کہ مسلم لیگ راجائوں، نوابوں، خطاب یافتہ لوگوں کی جماعت ہے۔ سرفیروز خان نون کے متعلق فرمایا کہ وہ حکومت کے اشارے سے مستعفی ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں اور وہ کھلے طور پر سرکاری آدمی ہیں۔‘‘

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ سر فیروز خان نون کے متعلق میں بحث نہیں کرتا۔ آپ جو چاہیں کہیں لیکن مسٹر جناح کے متعلق کبھی میرا یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ وہ سرکاری آدمی ہیں یا وہ کسی دبائو یا لالچ میں آ سکتے یا کسی قیمت پر خریدے جا سکتے ہیں۔

مولانا سعید احمد کے اس کہنے پر کہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور دوسرے بعض فرقے علما کا اقتدار مٹانا اور دین کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا یہ جو مشکلات ہوئیں ان کا حل آپ کے ذہن میں کیا ہے؟ کچھ آپ بھی تو فرمائیے! اس پرسب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اور کچھ دیر خاموشی سی طاری ہو گئی۔ پھر وفد کی طرف سے کہا گیا کہ حضرت آپ ہی فرمائیں کیا حل ہے؟ حضرت علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ خوب رہی مشکلات تو بیان فرمائیں آپ اور حل بتائوں میں؟ آخر آپ نے بھی تو کچھ اس کا حل سوچا ہوگا؟

علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اچھا لیجیے میں ہی اس کا حل عرض کرتا ہوں میرے نزدیک اس کا حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ سب حضرات مل کر مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ کریں۔ ایک دو مہینے دورہ کر کے تین چار لاکھ آنے والے ممبر مسلم لیگ کے بھرتی کرائیں۔ جب ہمارے ہم خیال ممبران کی اتنی بھاری تعدادمسلم لیگ میں شامل ہو جائے گی، تو پھر ہم عوام کےذریعے جو مفید صورت مسلمانوں کے لیے ہو گی باآسانی بروئے کار لا سکیں گے۔ کیا ہمارا اثر عوام پر اتنا بھی نہیں کہ ہم دو چار لاکھ ممبران بھرتی کرا سکیں۔ میں اِس کے لیے تیار ہوں کہ آپ حضرات کے ساتھ مل کر اس کام میں حصہ لوں۔ میرے نزدیک تواصلاح کی یہی بہترین شکل ہے۔ اس پر مولانا احمد سعید نے فرما یا کہ یہ تو صحیح ہے لیکن جب ہم لوگ ایسا کریں گے، تو یہ راجے، مہاراجے، نواب اور سر، مسلم لیگ سے علیحدہ ہوکر دوسری جماعت بنا لیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اگر وہ نئی مسلم لیگ بنا لیں گے، تواس سے کیا ہو گا۔ عوام کی طاقت تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ سر شفیع مرحوم نے بھی تو ایک زمانے میں شفیع لیگ بنائی تھی لیکن اس کا حشر کیا ہوا۔ جب شفیع صاحب رحلت کر گئے،توان کے ساتھ ہی ان کی لیگ بھی ختم ہو گئی اور رابطہ عوام وہ کبھی پیدا نہ کر سکے۔

رہا ان بدتمیزیوں کا قصہ جو آپ کے ساتھ ہوئیں۔ اس کے متعلق آپ کو معلوم ہے کہ میںنے جو پیغام جمعیت العلما اسلام کے اجلاس کلکتہ کے موقع پر بھیجا تھا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ پرلے درجے کی شقاوت و حماقت ہے کہ قائد اعظم کو کافر اعظم کہا جائے یا مولانا حسین احمد وغیرہ کے ساتھ کوئی ناشائستہ سلوک کیا جائے۔

اس موقع پر مجھے ایک بات کہنی پڑتی ہے وہ یہ کہ جن انگریزی خواں طلبا کے رویہ کی آپ شکایت فرما رہے ہیں وہ نہ تو آپ کے مرید ہیں نہ شاگرد۔ نہ انھوں نے کسی دینی ماحول میں تربیت پائی ہے۔ (اور سمجھتے یہ ہیں کہ آپ مسلم قوم کو ہندوئوں کی دائمی غلامی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں)، اس کے بالمقابل جو عربی مدارس کے طلبا آپ کے شاگرد آپ کے مرید اور دینی ماحول بلکہ مرکز دین و اخلاق میں تربیت پانے والے ہیں۔ ذرا ادھر بھی تو دیکھیے کہ انھوں نے اس کا بھی کوئی تدارک کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے تمام مدرسین، مہتمم اور مفتی سمیت (باستثنا
ایک دو کے) بالواسطہ یا بلا واسطہ مجھ سے نسبت تلمذ رکھتے تھے۔ دارالعلوم کے طلبا نے میرے قتل تک کے حلف اٹھائے اور وہ، وہ فحش اور گندے مضامین میرے دروازے میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جاتی، توہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ملامت کا کوئی جملہ کہا۔ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان کمینہ حرکات پر خوش ہوتے تھے۔ ’’حریت‘‘ اخبار دہلی آج کل میری ذاتیات پر نہایت رکیک مضامین لکھ رہا ہے کیا آپ حضرات میں سے کسی نے اس پر بیزاری کا اظہار کیا؟ اس پر سب کی آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ مولانا سعید نے اتنا فرمایا کہ اجی حضرت عزیز حسن بقائی تو ہمیشہ اسی قسم کی بے ہودہ بکواس کیا کرتا ہے کیا آپ کو معلوم نہیں؟ علامہ عثمانی نے فرمایا اس وقت تو وہ آپ کی حمایت اور ہمنوائی میں سب کچھ کہہ رہا ہے۔ گو مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک زمانہ میں اس نے آپ صاحبان کو بھی بری طرح مجروح کیا تھا۔ لیکن دکھلانا صرف یہ ہے کہ آپ حضرات نے کبھی اس قسم کی چیزوں سے جو ہمارے متعلق کہی گئیں اظہار بیزاری نہیں کیا نہ کسی پر ملامت کی۔ ہم نے تو یہ کیا کہ موقع ملنے پر ایسے امور سے پوری قوت کے ساتھ اظہار بیزاری کرتے رہے۔
محلہ کسرول مراد آباد کے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا حسین احمد اور مفتی کفایت اللہ آپ کے نزدیک محض ذاتی مفاد کے لیے ہندوئوں کا ساتھ دے رہے ہیں یا ان کا اجتماع بے دینی اور کفر ہے، یا وہ اپنے استاد کے مسلک سے ہٹ گئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے حاشیہ خیال ہی میں یہ نہیں آ سکتا کہ یہ حضرات کسی ذاتی مفاد کے لیے ایسا کریں گے۔ وہ اپنے نزدیک جو حق سمجھتے ہیں کر رہے ہیں اور اسی کو اپنے استاد کا مسلک سمجھتے ہیں۔ باقی یہ لازم نہیں کہ جو ان کا خیال ہے وہ واقعی میں صحیح ہو۔ نہ ان کی تقلید دوسروں پر واجب ہے۔ امور مذکورہ کاتذکرہ میں نے اس لیے نہیں کیا کہ مجھے کوئی انتقام لینا مقصود ہے۔ میں بہر طور ایسے امور کو بُرا سمجھتا ہوں۔ دکھلانا صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی بساط کے موافق اس قسم کے امور کو روکنے کی ہمیشہ سعی کی۔

مولانا مدنی کا ایک استدلال اور اس کا مسکت جواب

آخر گفتگو میں مولانا حسین احمد نے اپنی جیب سے دو تین کالم کا ایک مضمون نکال کر تقریباً دس منٹ تک پڑھ کر سنایا۔ یہ مضمون ایک انگریز کی تجویز اور رائے پر مشتمل تھاجس میں اس نے ہندوستان کی سیاسیات پر بحث کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو اس کا ایک حل بتلایا تھا۔اس مضمون میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور بمبئی کے بجائے کراچی کو تجارت کا مرکز بنایا جائے۔ گویا اس مضمون کو سنانے کی غرض یہ تھی کہ مسلم لیگ نے جو نظریہ پاکستان پیش کیا ہے وہ اس انگریز کی تجویز پر مبنی ہے اور مسلم لیگ انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے۔
مولانا احمد سعید نے سوال کیا کہ انگریز کی پالیسی ٹکڑے کرنے کی ہے یا جمع کرنے کی۔ یعنی اس کا فائدہ کس جانب میں ہے؟ مطلب یہ تھا کہ ہم جو وفاقی حکومت چاہتے ہیں انگریز کے لیے مہلک ہے اور آپ جو تقسیم ہند چاہتے ہیں یہ صورت حکومت کے لیے مفید و معین ہے۔ علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک آپ کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا۔ یعنی آپ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریز کا فائدہ ہمیشہ ٹکڑے کرنے میں ہے یا نہیں۔ میرا جواب یہ ہے کہ کبھی انگریز کا فائدہ ٹکڑے کرنے میں اور کبھی جمع کرنے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی

ایک حالیہ نظیر ملاحظہ فرمائیے۔ برطانیہ نے ترکی اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ عراق، شام، لبنان، نجد، یمن سب کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وقت میں پالیسی یہ تھی اب جو عرب لیگ قائم ہو رہی ہے جس میں تمام عربوں کو روس کے خطرہ سے انگریز متحد کرنا اور ان سب کا ایک بلاک بنانا چاہتا ہے۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک انگریز کے اشارے سے نہیں ہو رہا جس کا منشا یہ ہے کہ تمام عرب ممالک کی ایک آہنی دیوار بنا دی جائے۔ اس کو وفد نے تسلیم کیا کہ بیشک علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر یہ کہنا صحیح نہیں کہ انگریز کی پالیسی ہمیشہ ٹکڑے کرنا

ہے۔ معلوم ہوا کہ کبھی اس کی پالیسی جمع کرنے کی بھی ہوتی ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا فائدہ کس صورت میں ہے خواہ اس میں حکومت کا فائدہ ہو یا نقصان ظاہر ہے کہ ہندو یا مسلمان کسی کے مقابلے میں بھی گورنمنٹ اپنے مفاد کو بااِختیار خود نظرانداز نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد نے جو ایک انگریز کا مضمون پڑھ کر سنایا یہ ایک انگریز کی شخصی رائے اور تجویز ہے۔ جوآج سے چودہ برس پہلے اسے پیش کی گئی تھی لیکن حکومت برطانیہ کا سب سے بڑا نمایندہ وائسرائے ہند لارڈ ویول جو ہندوستان پر اس وقت حکمران ہے اس نے اپنی تقریروں میں برملا یہ کہا کہ اس ملک کا مرکز اور اس کی حکومت ایک ہی رہنی چاہیے اس ملک پر کوئی بڑا عمل جراحی نہیں ہو سکتا۔ پہلی مرتبہ یہ تقریر کلکتہ کے کامرس چیمبر میں کی۔ دوسری مرتبہ لیمپس لیچر میں یہی مضمون ادا کیا اور ابھی دو تین ماہ ہوئے کہ راولپنڈی کے دربار میں لارڈویول نے یہی کہا کہ اس ملک کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے سابق وائسرائے لارڈ لنتھگو نے بھی 42ء میں اس قسم کی تقریر کی تھی۔ اب آپ حضرات غور فرمائیں کہ آج وائسرائے ہند کے نظریے کی حمایت کانگریس کر رہی ہے یا مسلم لیگ۔

مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ اجی حضرت یہ تو انگریزوں کی چالیں ہیں۔ کہتے تو کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس انگریز کی تجویز میں بھی تو یہی احتمال ہو سکتا ہے۔ لیکن حجت کے درجہ میں تو سب سے بڑے ذمہ دار ہی کا قول ہم پیش کر سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں مولانا حسین احمد نے فرمایا کہ اچھا اگر پاکستان قائم ہو گیا، تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو سکے گا؟ روس نے اگر حملہ کر دیا، تو سرحد کے مسلمان بے چارے پس جائیں گے۔ سارا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ توآپ مان چکے ہیں کہ انگریز ابھی یہاں موجود ہے۔ سرِدست اگر پاکستان بنائے گا، تو وہی بنائے گا۔ سرحدوں کی حفاظت کی بھی کوئی صورت ضرور نکالے گا اور اس کے چلے جانے کی صورت میں بیرونی قوت ہندوستان پر چڑھائی کرے گی، تو دونوں طبقے مل کر اس کی حفاظت کریں گے اور ہر ایک دوسرے کی آدمی، سامان اسلحہ اور روپے سے مدد کرے گا کیوں کہ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہو گا۔ ایسا نہیں کریں گے، تو سب کا نقصان ہو گا۔ اس قسم کے دفاع کے کام باہمی معاہدوں سے انجام پائیں گے۔ مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ حضرت معاہدوں کو آج کل کون پوچھتا ہے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جب بلا معاہدہ آپ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، تومعاہدہ کی صورت، تو بہرحال اس سے قوی تر ہونی چاہیے۔

پھر آپ کی تقریر کا حال، تو یہ ہوا کہ ہم کسی حالت اور کسی وقت بھی ہندوئوں کی احتیاج سے باہر نہیں ہو سکتے اور نہ ان کے بدون کبھی کوئی کام کر سکتے ہیں۔ (یہ بات کم از کم شیر دل بہادروں کو زیب نہیں دیتی جو کہتے ہیں ذرا انگریز سے آزادی مل جائے پھر ہم نہرو وغیرہ کسی سے نہیں ڈرتے۔)
نیز آپ دیکھتے ہیں کہ معاہدات ہی کی طاقت تھی کہ روس اور برطانیہ نے مل کر جرمن اور جاپان کو کس طرح پیس ڈالا۔ کیونکہ تینوں کی غرض مشترک تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کا مفاد جب مشترکہ ہو گا، تو دونوں بذریعہ معاہدات عملی اتحاد کیوں نہیں کر سکتے۔ (گو قومی اتحاد نہ ہو نہ سہی)

اس موقع پر مفتی عتیق الرحمن نے علامہ عثمانی سے کہا کہ آپ تو ہمیشہ سیاسیات سے یکسو رہا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں کیا داعیہ ایسا پیش آیا جس کی وجہ سے آپ نے شرکت فرمائی؟

حضرت علامہ نے ارشاد فرمایا کہ اس الیکشن کی نوعیت پچھلے الیکشنوں سے بالکل مختلف ہے۔ حکومت نے صاف لفظوں میں اس کا اعلان کر دیا ہے کہ اس مرتبہ منتخب ہونے والی اسمبلیاں ہی آیندہ ہندوستان کا مستقل دستور بنائیں گی۔ چونکہ اس الیکشن سے قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ وابستہ تھا اس بنا پر میں نے ضروری سمجھا کہ اس بنیادی موقع پر ان مسلمانوں کی مدد کی جائے جو استقلال ملت اور مسلم حق خودارادیت کے حامی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ آپ نے یہ کہا کہ میں سیاسیات سے ہمیشہ علیحدہ رہا ہوں۔ گزشتہ چند سالوں کو چھوڑ دیجیے اس سے بیشتر جمعیتہ العلما ہند میں ہماری بھی تو کچھ ناچیز خدمات رہی ہیں۔ ہم نے بھی تو کچھ معرکے سر کیے ہیں اور آپ حضرات طوفانی دورہ کر رہے تھے جس سے میرے نزدیک مسلمانوں کا نقصان تھا، تو ظاہر تھا کہ ایسے موقع پر میں سکوت کیسے باقی رکھ سکتا تھا۔
اگر بینم کہ نابینا و چاہ ہست
اگر خاموش بہ نشینم گناہ است

(جب میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک نابینا کنویں کی طرف بڑھ رہا ہے، تو اس موقع پر خاموش بیٹھنا میرے لیے گناہ کا کام ہے۔)

ان وجوہ سے میں نے مسلم لیگ کی تائید و حمایت کی۔ (پھر علامہ عثمانی نے یکایک کوئی اعلان نہیں فرمایا، بلکہ مہینوں پاکستان کے نظریہ پر شرعی و سیاسی حیثیت سے انتہائی غور و تعمق کیا، جب کلکتہ کے اجلاس کل ہند جمعیتہ العلمائے اسلام میں اپنا پیغام بھیجا، تو استخارہ بھی فرمایا۔ مکمل شرح صدر کے بعد یہ اقدام فرمایا گیا۔ (مرتب) اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر میرا اثر ہی کیا ہے۔ہندوستان میں اگر میری اپیل پر بیچارے نوابزادہ لیاقت علی خان کو دس بیس ووٹ مل ہی گئے،تو کیا اثر ہوا۔ آپ تو ماشاء اللہ بااثر ہیں۔ (موجودہ پروپیگنڈے کی طاقتیں آپ کے ساتھ ہیں)۔ میں تو اب آپ میں ایک اچھوت کی حیثیت رکھتا ہوں۔ کسی نے کہا، نہیں یہ بات نہیں آپ کے اعلانات نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔

علامہ عثمانی سے سکوت کی درخواست
مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ بہرحال یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اس میں احتمالِ خطا دونوں طرف ہے۔ مگر آپ تو اس قوت سے بیان دے رہے ہیں کہ اپنے مخالفوں کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ذرا کچھ تو نرمی اختیار کریں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ سب حضرات ماشاء اللہ اہلِ علم ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب احناف و شوافع وغیرہ کے باہمی اختلافی مسائل کی تقریریں آپ اور ہم کرتے

مولانا حسین احمد مدنی
مولانا حسین احمد مدنی

ہیں تو باوجودیکہ سب آئمہ ہُدیٰ ہیں لیکن ہم میں سے کون اپنے مذہب کی تصویب و تائید میں کسر اٹھا رکھتا ہے؟ اور حنفی مذہب کو ترجیح دیتے ہوئے شافعی یا مالک یا احمد کے لیےاپنے زعم میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں میرا تو وہی خیال ہے جو فقہا کرام نے مسئلہ کے عقیدے کی نسبت لکھا ہے کہ اپنا امام جو مسئلہ بیان کرے اس کی نسبت یہ رائے رکھے کہ صواب عمل الخطا۔ یعنی جو ہمارے امام نے مسئلہ بیان کیا وہ صحیح اور درست ہے۔ ہاں اس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔ اور دوسرے امام نے جو کہا (خطائو احتمل الصواب) یعنی وہ خطا ہے گو اس میں احتمال صواب کا بھی قائم ہے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی نہیں۔ آخر میں مولوی حفظ الرحمن نے فرمایا کہ جمعیتہ العلما اسلام محض ہماری جماعت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ آپ کم از کم اس کی صدارت قبول نہ فرمائیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں نے ابھی صدارت کے قبول و عدم قبول کی نسبت کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن کل کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا کروں گا۔

 

(نوٹ: لیکن اس کے بعد علامہ عثمانی نے کل ہند جمعیتہ العلما اسلام کے ناظم کے تار کے جواب میں باضابطہ صدارت کی… کا تار روانہ فرما دیا ہے۔ فلہ الحمد مرتب)

جب یہ حضرات علامہ عثمانی سے رخصت ہونے لگے۔ مولانا احمد سعید نے دریافت فرمایا کہ حضور نظام نے حیدر آباد بھی تو بلایا تھا آپ کب تشریف لے جائیں گے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا میں نے حضور نظام کو لکھا ہے کہ ابھی تو تین ماہ تک مجھے یہاں بغرض علاج قیام کرنا ہے۔ سردی کم ہونے پر اگر اجازت ہو تو حیدر آباد آئوں۔ اب حضور نظام پر موقوف ہے کہ اگر اس کے باوجود انھوں نے مجھے طلب فرمایا، تو مجھ کو بہرحال جانا پڑے گا اور اگر اجازت دے دی تو ٹھہر جائوں گا۔

(الحمدللہ اس تحریر کے مرتب کرتے وقت ہی حضور نظام کے چیف سیکرٹری کا تار بنام علامہ عثمانی پہنچ گیا کہ آپ کو فرد حق تک قیام کی اجازت ہے۔ مرتب)

چلتے چلتے وفد کا منشا یہ معلوم ہوتا تھا کہ جو تحریرات آپ کی شائع ہو چکی ہیں وہ بیان مسئلہ کے لیے کافی ہیں۔ اب اگر یکسوئی اختیار کی جائے، تو کیا بہتر نہ ہو گا؟ لیکن علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں میرے لیے سکوت کیسے مناسب ہے؟

اس کے بعد وفد رخصت ہو گیا۔یہ تمام گفتگو نہایت خوشگوار فضا میں ہوئی۔ کسی موقع پر بھی الحمد للہ ادنیٰ سی تلخی پیدا نہ ہوئی۔ جب یہ تاریخی مجلس برخاست ہونے لگی، تو علامہ عثمانی نے اپنے یہاں آنے والے علما کے احترام میں اِتنا فرمایا کہ یہ سلسلہ گفتگو آخری نہیں ہے۔ پھر جب چاہیں گفتگو کرسکتے ہیں۔جانبین کو موقع غور و فکر کا حاصل ہے۔ ا ب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ قائم ہیں اور میں اپنی جگہ پر رہا۔ اِس کے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔ شرعی حیثیت سے مسائل حاضرہ پر ہند کے وفد کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوا۔

(غالباً یہ حضرات یہ سمجھ کر آئے تھے کہ علامہ عثمانی کی سیاسی معلومات کم ہوں گی، تو ہم اپنے بیان کردہ واقعات سے علامہ موصوف کی رائے کو متاثر کر دیں گے۔ شرعی حیثیت سے گفتگو تو مولانا حفظ الرحمن سے پہلے کر چکے تھے کہ اس پر ہم آپ سے کیا بحث کرتے۔ لیکن اس مکالمہ سے غالباً ان پر یہ حقیقت بھی روشن ہوگئی کہ علامہ عثمانی ؒ کی معلومات شرعیہ جہاں بے پناہ ہیں وہاں سیاسی مذاق بھی کچھ اِس سے کم نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ علامہ عثمانی نے مسئلہ پاکستان کو اپنی گفتگو میں اس طرح سے مُنقح کیا کہ جو لوگ سیاسی ہیں جب اس مکالمہ کو سنتے ہیں۔ تو وہ خود بھی تنقیح مسئلہ کے انداز پر عش عش کرتے ہیں)

ضروری گزارش
جو مکالمہ اوپر درج ہوا اس پر گفتگو کے سب اجزا آگئے۔ کوئی ایک آدھا جز چھوٹ گیا ہو، تو جدا بات ہے۔ ترتیب کلام میں تقدیم و تاخیر بھی ممکن ہے کیونکہ جس وقت مکالمہ ہو رہا تھا، بروقت منضبط نہیں ہوا۔ لیکن گفتگو کا ملخص اور ضروری لب لباب جہاں تک ممکن تھا لے لیا گیا۔ علامہ عثمانی نے جس طرح گفتگو نقل فرمائی اسی طرح قلمبند کر لی گئی اور مزید احتیاط یہ کی گئی کہ مسودہ صاف کر کے حضرت علامہ کو دکھلا لیا گیا۔ حضرت علامہ نے کہیں کہیں اس میں ترمیم و اصلاح بھی فرمائی۔ لہٰذا یہ مکالمہ اب حضرت علامہ کا مصدقہ مکالمہ ہے۔ جو بغرض افادۂ عوامشائع کیا جا رہا ہے۔ اس مکالمہ سے اہل بصیرت اور مہذب دنیا کو یہ واضح ہو گا کہ اختلافات میں حزم و احتیاط اور عدل و توازن سے کیا لطافت پیدا ہوتی ہے اور کس طرح مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔ اور بے اعتدالیوں یا بدتہذیبیوں سے اختلاف کس طرح خلاف اور شقاق کی نوعیت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ کہ ہر دو جماعتوں کا رخ کیا ہے۔ کون اصول کو مقدم کرنا چاہتی ہے اور کون ذاتیات پر اتری ہوئی ہے؟

بشکریہ اردو ڈائجسٹ 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے