اُجلے ذہنوں پر معلومات کی بمباری

ہمارے نوجوانوں پرانٹرنیٹ کئی جہات سے اثرا نداز ہوا ہے۔دودہائیاں پیچھے چلے جائیں تو ہمیں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو انٹرنیٹ سے واقف تھے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کنکشن کے حصول کے لیے کافی قوت خرید کا ہونا بھی ضروری تھا اس لیے متوسط طبقے میں بھی خال خال ہی ایسے لوگ تھے جو اس سہولت کے بارے میں جانتے ہوں۔

2000ء کے بعد پاکستان میں تیزی سے انٹر نیٹ عام ہوا۔ شہروں میں انٹرنیٹ کیفے کھلنا شروع ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت ہمارے کمپیوٹرز اور اب موبائل فونز میں دستیاب ہے۔ انٹرنیٹ نے بلاشبہ مواصلات کی دنیا مکمل طور پر بدل کر رکھ دی ہے لیکن اس نے پاکستان کے نوجوان طبقے جو خاص طور پر متاثر کیا ہے اور یہ اثرات مثبت کی بجائے منفی زیادہ ہیں۔

نوجوانوں کا ایک دم سے معلومات کے ایک ایسے ذریعے سے واسطہ پڑا ہے جس کو درست طریقے سے ہینڈل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ خاص طور ہر سوشل میڈیا پر تو الاپ شناپ معلومات کا ایک بے ہنگم ریلا بہہ رہا ہے ۔ایک عام نوجوان کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ درست اور مصدقہ معلومات کو دیگر آلائشوں سے الگ کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ معلومات کی بمباری ہے جس کا نشانہ نوجوانوں کے اذہان ہیں۔

ماضی کے برعکس اب چیزیں ہمیں مختلف نظر آتی ہیں۔ اس زمانے میں علم کے ذرائع محدود تھے اور لوگ معاشی طور پر آج کی نسبت بہت کم آسودہ تھے لیکن اس زمانے کے نوجوان کا ارتکاز ذہنی کافی حد تک سلامت تھا۔ اس کی رسائی علم کے محدود مگر ٹھوس اسباب تک تھی اور خاندان کا ادارہ بھی کافی حد تک مستحکم تھا۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ نوجوان ایک منظم طریقے سے آگے بڑھتے تھے۔ ان کے سامنے کرنے اور نہ کرنے والے کاموں (Do’s & Don’ts )کی واضح پہچان ہوتی تھی۔ قدرے بہتر علمی پس منظر کی وجہ سے وہ سامنے آنے والی نئی معلومات کا فوری اثر لینے کی بجائے پہلے اسے ایک ذہنی تجزیاتی عمل سے گزارتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں نئی معلومات کا پہلے سے موجود علم کے ساتھ موازنہ کر کے اس کی حیثیت کا تعین کرتے تھے۔

آج کے دورکا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بچوں کو اسکول سے ہی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی مل چکی ہے۔ وہ ایسی کتابیں پڑھنے میں بہت کم دلچسپی لیتے ہیں جو ان کی ذہنی تربیت کا سامان کر سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے بے جا ستعمال کی وجہ سے بچے اپنے لباس اور تصویروں میں مسابقت کر رہے ہیں جو ظاہر ہے اس عمر میں اچھا رجحان نہیں ہے۔ دوسری بات ان کے تختی کی طرح شفاف دماغوں کا تصادم معلومات کی ایسی نوع کے ساتھ ہو رہا ہے جس کی حقیقت کے بارے میں انہیں آگاہ کرنے کا فوری طور پر کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمر کے اس مرحلے میں ہی تعصب ، نفرت ، دشمنی اور عدم برداشت وغیرہ جیسی علتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آپ مذکورہ بات کی تصدیق کے لیے پاکستان میں دستیاب سوشل میڈیا ویب سائٹس پر سرگرم نوجوانوں کا جائزہ لے کر سکتے ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایسے نوجوان آپ کو کثرت سے ملیں گے جو عمر کے اس اہم ترین مرحلے میں سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر اندھا دھند ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔وہ اسی سوشل میڈیا پر بہتے معلومات کے ریلے سے اپنی اپنی پسند کی چیز اٹھاتے ہیں اور اس کے حق میں یا اس کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں وہ اس بات کا تردد نہیں کرتے کہ آیا ان کے تبصرے کی بنیاد بننے والی معلومات کی حقیقی نوعیت کیا ہے؟کیا یہ معلومات کسی مصدقہ ذرائع سے جاری ہوئی ہیں یا انہی کی طرح کے کسی نوجوان کا جذباتی اظہاریہ ہے۔

یہ سب دیکھ کر برطانوی ناول نگار نیل گائی مین( Neil Gaiman ) کی اس بات کی تصدیق کر نی پڑتی ہے کہ’’گوگل آپ کو ایک لاکھ سوالات کے جوابات تودے سکتا ہے مگر ایک لائبریرین آپ کو ایک مگردرست جواب فراہم کر سکتا ہے۔‘‘

ایک اور نقصان یہ ہوا کہ وقت کے زیاں کا احساس اب مٹتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر گھنٹوں گزار دینے والے نوجوانوں سے اگر پوچھا جائے کہ انہوں نے اس ایک برس کے دوران ضابطے کی کتابوں کے علاوہ کو ن سی نئی کتاب پڑھی ہے تو اکثر کا جواب نفی میں ملتا ہے۔اب یہ مسئلہ صرف نوجوانوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہا ۔ بہت سے ایسے پختہ عمر کے لوگ بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جو کتابوں اور سنجیدہ مطالعوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک نیا سماجی المیہ ہے جس کے بارے میں سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔

یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ پر ان گنت ایسے ذرائع اور مصادر موجود ہیں جو علم کی پرورش کا کام کرسکتے ہیں لیکن سہل پسندی یا غفلت کے باعث ہم ایسی مفید تلاش (براؤنگ) کی تکنیکوں سے ناواقف ہیں۔اب ہم میں سے اکثر لوگ پہلے کلک پر ملنے والی معلومات کو بنیاد بنا کر اپنی سوچ اور فکر کا رخ متعین کرنے لگے ہیں جس سے ایک طرح کی کنفیوژن معاشرے میں پھیل رہی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ بچوں اور نوجوانوں کی انٹر نیٹ تک رسائی محدود یا سرے سے ختم کی جائے تو یہ شایداب یہ ممکن نہیں رہا۔ اب ہمیں بحیثت ذمہ دار سماجی رکن سوچنا ہو گا کہ کس طرح انٹرنیٹ جیسے ذریعے کے مفید پہلووں کو کام میں لایا جائے اور بچوں کو ان کی عمر کے موافق تعمیری مواد تک رسائی فراہم کی جائے۔ ہمیں یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ وہ کون سی بنیادی معلومات ہیں جن کا جاننا ہر بچے یا نوجوان کے لیے یکساں طور پر اہم ہے۔ اس سے مراد وہ معلومات یا مطالعے ہیں جو انسانی شخصیت میں توازن، ٹھہراؤ اور پختگی پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمارے تعلیمی شعبے کے ماہرین اور سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھنے والے اہل علم کو مل بیٹھ کر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں کس طرح ان کی شخصیت کی تعمیر ٹھوس بنیادوں پر کی جا سکے تاکہ وہ علم کے معاملے میں انفعالی کیفیت سے نکل کرمستقبل کے چیلنجوں سے پورے اعتماد کے ساتھ نبرد آزما ہو سکیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے