پامانہ لیکس کی تحقیقات میں قانونی پیچیدگیاں

معاشی ماہرین نے پامانہ لیکس کی تحقیقات میں قانونی پیچیدگیوں کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے جبکہ چیئرمین سینیٹ خزانہ کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ پامانہ لیکس پر کوئی تحقیقات نہیں ہوسکتیں، کیونکہ پاکستان اور پامانہ کے درمیان ڈیٹا کے لین دین کا کوئی معاہدہ نہیں۔۔۔

انہوں نے کہا کہ پامانہ لیکس پر تحقیقات کے لیے پانامہ سے ڈیٹا کے لین دین کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ یہ پیچیدہ مسئلہ ہے اور پاکستان اور پانامہ کے درمیان ڈیٹا کے لین دین کا کوئی معاہدہ نہیں،۔ ڈیٹا کے حصول کے لیے پاکستان کو پہلے قانون سازی کرنا ہوگی اور اب وقت آگیا ہے کہ اس طرح کی تحقیقات کی پیچیدگیاں دور کرنے کے لیے ملک میں قانون سازی کی جائے ۔ انہوں نےکہا کہ پاکستان نے قانونی ڈیٹا کے لین دین کا صرف تاجکستان سے معاہدہ ہے اور پاکستان تاجکستان کے سوا دنیا کے کسی بھی ملک سے ڈیٹا نہیں لے سکتا۔

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایاکہ پاکستان سے باہر سرمایہ لے جانے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اجازت درکار ہوتی ہے اگر 1995 میں سرمایہ پاکستان سے باہر گیا تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اجازت کا ریکارڈ تلاش کرنا ہوگا۔ جو بڑا مشکل مرحلہ ہوگا اور پھر اس پر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری ثابت کرنے کے لیے سرکاری افسران کے بس کا روگ نہیں۔

سابق مشیر اور معروف اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی نے پامانہ لیکس کی تحقیقات پر مایوسی کا اظہار کیا۔ وہ کہتےہیں کہ پاکستان میں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے لیے ماہرین ہی نہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایف بی آر میں اس کے ماہر ہی نہیں ، صرف شعیب سڈل کے پاس اہلیت ہے ۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اس کے لیے ڈیٹا کہاں سے آئے گا، فیڈرل بورڈ آف ریونیو صرف پانچ سے سات سال اور الیکشن کمیشن تین سے پانچ سال تک اثاثوں کا ڈیٹا رکھتے ہیں۔ بیس سال پرانا ڈیٹا نکالنا تو بڑا مشکل ہوگا۔ جب ڈیٹا نہیں ہوگا تو غیر ملکی ماہرین اس بنیاد پر تحقیقات کریں گے۔ ثاقب شیرانی نے بیورو کریسی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ کسی سرکاری افسر میٹنگ کے نکات درست نہیں لکھتے اور ریکارڈ مناسب طریقے سے محفوظ نہیں کرتے، اسی بنیاد پر ڈیٹا کا ابہام پیدا ہوتا ہے اور تحقیقات کرنا مشکل سے مشکل ہوجاتا ہے۔۔ پامانہ لیکس میں بھی اسی طرح کی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے