کلائمٹ چینج سے متاثر ہ ہماری زمین اور نسلوں کی بقاء

ترقی کا سفر نئی نسلوں کی ضرورت ہے لیکن اس بے جا ترقی سے تباہ ہوتی زمین کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے، تاکہ دنیا کی آئندہ نسلوں کے باسی ہماری زمین پر زندگی کے آثار قائم رکھ سکیں،زمین پر بسنے والی تمام ترقی یافتہ اقوام آج اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث پھیلنے والی بیماریاں اور ماحول کی تباہ کاریاں نہ صرف ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے زہر قاتل کا کردار ادا کر رہی ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ماحولیاتی دہشت گردی میں تمام مہذب اور ترقی یافتہ اقوام براہ راست شریک ہیں تو بے جا نہ ہو گا،انسانی ترقی ہی زمین کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ ماحول کو بچانے کے لئے عالمی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی سلسلے میں زمین کے عالمی دن کو منائے جانے کا مقصدزمین پر موجود انسانوں کی بقاء کے لئے کی جانے والی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بسنے والے افراد کو زمین پر ماحولیات کے قتل عام سے روکنے کے لئے تحریک پیش کرنا ہے،پہلی بار زمین کا عالمی دن 22اپریل 1970ء کو منایا گیا ، امن اور زمین کی بہتری کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن جان میکونیل نے اقوام متحدہ کے تیسرے سیکرٹری جنرل یو تھانٹ کو دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیاتھا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دیگر دنوں کو منا یا جاتاہے ایسے ہی عالمی سطح پر زمین کے عالمی دن کو منعقد کیا جائے تاکہ دنیا کے لئے زمین کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور آئندہ دنوں میں زمین کو محفوظ رکھنے کے لئے آگاہی پروگرامز کو فروغ مل سکے۔

رواں سال زمین کا عالمی دن عالمی کلائمٹ چینج معاہدے پیرس ایگریمنٹ کو تقویت دینے کے لئے منصوب کیا گیا ہے تاکہ کلائمٹ پروٹیکشن ٹریٹی پر 22اپریل سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں COP21/CMP11 پیرس کانفرنس میں ایک سو پچانوے رکن ممالک کی جانب سے معاہدے کو دی جانے والی رضامندی کے بعد باقاعدہ دستخط کر کے اسے آنے والی نسلوں کی بقاء کا ضامن بنایا جا سکے۔کلائمٹ چینج کے حوالے سے دنیا میں کاربن فضلے کے باعث ہونے والی ماحولیاتی دہشت گردی کا جائزہ لیں تو عالمی ماحولیاتی ایجنسی اور انوائرنمنٹ انسٹی ٹیوٹ سمیت یو این ای پی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کی فضاء میں سالانہ22لاکھ ٹن سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہوتا ہے جو فوسل فیولز کے بے دریغ استعمال، کاربن فضلے کی ماحول میں زیادتی اور دیگر توانائی کے حصول کی کوششوں سے دنیا کے باسیوں کو زہر قاتل بن کر روزانہ کی بنیاد پر بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کی نیشنل پروفیشنل آفیسر ہیلتھ ، انوائرنمنٹ اینڈ فوڈ سیفٹی پروگرام پاکستان نوشین محسن نے کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی سے نہ صرف پانی آلودہ ہو رہا ہے جو بچوں کی نشونما کو متاثر کئے ہوئے ہے بلکہ بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ ہونے سے کینسر، جلدی امراض اور ہیپاٹائٹس سمیت سانس کی بیماریوں، آنکھوں کی بینائی کا متاثر ہونا اور انسانی دماغی خلیوں کے سکڑنے سے دماغی امراض میں ہر شہر اور صوبے میں روز بروز مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جبکہ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ترجمان مریم یونس نے روزنامہ پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیامیں کلائمٹ چینج کے باعث زمین کا درجہ حرارت بدستور بڑھتا جا رہا ہے بلکہ آب و ہوا بھی سخت متاثر ہے اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے2030ء سے 2050کے درمیان 2 لاکھ پچاس ہزار افراد سالانہ اموات کی شرح میں اضافہ ہو گا، اور یہ اموات نامناسب خوراک اور رہن سہن میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملیریا، ڈائریا اور ہیٹ سٹروک کے باعث ہوں گی جس سے بچنے کیلئے آج سے ہی ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اقدامات کئے جارہے ہیں مریم یونس کا کہنا تھا کہ پاکستان چونکہ شدید ترین متاثرہ ممالک کی لسٹ میں موجود ہے لہذا یہاں پر آئندہ سالوں میں مریضوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا شدید اندیشہ ہے جسے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اہم جانتے ہوئے مسائل کے تدارک کے پروگرام پر جانفشانی سے کام کیا جا ری کر دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو بیماریوں سے محفوظ بنانے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر ممکن مدد فراہم کر سکے۔

ہماری زمین پر عالمی درجہ حرارت میں دن بدن تبدیلی آ رہی ہے، یہ گرم ہوتی دنیا اب براعظم انٹار کٹیکا تک کو اپنی لپیٹ میں لینے کو بے تاب ہے، گلیشیئرز کے گلیشیئرز پگھل کر سمندروں کی سطح بلند کر رہے ہیں، عالمی کلائمٹ چینج اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت انٹارکٹیکا میں 141میٹرک ٹن برف سالانہ پگھل رہی ہے جس کے باعث گزشتہ بائیس برسوں میں سمندروں کی سطح میں13.75ملی میٹر اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ ایک سو پچیس سالوں کے گرم ترین سالوں 2010ء تا2015ء میں 33ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور آئندہ سالوں میں خوفناک حد تک خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔پاکستان میں گزشتہ سال کلائمٹ چینج کے باعث آنے والی گرمی کی شدید لہر کے باعث انیس سو افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئی،صرف بیس جون2015ء کو ریکارڈ کئے گئے درجہ حرارت کے مطابق کراچی میں113فارن ہائیٹ ۔سبی ،لاڑکانہ اور تربت میں 120فارن ہائیٹ جبکہ حیدر آباد میں109اور نواب شاہ میں111فارن ہائیٹ جبکہ ملتان اورلاہور میں108فارن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا، کراچی میں آنے والی ہیٹ ویوو سے ایک ماہ کے دوران بارہ سو نوے افراد کی ہلاکت اور صرف ایک روز کے دوران تین سو افراد کی ہلاکت ایک خطرے کی گھنٹی ہے جو رواں سال لاہور کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار ہے،جس کے لئے حکومتی سطح پر ابھی سے اقدامات نہ کئے گئے تو رواں سال رمضان المبارک میں لاہور کے شہری بھی کراچی جیسی آفت ہیٹ ویوو سے سخت متاثر ہو سکتے ہیں۔

تھنک ٹینک جرمن واچ نے اپنے سالانہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو دنیا کے ان دس خطرناک ممالک میں شامل کیا ہے جو 1994ء سے 2013ء کے درمیان دنیا بھر میں موسمی شدت کے باعث سخت ترین متاثرہ ہیں۔حکومتی سطح پر کوششیں اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے پھیلنے والے اثرات کو روکنے کے لئے بھی جامع مدد فراہم کی جا رہی ہے ، یہ نہ صرف بیرون ملک بلکہ پاکستان میں بھی کارپوریٹ اداروں کے سماجی ذمہ داری کے پروگرامز میں گزشتہ سالوں کی نسبت واضع فرق دیکھا گیا ہے ، ٹیلی نار اس ضمن میں پاکستان میں ماحولیات اور ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے آگاہی پروگرام پر کام کر رہا ہے، جبکہ کوکاکولاپاکستان میں پانی کے پروگرام کو وسعت دے رہا کہ نچلی سطح پر صاف پانی پہنچا کرآلودہ پانی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں کا تدارک ممکن ہو سکے ،جبکہ اس ضمن میں نیٹ سول ٹیکنالوجیز کے سی ای او سلیم غوری نے روزنامہ پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیٹ سول پاکستان کی واحد آئی ٹی ٹیکنالوجیزکمپنی ہے جو پاکستان اور بیرون ملک اپنا مقام رکھتی ہے،لیکن پاکستان میں ماحول دوست دفتر کی تعمیر کی گئی ہے ،جہاں ایک چھت تلے قدرت سے قریب تر ماحول قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سلیم غوری کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف بجلی کا خرچ کم ہو گا بلکہ آلودگی میں کمی کے عالمی پروگرام میں پاکستان کی نمائندگی ہو گی، سی ای او نیٹ سول سلیم غوری نے کہا کہ اگر بڑے ادارے اپنی ذمہ داریاں سمجھیں تو دیگر مقامی ادارے بھی اس سمت متوجہ ہو ں گے جو ہمارے بچوں کے مستحسن مسقبل اور آئندہ نسلوں کے لئے خوش آئند روش ہے۔

دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے، گرم ممالک میں موسموں کی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے جبکہ سرد ممالک میں موسموں م کے بدلنے سے سردیوں کا دورانیہ سکڑ کر کم ہو گیا ہے، اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ دنیا کے باسی ترقی کے نام پر اپنی موت کا سامان خود پیدا کر رہے ہیں ، جس سے زمین کا درجہ حرارت بدستور بڑھتا جارہا ہے۔ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے ہم یہ بھول چکے ہیں کہ زمین پر جس طرح ہم آج زندگی بسر کر رہے ہیں آئندہ نسلوں کے لئے گزارنا مشکل ہو گا، عالمی طور پر مشترکہ کوششوں کا مقصد بھی زمین کی بہتری کے لئے کچھ کرنا ہے ورنہ ہمیں اپنے بچوں کے لئے قدرتی آفات سے بچانے کا سامان نا پیدہو جائے گا۔حقیقت اس سے مختلف نہیں کہ دنیا میں جہاں ایک جانب امن تار تار ہے وہاں ماحول بھی درجہ حرارت کی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے، اب تو شائید اس پر بھی اسی مستعدی اور جانفشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے دنیا میں امن کے قیام کے لئے متحرک ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کو در پیش ماحولیاتی قتل عام سے بچانااتنا ہی اہم اور لازمی جز بن گیا ہے کہ اب یہ ہماری بقا ء کی جنگ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے