مرد و عورت کے مصافحے کی بحث اور غامدی صاحب کے شاگرد

مرد اور عورت کے درمیان مصافحے کے حوالے سے جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرد اپنے اس احساس کے باوجود کہ غامدی صاحب سے غلطی ہوئی ہے، پوری تندہی سے ان کا دفاع کر رہے ہیں اور تقاضا ان کا یہ ہے کہ غامدی صاحب سے نرمی نہ کی گئی تو وہ ان کا ویسے دفاع جاری رکھیں گے جیسے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے اکابرین کا کیا ہے۔ اس دھمکی کا کسی نے اثر نہ لیا اور استاد کے خلاف لے بڑھی تو اس دھمکی کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا گیا بلکہ اس میں ضرورت سے زیادہ ردعمل نظر آیا۔ غامدی صاحب کے دفاع میں فقہا و محدثین کی رائے اور صحابہ کرام کے واقعات بھی ایسے بیان کیے گئے جیسے کہہ رہے ہوں تسلی ہو گئی اور غامدی صاحب پر تنقید سے باز آتے ہو یا اور بھی بیان کریں۔ یہ طرز عمل خود حاملین فکرغامدی کی اس دلیل کے خلاف ہے جو وہ ائمہ حدیث اور فقہا کی آرا کو رد کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے جیسے انسان ہیں ، ان کی شخصی رائے ہے اور اس سے مختلف رائے اختیار کی جا سکتی ہے۔ افسوس کہ شاگرد حضرات اپنے استاد کے معاملے میں ان کے غلطی پر ہونے کے احساس کے باوجود ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر سکے، ائمہ و فقہا کے باب میں وہ جس کے طالب ہیں۔

مصافحے کے جواز اور اپنے استاد کی رائے کے حق میں شاگرد حضرات اب تک کوئی ٹھوس دلیل پیش کر سکے ہیں نہ تائید میں کوئی اچھا جوابی مضمون ہی لکھ سکے ہیں۔ حرمت کے حوالے سے کسی نص کی عدم موجودگی کی بات تو کی گئی مگر اس کی حلت کےلیے کوئی نص پیش نہیں کی گئی۔ اگرچہ احادیث اور حضور نبی کریم ﷺ کے عمل سے حرمت پر مبنی استدلال پیش کیا جا سکتا ہے مگر کچھ دیر کےلیے نص نہ ہونے کی بات کو بطور دلیل مان لیا جائے تو کیا یہ عقل کا تقاضا نہیں کہ ایک چیز جب اپنی حلت و حرمت کے حوالے سے مشتبہ ہوجائے تو اس کی حلت و جواز کےلیے کوئی نص پیش کی جائے، ظاہر ہے کہ ایسا کچھ پیش کرنا ممکن نہیں ہے نہ اب تک پیش کیا جا سکا ہے۔ اس صورت میں دوسری بات خود بخود قوی ہو جائے گی جس کے لیے کچھ نہ کچھ بہرحال دلیل کے طور پر موجود ہے اور دین کا عمومی مزاج جس کی تائید کرتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کے مصافحے سے اجتناب کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ نے ایسا احتیاطا کیا تو اس احتیاط کےلیے بھی کوئی دلیل موجود ہونی چاہیے؟ آپ ﷺ جس چیز کو ناپسند کرتے مگر جواز کی کوئی صورت ہوتی تو ایک دفعہ ایسا کر لیتے کہ امت حرام نہ سمجھ لے، اگر یہ جائز ہوتا تو کم از کم ایک دفعہ ہی آپ عورت کا ہاتھ ہاتھ میں لے کر بیعت لیتے جو کہ مردوں کے حوالے سے معمول تھا۔ ایسا کرنا اس لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ آپ شہوت عدم شہوت کی بحث سے پاک تھے۔

شاگرد حضرات اپنے استاد کے حق میں اب تک کل ملا کر لونڈیوں کے ٹٹولنے کو ہی بطور مثال پیش کر سکے ہیں، حالانکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ بات تو آزاد عورت کی ہو رہی ہے اور اس کے احکام لونڈی سے مختلف ہیں، شریعت نے ستر سے لے کر حدود تک اپنے احکامات و ہدایات میں اس فرق کا لحاظ کیا ہے، اس فرق کو جانتے ہوئے اس طرح کا استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سماں ایسے باندھا گیا ہے جیسے آزاد عورت اور لونڈی میں کوئی فرق نہیں، اور لونڈیاں بھی جیسے گلیوں میں ہر آتے جاتے سے ہاتھ ملاتی اور اٹکھیلیاں کرتی پھرتی تھیں، دین سے متنفر طبقہ شاگرد حضرات کی اس منظر کشی سے خوب محظوظ ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ منظر کشی پہلی دفعہ دیکھی سنی ہے کہ اب تو آزاد عورت کو بھی اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ لونڈیاں بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں بلکہ اس وجہ سے کہ اسلام اور معتلقین کی ان کے خیال میں بیچ چوراہے مٹی پلید ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے مختلف مباحث میں الجھنے کے بجائے ایک سادہ سی بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ٹٹولنا عام حالات کے بارے میں نہیں ہے، یہ اس زمانے اور خاص حالت سے متعلق ہے جب لونڈیاں ایک جنس کے طور پر منڈی میں فروخت ہوتی تھیں، یہ ٹٹولنا یا چھونا منڈی سے متعلق ہے، باہر سے نہیں۔ منڈی میں بھی خریداری کے بعد خیار مجلس کی اجازت کی وجہ سے، جن فقہا نے جنس یا مال ہونے کی حیثیت کو سامنے رکھا، انھوں نے چھونے کی اجازت دی، جنھوں نے دوسری رائے اختیار کی انھوں نے اس کی نفی کی۔ بطور جنس خریداری کی وجہ سے لونڈی کی حیثیت ملک کی ہے اور اس سے بغیر نکاح کے ہم بستری جائز ہے۔ اب کیا اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ آزاد عورت سے بھی بغیر نکاح یہ سب کرنا جائز ہے؟ صورت تو اس کے الٹ ہے کہ اگر ایسی لونڈی سے زنا کر لیں جو آپ کی ملکیت نہیں ہے تو زنا کی حد جاری ہو جائے گی جیسا کہ ایک صحابی ماعز اسلمی پر جاری ہوئی۔ صحابہ کرام کے حوالے سے جو واقعات بیان کیے جا رہے ہیں ، وہ لونڈیوں سے متعلق ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ آزاد عورت کی مثال پیش کی جاتی یا کوئی نص بطور دلیل لائی جاتی۔ اگر غامدی صاحب کے شاگردوں کے بقول روایتی انداز میں مخالفت نہ بھی کی جائے تو بھی ان کے شاگرد جو استدلال لا رہے ہیں وہ بطور استدلال بھی کوئی استدلال نہیں ہے۔

جس دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ نظر نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے، ایک نظر غیر ارادی طور پر پڑ جائے تو دوسری ارادی نظر کو گناہ تصور کرتا ہے، جو زنا جیسے کبیرہ گناہ کی نوبت آنے سے پہلے اس کے ممکنہ ذرائع و امکانات کو مسدود کرتا ہے اور اسی تناظر میں جس دین میں نظر، زبان اور اعضا کے زنا کا تصور موجود ہے، اس میں اگر کوئی نص موجود نہ بھی ہوتی تو بھی شہوت کی عدم موجودگی کے بہانے سے اختلاط اور زنا کا راستہ کھولنے سے احتیاط برتی جاتی۔ نص نہ ہونے (جو کہ درست نہیں ہے) کو دلیل بنا کر اگر کوئی مصافحے سے آگے بڑھ کر معانقہ کر لے تو اس کے بارے میں کیا کہیے گا؟ مصافحے کے بارے میں تو پھر بھی ممنوع ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں، معانقے کے بارے میں تو ایسے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ بعض ممالک میں ایک دوسرے کا بوسہ لینا رواج کا حصہ ہے تو اس سے کیونکر روکا جا سکے گا۔

ایسے افکار پر تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے کسی اعتراض کے سامنے ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور اس کا سامنا کرنے کے بجائے ان معاملات میں حلت کا فتوی دینے میں جلدی کی جاتی ہے جیسے خود کو اس پر مجبور پاتے ہوں۔ اسی انداز فکر کی وجہ سے اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ پہلے مغرب ، عقل اور فطرت کے نکتہ نظر سے ایک مقدمہ قائم کیا جاتا ہے اور پھر اس کے حق میں قرآن و سنت سے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ انفرادیت کے شوق میں دین کی روح مسخ ہو رہی ہے اور مغرب سے متاثر ہو کر یا اس سے مطابقت کے شوق میں اسلام کا جو ورژن پیش کیا جا رہا ہے، اس میں سب حلال ہی حلال ہے، احتیاط کیا، حرام کا تصور ہی اس میں مفقود ہو کر رہ گیا ہے تو وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب سے متاثر سیکولر طبقے اور مرعوبین کے لیے سب حلال پر مبنی اسلام ان کے سکولرازم کے قریب تر ہے اور اسے وہ ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

خطا انسانی فطرت کا حصہ ہے، کوئی بھی مسلمان گناہ کا ارتکاب کر سکتا ہے مگر حلال و حرام اور گناہ و ثواب کا تصور اس کے لیے واپسی کا در کھلا رکھتا ہے۔ گناہ سرزد ہونے پر دل و دماغ میں غلطی کے احساس پر مبنی ایک خلش اور کشمکش موجود رہتی ہے، یہی خلش اسے توبہ پر مجبور کرتی اور اللہ کے در پر واپس لے آتی ہے۔ سب حلال والا فارمولہ اس خلش کو مٹانے کی ایک کوشش، اور اسلام کے پردے میں مغربی تہذیب کی وہ خدمت ہے جو خود اس تہذیب کے فرزندوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

اصلا تو یہ بات ہے ہی نہیں کہ غامدی صاحب نے کوئی نئی بات کہی ہے تو قابل گردن زدنی ہیں اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج کر دینا چاہیے، ابھی تک تو اس ساری بحث میں کوئی ایسی کوئی بات نظر سے نہیں گزری ۔ نہ کسی نے یہ کہا ہے کہ فقہا نے کسی معاملے میں رائے پیش کی ہے تو وہ حرف آخر ہے، ان سے اختلاف نہیں ہو سکتا اور ایسی جسارت کرنے والا کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔

فقہ ارتقا اور تسلسل کا نام ہے اور ہے ہی اس لیے کہ ہر زمانے میں پیش آنے والے نئے سے نئے مسائل کو سامنے رکھے اور قرآن و سنت کی روشنی میں تطبیق پیدا کرتے ہوئے اس کا جواب دے۔ آپ چاہیں جس فقیہ پر تنقید کریں ، جس کی رائے سے اختلاف کریں، چاہیں تو دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیں، کس نے اس کا برا منایا ہے یا منع کیا ہے جو بار بار یہ دلیل بطور دفاع استعمال ہو رہی ہے۔ اختلاف کوئی ایسی بری چیز ہوتی تو انھی فقہا میں استاد اور شاگرد کا اختلاف تو بالکل نہ ہوتا۔ شاید ہی کوئی شاگرد ایسا ہو جس نے تمام مسائل میں اپنے استاد کی رائے سے اتفاق کیا ہو۔ کسی نہ کسی مسئلے میں رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے اور ہوا ہے۔ اور پھر یہ تو کوئی ایمان و عقیدے کا مسئلہ ہے بھی نہیں کہ اس پر کفر و ایمان کا معرکہ لڑا جائے، اسے گھمسان سے تشبیہ دی جائے اور تاک تاک کر نشانے بازی کی جائے اور اس پر داد کا طالب ہوا جائے۔ یاد آیا کہ ہمارے وہ سیکولر دوست اور ملحدین بھی اس بحث سے خاص قسم کا مزا کشید کر رہے ہیں یا کہیے کہ چس لے رہے ہیں جو بالعموم ایمان و عقیدے کے مباحث پر بھی یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور مولویوں کو دیکھو کس مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی محل نظر ہے کہ غامدی صاحب کے جواب میں فقہا و محدثین کو اکابر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، گاہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جیسے وہ غامدی صاحب کے ہم عصر اور فی زمانہ موجود ہیں، ان کے مقابلے میں افکار پیش کر رہے ہیں، ان کے چاہنے والے غامدی صاحب پر تنقید کر رہے ہیں اور ان پر لگی چوٹ سے ان کو تکلیف ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، وہ کسی فرقے یا مکتب فکر کے نہیں امت کے اکابر ہیں، ان کی اکابریت بھی مگر اب کتابوں تک رہ گئی ہے، عام لوگ تو ان کے نام بھی نہیں جانتے، ان کے افکار سے بھی واقف نہیں۔ ان پر تنقید سے کیا مشتعل ہوں گے۔ اکابر کے نام پر غصہ دلانا ہے تو غامدی صاحب کے ہم عصروں پر چوٹ کیجیے۔ جنھیں آپ دوسروں کے اکابر کہہ رہے ہیں، وہ تو آپ کے بھی اکابر اور علم و تحقیق کا منبع ہیں، اگلے لفظوں میں آپ بھی انھیں اپنا اکابر کہہ کر اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

اس بحث میں اصل نکتہ یہ ہے کہ فقہا و محدثین کو ایک طرف رکھیے صحابہ کرام کو بھی اپنے جیسا انسان قرار دے کر جب آپ تنقیدی آرا پیش کرتے ہیں اور اس پر برداشت کی تلقین بھی کرتے ہیں تو غامدی صاحب کے افکار پر تنقید سے آپ کی برداشت کیوں جواب دے جاتی ہے۔ جب صحابہ کرام کے الفاظ و معاملات پر اخیر کر دتی جے یا فقہا کو اس لذیذ موضوع کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا تھا، جیسے کمنٹس دیکھنے کو ملیں ، اس سے حظ اٹھایا جانے لگے، ملحدین اس پر چسکے لیں اور ایک لحاظ سے اس پر لڈیاں ڈالیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ فقہا کو تو چھوڑیے، دیکھیے ان کے صحابہ بھی کس قماش کے لوگ تھے، تو لوگ اس کا جواب کیوں نہ دیں گے۔

استاذ کے معاملے میں آپ کے برف جیسے ذہن اشتعال کا شکار ہو کر پگھلنے لگتے ہیں اور ردعمل سے ایسے لگتا ہے جیسے ان کی تقدیس حرمت کے درجے میں چلی گئی ہے تو دوسروں پر اعتراض کیوںکر کیا جا سکتا ہے۔ فقہا و محدثین اور صحابہ کرام بھی ہمارے جیسے انسان ہیں اور تنقید سے مبرا نہیں ہیں تو استاذ کب سے فرشتہ ہو گئے کہ ان کے افکار پر تنقید نہ کی جا سکے یا یہ کہا جائے کہ تنقید اور اختلاف کرنے کےلیے ان کے شاگرد کافی ہیں ، دوسروں کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا (شاگردوں کی پوسٹس اور کمنٹس سے یہ احساس ہوا ہے)۔ استاذ کو بھی انسان سمجھیے اور تنقید برداشت کیجیے۔ یہ دھمکی نما دعوی کہ استاذ پر تنقید ہوئی تو اکابر یعنی کہ فقہا اور ایک درجے میں صحابہ کرام کو بھی بیچ چوراہے کھڑا کر دیں گے اور ایسے بیان کریں گے کہ منہ چھپانا مشکل ہو جائے گا (بار بار کے دعوے اور پوسٹس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے) بذات خود کمزوری کی دلیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ غلطی تو تسلیم کر رہے ہیں مگر اس پر تنقید کا حق نہیں دے رہے اور جواز یہ ہے کہ فلاں محدث اور فلاں فقیہ سے بھی تو اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے اور اس نے فلاں صحابی کے واقعے سے استنباط کیا ہے تو اصلا غلطی کے مرتکب تو وہ صحابی بھی ہیں، پہلے ان سے نمٹ لو یا برات کا اظہار کر دو پھر اس طرف آنا ۔ فقہا نے اپنے زمانے، وقت اور حالات کے اعتبار سے استنباط کیا ، فتوے دیے، بعض قابل قبول ہوئے، بعض نہیں ہوئے اور ایک رائے کے طور پر رہ گئے، بعد کے زمانے میں کسی نے انھیں دلیل نہیں بنایا۔ مگر کیا یہ بات درست نہیں کہ خود انھی کے زمانے میں اگر کسی کو فتوی غلط محسوس ہوا تو اس سے اختلاف کیا گیا اور مقابلتا فتاوی جاری کیے گئے۔ جس کے دلائل مضبوط تھے وہ آج تک مقبول ہے جس میں کمزوری تھی، اسے خود اس زمانے میں قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

غامدی صاحب کی آرا میں بھی قوت ہوئی تو جلد یا بدیر قبولیت عامہ حاصل ہو جائے گی (میڈیائی قوت کے بےتحاشا استعمال کے باوجود اب تک تو نہیں ہو سکی ہے) اور نہ ہوئی تو تاریخ میں ایک رائے کے طور پر پڑی رہ جائیں گی مگر ذرا حوصلہ کیجیے، انھیں بھی ہمارے جیسا انسان سمجھیے اور ان کے افکار پر تقنید کا حق دیجیے اور برداشت کیجیے۔ جواب دینا ہے تو دلیل اور ٹھنڈے دماغ سے دیجیے (جواب جو کہ اب تک نہیں آیا)، سیاستدانوں جیسا لب و لہجہ نہ اپنائیے کہ پہلے اپنی کرپشن کا حساب دو، پھر ہم سے بھی لے لینا۔ ہمارے سکینڈل پر بات کرو گے تو تمھارے بھی میڈیا میں اچھالیں گے۔ یہ رویہ سیاستدانوں کو زیبا ہے، علم و تحقیق سے شغف رکھنے والے حضرات علمائے کرام کو نہیں۔

لونڈیوں کے معاملے میں فقہا سے جہاں غلطی ہوئی ہے یا اسلام ان کے ساتھ سلوک میں جس زیادتی کا مرتکب ہوا ہے، یا شرع نے جہاں نا انصافی کی ہے تو تحقیق کیجیے اور اسے واضح کر دیجیے، ایک کتاب اگر اسی موضوع پر ہو جائے تو سارا معاملہ الم نشرح ہو جائے، اس میں کوئی رکاوٹ ہے نہ کسی نے فقہا کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے سے منع کیا ہے بلکہ اسے آپ کی علمی خدمت کے طور پر یاد رکھا جائے گا، مگر استاذ کے دفاع میں اسے دلیل بنائیں گے تو اسے اشتعال پر مبنی ردعمل سمجھا جائے گا، جواب نہیں۔ اس پر تحقیق کے موتی رولنے کا موقع تو ہر وقت کھلا ہے، پہلے بھی بعد میں بھی، خاص موقع پر بالخصوص دھمکی دے کر کیوں اس کا استعمال کیا جائے اور اپنے تئیں گرد اڑا کر اصل مدعے پر بات کرنے سے کیوں پہلوتہی کی جائے۔ آپ کے نزدیک ان کی بات درست ہے تو اپنے دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیجیے۔

یہ بات درست ہے کہ غامدی صاحب پر تنقید میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہیے نہ فتوے کی زبان میں بات کی جانی چاہیے مگر جب تسلسل سے تفردات سامنے آئیں گے (جو کہ ان کا حق ہے) تو جواب بھی اسی تسلسل سے آئے گا۔ شاذ رائے کے مقابلے میں زیادہ آرا کا سامنے آنا فطری ہے، ایسے میں شدت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے مگر اس سے گھبرائیے نہیں نہ وہ رویہ اختیار کیجیے جو بوکھلاہٹ محسوس ہوتا ہے۔ جواب دینے والے بھی انسان ہیں، علم و جذبات میں یکساں نہیں ہیں، زبان و بیان میں اونچ نیچ ، شدت یا سختی ہوگی، اپنے اصول کے تحت اسے برداشت کجیے۔

پس تحریر – مصافحے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث میں ایک چیز حیران کن رہی کہ عام نوجوانوں نے بھی اس کا رد کیا، جو کہ حوصلہ افزا اور خوشی کی بات ہے

[pullquote]نوٹ[/pullquote]

آئی بی سی اردو آزادنہ مکالمے کا پلیٹ فارم ہے. ہر شخص اپنا نقطہ نظر آزادی سے بیان کر سکتا ہے تاہم ہماری ادارتی پالیسی دو نکات پر مبنی ہے . الزام ثبوت کے ساتھ، بات دلیل اور شائستگی کے ساتھ . اس مضمون کے جواب میں کوئی صاحب سنجیدگی سے لکھنا چاہیں تو ادارہ انہیں خوش آمدید کہے گا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے