بے چارے سیاست دان

پاکستان میں سیاست دان بھی کتنی مظلوم مخلوق ہے جس کو دیکھو لٹھ لے کر قوم کا ؛درد دل؛ رکھنے والے ان عوامی نمائندوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ سارے قانون،ضابطے اور اخلاقی معیارات صرف انہی کے لیے ہیں جو خود قانون سازی کرتے ہیں۔ ہر کوئی توقع رکھتا ہے کہ کوئلوں کی دلالی جیسا کام کرنے کے باوجود سیاست دان اتنے ؛پوتر؛ ہوں کہ وہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔ راست گو اور پکا مسلمان ہونے سے لے کر صادق اور امین ہونے تک ساری بند شوں اور حدود و قیود پر پورا اترنا بھی انہی کے لیے فرض عین ہے ۔ روز مرہ امور کی انجام دہی میں بھی وہ اتنے با کردار ہوں کہ ؛اخلاقیات؛ کا ؛گھنٹہ گھر؛ نظر آئیں ۔وہ تو خود کو چاہے عوام کے نمائندے سمجھیں یاں نا سمجھیں لیکن عوام چونکہ انہیں اپنے ؛ قیمتی؛ ووٹ سے منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجھتے ہیں اس لیے انہیں اپنا ؛ نمائندہ؛ قرار دے کر ان پر استحقاق جتانا بھی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔

جنہیں عوام اپنا حصہ سمجھتے ہوں ،انہیں اپنی قبیل سے مانتے ہوں ،وہ اگر ؛ خواص؛ کا روپ دھار لیں گے، ان کا رہنا سہنا۔ کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا ،اوڑھنا،بچھونا برتر نظر آئے گا تو وہ ؛ایلینز؛ لگیں گے۔ کوئی بھی سیاست دان بھلا ایسا کیوں چاہے گا کہ اس کا عوام سے ناطہ ٹوٹ جائے ، جن کے دم قدم یعنی ووٹ سے اس کی دنیا شاد اور آباد ہے وہ ان سے دوری اختیار کر کے اجڑ جائَے ۔ اس کی مت ماری ہے کہ وہ بر تر نظر آنے کے چکر میں اقتدار کی صورت میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دے۔ اسےکسی باولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ خود ڈھنڈورا پیٹتا پھرے کہ وہ اعلی سماجی رتبے پر فائز ہے اور اسے اس منصب پر پہنچانے والے سب کمتر ہیں ۔وہ کیا شیزوفینیا کا شکار ہے کہ بھول جائے اس کی جڑیں عوام میں ہیں ،ایسا ممکن نہیں بلکہ ان سیاست دانوں کو ہم سب کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ وہ میرے اور آپ جیسے عام انسان ہیں، انہیں کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ان کےمسائل بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔ ان کے بارے میں ایسی بے پر کی اڑائی جاتی ہے کہ ان کا تعلق ؛ایلیٹ؛ کلاس سے ہے یا وہ ؛خواص ؛ میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے بارے میں قائم ایسی اول فول آراء یا بے تکے تاثر کو رد کرنے کے لیے ان بے چارے سیاست دانوں کو ہر سال اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کرا کے خود اپنی اور عوام کی نظر میں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔

سیاست دان ہونے کے جرم کے باعث وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی قائم نہیں رکھ سکتے۔ برا ہو عوامی نمائندگی کے ایسے ایکٹ 1976 کا جس کی دفعہ 12 کی ذیلی دفعہ 2 ایف کے تحت پہلے انہیں انتخابات میں حصہ لیتے وقت کاغذات نامذدگی میں اپنی کسمپرسی کی داستان بیان کرنا پڑتی ہے اور پھر رکن سینیٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کی صورت میں اسی منحوس ایکٹ کی دفعہ 42 اے کے تحت انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ہر سال نہ صرف اپنی بلکہ اہلیہ اور زیر کفالت بچوں کی مالی حیثیت بیان کر کے سر بازار اپنا گریبان چاک کرنا پڑتا ہے۔ اچھی بھلی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ والی زندگی کا سارا کچا چٹھا بیان کر کے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہر چکمتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ سبکی اور کیا ہو گی کہ یہ تک ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ بس نام کے میاں، ڈار،چوہدری،خان،لغاری،مزاری، گیلانی،مولانا، سید،بلوچ وغیرہ وغیرہ ہیں جن کے بچے تو کیا ان کے زیر کفالت ہوں گے وہ خود بچوں کے زیر سایہ ہیں اور ان سے ؛ادھار؛ یا ؛ تحفہ؛ لے کر پرورش پا رہے ہیں۔ ان بے چارے سیاست دانوں کو تو ہر سال اپنے رشتہ داروں اور احباب کے سامنے بھی ناک کٹانا پڑتی ہے کہ وہ جن چمکتی دمکتی ؛امپورٹڈ؛ گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہیں وہ تو بس ایسے شو شا ہی ہے حقیقت میں تو وہ گاڑیاں کسی نے ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہو کر یا تو تحفے میں دی ہیں یا اللہ واسطے تب تک استعمال کرنے کے لیے دے رکھی ہیں جب تک اقتدار کا سورج غروب نہیں ہو جاتا۔ حالیہ گوشواروں کے مطابق ایسے بے چاروں کی تعداد قومی اسمبلی میں 111 اور ایوان بالا میں 35 ہے اور ان میں وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر، مولانا فضل الرحمان،ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان، سابق وزیر اعظم میر طفر اللہ جمالی،محمود خان اچکزئی،حمزہ شہباز،مولانا شیرانی،پرویز رشید،کامل آغا، راجہ ظفر الحق،نزہت صادق، نعمان وزیر،محسن عزیز اسلام الدین شیخ اور ایسے ایسے پردہ نشینوں کے نام ہیں کہ ان کی ؛پسماندگی؛ کی تفصیلات دیکھ اور سن کر آپ کو بھی ان پر ترس آ جائے۔

اس سے زیادہ بے چارگی اور مفلسی اور کیا ہو گی کہ عوام کے 446 نمائندوں میں سے دو تہائی کے پاس عوام کی اکثریت کی طرح سر چھپانے کو اپنی چھت تک نہیں ہے۔ سر پہ جس چھت کا سایہ ہے وہ یا تو آبائی ہے یا وراثت کا انتقال ہی نہیں ہوا۔ سیاست دان ہونے کی شاید یہ قیمت بھی چکانا پڑتی ہے کہ زمین،جائیداد،گاڑی،زیورات یا دیگر اثاثہ جات کی مالیت کوڑیوں کے بھاو ہوتی ہے ، کئی کئی کینال پر محیط عالی شان محل ہو یا چمکتی دمکتی مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو ،بھلے رینج روور جیسی انتہائی لگژری گاڑی ہو یا برانڈڈ فرنیچر ،ہیرے جواہرات سے جڑے زیورات ہوں یا رولیکس جیسی گھڑیاں قیمت صرف چند لاکھ روپے ہی ہوتی ہے۔ غلطی سے کوئی درج کی گئی قیمت پر خریدنے کی خواہش ظاہر کردے تو سیاست دانوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والی بات ہے کیوں کہ یہ سب ان کے پرکھوں کی نشانیاں ہیں جن کی ان کے نزدیک کوئی ؛ قیمت؛ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ تو سب انمول ہیں جن سے انہیں ؛ جذباتی ؛ وابستگی ہوتی ہے۔ اسی جذبے کے پیش نظر سابق وزیر اعلی چوہدری پریز الہی نے تو ظاہر کی گئی جائیداد کی جو قیمت درج کی ہے اس کے سامنے نمایاں الفاظ میں نوٹ بھی تحریر کیا ہے کہ اس قیمت پر یہ قابل فروخت نہیں ہے۔ بے چارے سایست دانوں پر سب سے ؛گھٹیا؛ الزام جو عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے ،ایسے الزامات عائد کرنے والوں کو پہلے ان مظلوموں کے گوشوارے تو دیکھنے چاہئیں ،ان میں سے اکثریت کا تو نہ کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی ذریعہ آمدن۔ وزیر اعظم سے لے کر تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ تک کسی کے گوشواروں کی جانچ پڑتال کر لیں بس زرعی زمین سے تھوڑی بہت جو آمدنی آ جاتی ہے اس پر وہ جتنا ٹیکس بنتا ہے؛ ایمانداری؛ سے ادا کر دیتے ہیں ۔ اور یہ تو اللہ کی ؛خاص برکت؛ اور ؛ دین ؛ہے کہ کوئی کاروبار یا قابل ذکر آمدنی نہ ہونے کے باوجود سیاست دانوں کے مجموعی اثاثے سالانہ بنیادوں پر پھل پھول جاتے ہیں اس لیے اس پر حسد نہیں بلکہ رشک کرنا چاہئیے۔

خان صاحب کو ہی دیکھ لیں سال 2013 میں ان کے اثاثوں کی مالیت محض 5 کروڑ 93 لاکھ روپے تھی جوما شاء اللہ اس سال بڑھ کر 1 ارب 18 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔ ایسے ہی ؛برکت؛ جاری رہی تو وزارت عظمی کے امیدوار کے اثاثے وزیر اعظم پاکستان کے اثاثوں کے مساوی 1 ارب 33 کروڑ تک بھی پہنچ جائیں گے لیکن خان صاحب خیال رکھیں وزارت عظمی ملنے کے بعد اثاثے کم بھی ہو جاتے ہیں جیسے جناب نواز شریف کے اثاثے سال 2013 میں 1 ارب 82 کروڑ روپے کے تھے جن میں گزشتہ دو سال میں تقریبا 50 کروڑ روپے کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ اوپر بیان کی گئی رام کتھا کے بعد بھی سیاست دانوں کی ؛حالت زار؛ سمجھ نہ آئے تو جمشید دستی کا گوشوارہ دیکھ لیں جس کے پاس کل جمع پونجی صرف 2 ہزار 653 روپے ہے اور وہ صرف سیاست دان ہونے کا بھرم قائم رکھنے کے لیے پجارو میں گھومتا اور عوام کی خدمت کرنے کے لیے مظفر گڑھ میں بس چلاتا ہے۔اس لیے ایسے ہی ہر وقت بے چارے سایست دانوں کے پیچھے لٹھ لے کر نہ پڑے رہا کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے