توپاکستان بنانے کی ضرورت کیاتھی؟

سو ملین ڈالرزکا سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر لندن اور برطانیہ ہمارے طبقہ اشرافیہ کو اتنے ہی پسند ہیں کہ وہ ہر اہم ایشو اور بحران کے دوران کسی بھی بہانے کی آڑ ڈیرے ڈالنے یا ’’ آزادی کا سانس ‘‘ لینے یہاں پہنچ جاتے ہیں تو ہمارے سیاسی اکابرین اور عوام کو پاکستان نامی ملک کو قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جس ملک میں علاج کی سہولتوں کی یہ حالت ہے کہ نام و نہاد معززین ، حکمران اور طبقہ اشرافیہ کے سرخیل طبی معائنے کیلئے لندن اور بعض دیگر ان مراکز اور شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں جو کہ کبھی ہمارے آقا رہے ہیں تو اس ملک کے قیام کا کیا جواز تھا اور اس کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ یہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ملک ہے؟

جس ملک کے حکمران اور سیاستدان اتنے بے بس ہو کہ وہ کسی بھی نوعیت کے بحران سے نکلنے کیلئے پاکستان میں بیٹھ کر آزادانہ ماحول میں بات نہیں کر سکتے اور ان کو ’’ راز کی باتیں ‘‘ کرنے کیلئے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے لندن یا دُبئی پہنچنا ہوتا ہے اُن سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ عوام یا ملک کے مفادات کا تحفظ ممکن بنا پائیں گے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ 65,70 برس گزرنے کے باوجود سیاسی اور ریاستی معاملات اور توڑ پھوڑ کے کسی بھی عمل کی پلاننگ کیلئے ہمارے معزز لیڈران صاحبان لندن ہی کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتے آئے ہیں۔ بناؤ اور بگاڑ دونوں عوامل کے فیصلے لندن ہی میں ہوتے ہیں ۔ شاید ہی مین سٹریم پالیٹکس کا کوئی ایسا لیڈر ہو جس کی لندن میں مستقل اور ذاتی رہائش گاہ نہیں ہو۔ عمران خان اور چوہدری نثار سمیت بہت سے ’’ میڈان پاکستان ‘‘ لیڈروں کے بچے تعلیم لندن سے حاصل کرتے ہیں جبکہ نصف سے زائد لیڈروں اور وزراء کے خاندان بھی بوجوہ لندن ہی میں رہائش پذیر ہیں۔

40 کی دہائی میں جب پاکستان کی آزادی (تقسیم ہند) کی تحریک چل رہی تھی تو مسلم لیگ کی تحریک کا ایجنڈہ دو بڑے نکات پر مشتمل تھا۔ ایک یہ کہ ہندوستان کے مسلمان اکثریت رکھنے والے ہندوؤں کیساتھ ایک ملک کے اندر رہ کر حق تلفی اور زیادتی کا شکار رہیں گے اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی شکل میں جو نئی اسلامی ریاست قائم ہو گی وہ ایک فلاحی مملکت ہو گی اور اس کے تمام فیصلے عوام اور اُن کی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہوں گے۔ تقسیم کا عمل مکمل ہوا تو پہلے نکتے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اکثریت بھارت میں رہ گئی ۔( آج بھی بھارتی مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی تعداد سے زیادہ ہے۔ 30 کروڑ سے زائد ) ۔

دوسرے نکتے یا دعوے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے اور وہ یوں کہ اب بھی تمام فیصلے ہمارے سابق حکمرانوں کے ہاں یعنی برطانیہ میں بیٹھ کر کیے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان طبقہ اشرافیہ کیلئے محض ایک بس سٹاپ یا سرائے کی حیثیت رکھتا ہے ان کی توجہ کا مرکز اب بھی لندن ، دُبئی اور واشنگٹن ہیں۔ ان کی تعیناتیاں بھی ان مراکز سے ہوتی ہیں۔ یہ بگاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے فیصلے بھی وہاں کرتے ہیں۔ ان کو پراجیکٹس بھی وہیں سے ملتے ہیں اور ان کے خاندان بھی وہاں رہنا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ جن لوگوں کو پاکستان نے عزت ، شہرت اور دولت سے نوازا ہے وہاں کے حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ کے لوگوں کے ذہنوں پر اب بھی اپنے سابق آقا چھائے ہوئے ہیں اور لندن اب بھی ان کی محبت ، وابستگی اور سرگرمیوں کامرکز ہے۔

مثال کے طور پر آج ہی کی مثال لیجئے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف لندن میں ہیں تو سابق صدر آصف علی زرداری بھی یہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ الطاف حسین نے تو لندن کے ہاتھ زندگی اور موت دونوں کو منسلک کر دیا ہے اوران کی پارٹی عملاً لندن ہی سے آپریٹ ہوتی آئی ہے۔ تبدیلی والی سرکار یعنی عمران خان بھی ان دنوں اس شہر میں قیام پذیر ہیں۔ ان کے صاحبزادے تو مستقل طور پر یہاں رہائش پذیر ہیں اور تعلیم بھی یہیں پر حاصل کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کا خاندان بھی پاکستان کی بجائے اس شہر میں قیام پذیر ہیں۔ چند اور اہم لیڈر اور وزراء بھی آس پاس کہیں موجود ہیں اور کھسر پھسر میں مصروف عمل ہیں۔ چند وہ کنگ میکر بھی لندن کی شاموں اور سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے پہنچ گئے ہیں جو کہ اقتدار کی غلام گردشوں کا ہر دور میں حصہ رہے ہیں۔

کمی محسوس ہو رہی ہے تو صرف سپر ماڈل محترمہ ایان علی کی جن کا نام اے سی ایل سے نکالا جا چکا ہے اور بہت سے معززین دُبئی اور لندن میں ان کی میزبانی اور خدمات کے منتظر ہیں۔ اگر وہ بھی قومی مفاد کے فارمولے کے تحت لندن پہنچ جائے تو رہی سہی کمی بھی پوری ہو جائے گی اور قوم کو بحران سے نکالنے میں بھی ان کی تشریف آوری مددگار ثابت ہوگی۔ ان کے علاوہ محترم قادری صاحب کی کمی بھی محسوس ہو رہی ہے تاہم بعض حلقوں کے مطابق موصوف بھی وہیں پر یا تو کسی ’’ گلی ‘‘ میں موجود ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔

ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے حکمران طبقے کے اعلیٰ دماغ لندن میں قیام کے دوران نہ صرف یہ کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ وہ اس شہر میں موجودگی کے دوران اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش بھی کریں گے کہ ہم اب بھی عملاً برطانیہ اور اس لیول کے دیگر بڑے مراکز کی کالونیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ مراکز دوسروں کے علاوہ ہمارے حکمران طبقے کیلئے بھی ڈریم لینڈ ہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے