دل کےدورےاورغیرملکی دورے

پاکستان کے بگڑتے سیاسی حالات پر جہاں رونا چاہئے وہاں آپ اب آنسو نہیں نکلتے،، اسی لیے اب ب۔ ادب تحریر لکھنے کو دل کرتا ہے۔ یہ ب ادب، اردو میں بے ادب ہے اور عربی میں با ادب۔ آج کل ہر میڈیا ہاؤس میں سیاسی معاملات پر بحث جاری رہتی ہے۔ میرے نیوز روم میں بھرپور جمہوریت ہے اور سیاسی معاملات پر کھل کر اظہار خیال کرکے بڑھال نکالی جاتی ہے۔ سیاسی بحث میں مدثر عزیز، سردار عمران، شاکر سولنگی اور رضا باجوہ صاحب وقتا فوقتا اپنے اپنے مصالحے شامل کرتے رہتے۔

گزشتہ دنوں ایک محفل میں بچپن کا ایک کھیل یاد آگیا۔ جس میں سب اپنی انگلیاں، چیل اڑھی، کوا اڑا، بھینس اڑی، اور کیل اڑی۔ پر گاہے بگاہے انگلیاں اٹھاتے اور جو غلط انگلی اٹھاتا اس کی شامت آتی۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب یہ کھیل صحافی کھیل رہے ہیں۔ ایک بولا نواز شریف اڑا، سب نے انگلی اٹھائی ہا ہاں اڑا، ، پھر بولے کہ چوہدری نثار اڑا، سب نے پھر انگلی اٹھائی ہاں ہاں اڑا، پھر آواز آئی کہ عمران خان اڑا، سب نے پھر انگلی اٹھائی ہاں ہاں اڑا، ساتھ ہی جہانگیر ترین اڑا سب نے پھر انگلی اٹھائی، پھر شاکر سولنگی نے آواز لگادی کہ مولانا فضل الرحمان اڑا اور پھر سب نے انگلی اٹھائی،، ہاں ہاں اڑا۔ یہ ہمارے ملک میں سب کو غیر ملکی دورے کیوں پڑ رہے ہیں۔

کبھی مشرف صاحب باہر جا رہی ہیں تو کبھی ایان علی، زرداری صاحب تو ہیں ہی باہر۔ سیاست میں فارن ٹور کھیلا جا رہا ہے۔ کبھی آف شور کا شور ہے کبھی چور نے مچایا ہے شور۔ کسی کی بیوی بیمار تو کسی کا دل، کسی کے حالات، کسی کے مزاج۔۔ ہر غم کا علاج پاکستان سے باہر۔ ہم گزشتہ دس میں 35 کھرب روپے سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں پر لگا چکے ہیں لیکن دل کا ایک بھی ایسا ہپستال نہیں بنا سکے جو ہمارے حکمرانوں کے علاج کے شایان شان ہو۔ تین ارب روپے کی لاگت سے بننے والا راول پنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی اس قابل نہیں کہ وزیر اعظم کے دل کے غم کو ہلکا کرسکے۔ کوئی ایسی ٹیکس ہیون نہیں بناسکے جہاں ہمارے حکمران اپنا سرمایہ لگاسکیں۔ ایسا کوئی ٹنیشن فری پارک نہیں بناسکے جہاں دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ یہ امرا تو باہر چلے جائیں لیکن یہ عوام کہاں جائیں۔ یہ اپنی بھڑاس کہاں نکالیں۔ گزشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک افسران سے اس بات پر منہ ماری ہوگئی کہ موصوف کے مطابق پاکستان میں صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس جمع کراتے ہیں جبکہ ہمارے انہیں یہ باوار کراتے رہے کہ پاکستان میں کم از کم چار کروڑ روپے روزانہ ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 9 کروڑ سے زائد ہے اور ہر سم پر ٹیکس ہے۔ یہ اپنا ٹیکس سے بچا سرمایہ کہاں لگائیں ان کے پاس تو سرمایہ بچتا ہی نہیں۔ لگانے کو۔۔

یہ تو وہ بد نصیب ٹیکس دہندگان ہیں جن کے لیے دس روپے کی دوا نہیں اسپتال میں، علاج کے لیے ڈاکٹر نہیں، ایکسرے مشین خراب پڑی ہے، سٹی اسکین دو ماہ کے بعد ہوتا ہے اور ایم آر آئی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، علاج تو دور کی بات اب تو بستر نہیں ہے، زمین پر ہی پڑے رہتے ہیں ۔ رواں مالی سال اقتصادی سروے کا صحفہ نمبر 192 پڑھ لیں، پاکستان میں ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، تیرہ ہزار افراد کے لیے ایک داندان ساز اور سولہ افراد کے لیے اسپتال کا ایک بستر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے