کراچی‌کی‌قاتل‌گرمی‌اور‌‌‌غافل حکومت

مغربی یورپی ممالک ہوں یا ایشیاء ممالک چین، جاپان یا پاکستان غرض پوری دنیا قدرتی آفات و مسائل کا شکار رہتی ہے اور کسی بھی قدرتی حادثے کے رونما ہوجانے کے بعد آئیندہ کے لیئے بہترین احتیاطی تدابیر کرلی جاتی ہیں جس سے کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی اچانک رونما ہونے والی قدرتی آفات کا قبل از وقت اندازہ نہیں لگایا جاسکتا جیسے کہ زلزلوں کے بارے میں قبل از وقت آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی . آج کے جدید دور میں جہاں بارشوں، سمندری طوفانوں اور سونامی وغیرہ کے بارے میں قبل ازوقت آگاہ کردیا جاتا ہے تاکہ انسانی جانوں کو محفوظ رکھنے کے لیئے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں . اسی طرح اچانک رونما ہونے والے قدرتی حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے فوری بعد اس نوعیت کے مزید حادثات رونما ہونے پر انسانی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے کام شروع کردیا جاتا ہے،

ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ہزارہا ایسے واقعات رونما ہوچکے بہت سی انسانی جانیں ضائع ہونے کے بعد بھی وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں جس کی ضرورت تھی، گذشتہ سال ملک کے کئی حصوں میں شدید گرمی ریکارڈ کی گئی جس میں ایک بڑا شہر کراچی بھی شامل تھا جہاں ماہ رمضان میں شدید گرم موسم اور اداروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے ادارے تمام تر ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے یا تو حکومتی سطح پر کوئی ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے یا پھر انسانی لاشوں کی قیمت لواحقین کو دے کر خاموش کرادیا جاتا ہے، آئیندہ ایسے واقعات میں کس طرح لوگوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اس بارے میں نہ ہی کوئی کمیٹی بنائی جاتی ہے نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی موثر عوامی آگاہی مہم شروع کی جاتی ہے گذشتہ دنو ں ایک خبر نظر سے گذری کہ پچھلے سال کراچی میں ہیٹ اسٹروک اور اداروں کی غفلتوں کی وجہ سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ نہ سرد خانوں میں میتوں کو رکھنے کی گنجائش رہی نہ قبرستانوں میں تدفین کی جگہ میسر آئی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے واحد ایدھی فاؤنڈیشن ہے جس نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے قبل از وقت احتیاطی تدابیر کرلی ہیں اور کافی تعداد میں قبریں تیار کرلی گئی ہیں بہت عجیب محسوس ہوا کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے ایسا کیوں کیا پھر زہن میں اس بات کے دو جواب آئے ایک تو یہ کہ ظاہر ہے اس ادارے کا جو کام ہے وہ اس نے تقدم بالحفط کرلیا دوسرا یہ کہ اس ادراے کو حکومتی سابقہ روایات اور روش کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوگیا کہ کسی نے کچھ نہیں کرنا مرنا پھر شہریوں نے ہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایل نینو کے اثرات کی وجہ سے خشک موسم کے نقصانات کا سامنا کررہا ہے جس کی وجہ سے کراچی سمیت کئی بڑے شہروں میں سرد موسم ختم ہونے کا خدشہ ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل نینوکو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی ناسا نے بھی تصدیق کی ہے ایل نینوموسمیاتی تبدیلی کی ایک شکل ہے جس کے مضر اثرات کی وجہ سے موسم اپنے معمول کے مطابق نہیں رہتے جس سے ماحول میں کئی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوجاتی ہیں ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ایل نینو کا اثر پندرہ سے بیس سال تک رہتا ہے ایل نینوکی وجہ گلوبل وارمنگ ہے اس میں گرم پانی بھاپ کی شکل میں اٹھتا ہے جس سے بادل نہیں بنتے اور نہ ہی بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے موسم بتدریج گرم ہوجاتا ہے ایل نینوبننے کی بڑی وجوہات میں قلیل تعداد میں درختوں کا ہونا کوئلہ، ڈیزل اور پیٹرول کو بطور ایندھن استمال کرنا بھی ہے بڑھتی آبادی گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ اور کارخانوں کی چمنی سے اٹھنے والے دھویں نے ایل نینوکے اثرات کو بڑھا دیا ہے ایل نینوکے اثرات کو کم کرنے کے لیئے بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے ۔

چین شائید دنیا کا پہلا ملک ہے جو ایل نینوسے ہونے والی تباہ کاریوں کے خطرے کو بھانپ گیا اور فوری طور پر اقدامات شروع کردئیے جن میں سر فہرست کوئلہ جلانے پر پابندی عائد کردی گئی، چین جو شجر کاری میں پہلے ہی نمایاں مقام رکھتا ہے مزید شجر کاری مہم شروع کردی گئی ، چین کی مشہور موٹر ساز کمپنی بیک موٹر نے بجلی سے چلنے والے گاڑیوں کی تیاری بڑے پیمانے پر شروع کردی اور ان کے چارجنگ اسٹیشن قائم کرنے شروع کردیئے گئے۔ شائید چین ہی وہ واحد ملک ہوگا جو ایل نینوکے اثرات کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگا۔

گذشتہ برس ماہ رمضان میں ہیٹ اسٹروک میں جس ادارے کی سب سے زیادہ غفلت نظر آئی وہ بجلی کا محکمہ تھا جس کا براہ راست تعلق گھریلو اور صنعتی برقی آلات اور مشینوں سے ہے .‌شہر میں پانی کی سپلائی، مردہ خانوں کا نظام، برف کارخانوں کا نظام تمام انحصار اسی ادارے پر تھا گویا یہ کہنا بجا ہوگا کہ گرم موسم کی شدت میں اضافہ بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کی وجہ سے ہوا،اب ایک سال ہونے کے قریب چند روز پہلے نیپرا نے کے الیکٹرک پر ایک کروڑروپے کا جرمانہ عائد کیا ہے پچاس لاکھ روپے صارفین کو بلاتعطل بجلی فراہم نہ کرنے پر جبکہ پچاس لاکھ اپنی پیداواری صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار نہ لانے پر، ہزاروں انسانی جانوں کی قیمت ایک کروڑ کے جرمانے کی صورت میں سرکاری خزانے میں وصول کی گئی۔

نیپرا نے کے الیکٹرک کو یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ سوائے بل نہ ادا کرنے اور بجلی چوری کرنے والوں کے تمام صارفین کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جائے ، ابھی موسم قدر بہتر ہے نہ ہی سورج نے آگ اگلنا شروع کی ہے اس کے باوجود پورے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے.‌ حکومتی ادارے چین کی بانسری بجارہے ہیں ماہرین موسمیات نے ملک کے کئی علاقوں میں گذشتہ سالوں سے زیادہ گرمی کی پیشن گوئی کی ہے اس کے باوجود کوئی خاطر خواہ حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے