امان اللہ خان : ایک عہد جو تمام ہوا

امان اللہ خان کی وفات کے ساتھ تاریخ کشمیر کا ایک باب بند ہوا۔ وہ 24 اگست1931 کو گلگت (استور)میں میں پیدا ہوے ، 1940 میں بغرض تعلیم ہنڈواڑہ گے۔ ان کی دو ہمشیرگان بانڈی پورہ میں بیاہی ہوی تھیں۔ 1952 میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی لا کالج میں داخلہ لیا 1957 میں گریجویشن کیا۔

1962 میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کرنے کی بجاے درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1963 میں چند کشمیریوں بشمول جی ایم لون، پیر مقبول گیلانی، میر قیوم وغیرہ کے ساتھ مل کر کشمیر انڈیپنڈنٹ کمیٹی بنائی اس کے بانی سیکرٹری بنے۔

شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے بعد آزاد کشمیر میں 1965 میں قائم ہونے والی تنظیم محاذ رائے شماری کے سیکڑٹری جنرل منتخب ہوے۔

raja muzaffar

میری ان سے پہلی ملاقات 1968 میں ہوئی اور پھر یہ تعلق ذاتی نوعیت کے تعلقات میں بدل گیا ۔ 1970/72 میں وہ گلگت بلتستان جیل میں تھے ۔رہائی کے بعد راولپنڈی آئے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھیوں پر چلائے جانے والے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد تنظیمی پر ایک جمود سا آیا۔

 

 

وہ 1976 میں انگلینڈ چلے گے اور میں سعودی عرب۔ میرا ان سے وہاں سے مسلسل رابطہ رہا اور 1977 میں انہوں نے جے کے ایل ایف کی بنیاد رکھی ۔ 1982 میں آزاد کشمیر و پاکستان میں محاذ رائے شماری کی شاخیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا . راقم نے ان کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ۔ مگر بعد ازاں ہاشم قریشی اور ڈاکٹر فاروق حیدر کے اصرار پر میں نے بھی شمولیت اختیار کی ۔ پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوا پھر سینئر وائس چیر مین ۔

انہیں 1985 میں برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 1986 مین انہیں پاکستان ڈیپورٹ کیا گیا۔ 1993 میں وہ برسلز میں گرفتار ہوے تو میں اس وقت ان کے ہمراہ برسلز میں ہی تھا ۔ مجھے ساتھیوں نے کہا کہ میں فوری طور پاکستان جا کر تنظیم کے معاملات سنبھال لوں .

میں نے قائمقام چیئرمین کی حیثیت سے ان کی رہائی کیلئے ایس ایم ظفر ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کیں ۔ اور سردار عبدالقیوم خان نے ایس ایم ظفر کے تمام سفری اخراجات حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے ادا کیے۔ ایس ایم ظفرصاحب نے اپنی فیس نہیں لی۔

1992 میں انہوں نے سیز فائر لاین کال کے موقع پر جس میں میرا بھانجا بھی شہید ہوا مجھے اپنا جانشین مقرر کیا جو ان کا میرے پر اعتماد کا مظہر تھا۔ 1994 میں راقم نے ان کے اور یاسین ملک کے درمیان پیدا ہو جانے والے اختلافات ختم کرانے کیلے لندن اور سعودی عرب کا دورہ کیا ۔

اس وقت میں لندن کیلئے محو پرواز تھا . لندن پہنچ کر علم ہوا کہ تنظیم ٹوٹ چکی ہے ۔ یاسین ملک کو تنظیم سے نکالا گیا تو میں نے ان کے فیصلے کی تائید کرنے سے انکار کر دیا ،جس کی وجہ سے انہیں بہت دکھ پہنچااور مجھ سے فون پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔

مجھے بھی ان سے نارضگی کا قلق رہا . جب انہوں نے یاسین ملک سے اتحاد کیا تو میں نے ہی پہل کرتے ہوے فون پر انہیں مبارکباد دی ۔ سچ یہ ہے کہ وہ مجھے خفا خفا لگے اور اس خفگی میں ہی اس جہاں فانی سے رخصت ہو گے ۔اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے . یااللہ ان کے سب کبیرہ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما اور انہیں مغفرت میں بدل دینا . اللہ اِن کی مغفرت فرمانا۔ قبر کی سختیوں سے دور رکھنا .

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اِن پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ۔آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے