وقت شروع ہوا چاہتا ہے

جب ایک طالب علم امتحان دینے جاتا ہے تو اس کی ابتدا اور انتہا کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے امتحان شروع کرسکتا اور نہ اس مقررہ وقت کے بعد امتحان جاری رکھ سکتا ہے۔

جس طرح دنیوی امتحانات کا ایک وقت مقرر ہے تو اسی طرح آخرت کے امتحان کا بھی ٹیسٹ مقررہ وقت پر شروع ہوتا اور اس وقت کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر غیبت کے ٹیسٹ کا وقت ایک خاتون کے لئے اس وقت شروع ہوتا ہے جب اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں لوگوں سے حسد ، جلن اور بدگمانی ہو۔جونہی وہ اس ماحول سے نکل کر ایک ایک دودراز ملک میں جاکر رہنا شروع کرتی ہےجہاں کوئی نہیں جس سے وہ باتیں کرسکے تو اس ٹیسٹ کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اگر اس نے ناموافق حالات میں تو دل کھول کر اپنے مخالفین کی برائی کی ۔ لیکن جب اسے تنہائی ملی اور کوئی غیبت کرنے والا نہ ملا تو خاموش ہوگئی اور یہ سمجھنے لگی کہ میں تو غیبت نہیں کرتی تو غلط فہمی کا شکار ہے۔ اس نے غیبت کے ٹیسٹ پیریڈ میں ناکامی کا مظاہرہ کیا اور فیل ہوگئی۔ اب وہ خاموش اس لئے ہے کہ حالات بدل گئے ہیں۔

جس طرح نماز وں کا وقت مقرر ہے، روزے کا متعین وقت ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک خاص موقع ہے اور حج کا مخصوص موسم ہے ایسے ہی دین کے بیشتر امتحانات کا موقع متعین وقت میں ہی ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا موقع ان کی زندگی تک ہے موت کے بعد نہیں، عفو درگذر کے ٹیسٹ کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کے خلاف غصہ عروج پر ہو، شوہر یا بیوی کے حقوق کی ادائیگی کا ٹیسٹ ازدواجی زندگی کے دوران ہے۔

ہم سب کو چاہئے کہ اپنے اپنے امتحانات اور ان کے اوقات کو پہنچانیں۔ ہم دیکھیں کہ اس وقت ہم کس قسم کی آزمائش میں ہیں اور پھر اسی مناسبت سے اپنی کاردگی پیش کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی خاص معاملے مسئلے کے امتحان کا وقت آئے اور گذر بھی جائے لیکن ہمیں پتا تک نہ چلے۔ امتحانی اوقات کو پہچاننا بذات خود ایک آزمائش ہے۔ جو اس آزمائش میں ناکام ہوگیا وہ امتحان میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے