ڈاکٹر دُر مُش بُلگُر….آں ترکِ شیرازی

ترکی کانام سنتے ہی جانے کیوں ایک وجد آفریں احساس کی خوشبو دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ کر مسمریزم کی طرح ایک نئی دنیا کی پرکیف فضاو¿ں میں اڑا لے جاتی ہے۔ شہپرِ تصور اناطولیہ (ترکی کا وہ حصہ جو براعظم ایشیا میں واقع ہے، جسے تاریخ میں ہم ”ایشیائے کوچک“ یعنی چھوٹا ایشیا کے نام سے جانتے ہیں۔ ترک اور عربی زبان میں اسے اناضول کہاجاتا ہے) کے جنوب مشرق سے شمال مغرب کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے تو شمال سے بحیرہ اسود، قریب ہی جنوب میں واقع بحیرہ روم اور مغربی پہلو میں ایک محبوب کی طرح سکون سے لیٹے ہوئے بحیرہ ایجئین سے اٹھنے والی شمیم جانفزا پرِ پرواز میں نئی تب و تاب پیدا کردیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دل و دماغ کی اسکرین پر اولو العزم سلجوقوں اور عثمانیوں کی شاندار تاریخ کی دستاویزی فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ ”تصورِ جاناں“ کا سفرِ شوق جوں جوں آگے بڑھتا ہے چپے چپے سے پھوٹنے والی خوشبوئیں یہ کہتے ہوئے اک شانِ دلربائی کے ساتھ دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں کہ جا این جا است، مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کے ہاتھ دل کا سودا کیا جائے۔ آپ ایک منظرِ خوش نظر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو دسیوں دوسرے حسین مناظر ”سرِ خود نہادہ برکف“ کی محبوبانہ کیفیت میں سامنے آجاتے ہیں ۔ ترک و اختیار کے اسی شش و پنج اور مختلف ادوار میں صفحہ¿ تاریخ پر اپنی الو العزمی کا نقش ثبت کرنے والی عظیم ترک اقوام کی ترکتازیوں کی حسین یادوں میں وان اور ارضروم سے گزر کر ”زندہ رود“ کا براقِ اشتیاق جب قونیہ کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو فضا میں حضرت جلال الدین رومی کے انفاس کی تقدیس آگیں مہک روح تک میں سرشاری و سرمستی اتار دیتی ہے اور ایسی وارفتگی ”جسمِ خیالی“ کو محیط ہوجاتی ہے کہ اس پر بے اختیار رقصِ درویش طاری ہونے لگتا ہے ۔ پرواز کیف و مستی کی اس حالت سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپاتی کہ کفِ دستِ ساقی چھلک پڑتا ہے اور آن کی آن میں انقرہ اپنی عطر بیز بانہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔ انقرہ…. جی ہاں وہی انقرہ، جو تاریخ میں ”انگورہ“ کے نام سے ہمارے جذبوں کو مہمیز دیتا ہوا بازنطینی رومیوں کے مقابل خود کو فنا کرکے امر ہوجانے کے احساس سے دوچار کرتا رہا ہے۔

ڈاکٹر دُر مُش بُلگُر
ڈاکٹر دُر مُش بُلگُر

اس سمے وقت تھم سا جاتا ہے۔ درخشاں ماضی کا ایک روشن جھروکا کھل جاتا ہے۔ یہ محتشم عباسی خلیفہ معتصم باللہ کا دور ہے۔ ایک بے نام سی شکایت موصول ہوتی ہے کہ بازنطینی سلطنت کی حدود میں ایک مسلمان لونڈی نے رومی شہری کے ہاتھوں تھپڑ کھا کر خلیفہ اسلام کا نام لے کر مدد کے لیے دہائی دی ہے۔ معتصم بے آسرا لونڈی کا ”بدلہ“ لینے کے لیے بے چین ہوکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو بازنطینی سلطنت کی حدود میں یہی ”انگورہ“ سب سے پہلے اس کے قدم چومتا ہے اور بغیر کسی کشت و خون کا موقع دیے خود کو اسلام کی آغوش میں دے دیتا ہے۔ ترک قوم کی عظمت کے تابندہ نقوش میں محویت کے اسی عالم سر مستی کے دوران ہی فضا میں ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم شہر کے آثار ہویدا ہوجاتے ہیں، جو تاریخ پر گہرا نقش چھوڑنے والی عظیم مشرقی رومی (بازنطینی) سلطنت کا بھی عظیم شہر رہا ہے۔ جی ہاں دو عظیم بر اعظموں میں پھیلا ہوا گنبدوں کا شہر: عظیم استنبول۔ وہ شہر جس کی گود میں تاریخ پروان چڑھی، قوموں نے جینے کا ہنر سیکھا اور دنیا پر اپنی عظمت کی دھاک بٹھائی۔قسطنطنیہ سے استنبول بننے کا تاریخی عمل جیتے جاگتے انداز میں احساسات کی دنیا میں ہلچل مچارہا ہے، چشمِ تصور محوِ تماشا ہے، آٹھ صدیاں جس شہر کی فتح کی آرزو کو پالتے ناتمام حسرتوں کی دھواں ہوگئیں، آج عظیم ترک قوم کا عظیم سپوت سلطان محمد الفاتح عسکری تاریخ کا محیر العقول کارنامہ انجام دے کر اس کی شہر پناہ کے سائے میں میزبانِ رسول ابو ایوب انصاریؓ کی مرقد پر مختصر حاضری دینے کے بعد فتح و ظفر کا پرچم اٹھائے قسطنطنیہ میں داخل ہوکر رسول خدا کی بشارت سے سعادت اندوز ہورہا ہے۔ ایا صوفیا کے ہال میں تاریخ جُون بدلتی ہے اور قسطنطنیہ میں عظیم بازنطینی مشرقی رومی سلطنت کے ملبے پر عظیم استنبول کی نیو اٹھتی ہے۔ عثمانی اپنی سلطنت کے ساتھ ساتھ اس شہر کی عظمت کا ڈنکا بھی چار دانگ عالم میں بجا دیتے ہیں۔

وقت کروٹ بدلتا ہے۔عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹ پڑتا ہے۔ ایک مختصر مدت کے لیے استنبول شہرِ آشوب بن کر اسلامیانِ عالم کو خونِ ناب رونے پر مجبور کرتا ہے۔اس شہر کا سقوط ملت اسلامیہ کے غیر مختتم سقوط کا سر نامہ بن جاتا ہے۔ عراق کے صدام دور کے مسیحی المذہب وزیر خارجہ جناب طارق عزیز یاد آگئے۔ عراق کویت جنگ کے دوران جنیوا کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے جناب طارق عزیز کو مخاطب کرکے دھمکی دی کہ اگر عراق نے امریکی شرائط تسلیم نہ کیں تو اس پر ایسی بمباری کردی جائے گی کہ وہ پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔ طارق عزیز نے نہایت تحمل سے جیمز بیکر کی لن ترانی سنی اور سوال کیا: ”مسٹر بیکر! آپ کے ملک کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟“ جیمز بیکر نے پر رعونت لہجے میں جواب دیا: ”دوسو یا اڑھائی سو سال….“ طارق عزیز نہایت پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے: ”مسٹر بیکر! ہماری تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ہم تاریخ میں کئی بار پتھر کے دور میں بھیج دیے گئے، مگر ہر بار ہم ایک نئے جذبہ تعمیر، نئے عزم اور ولولے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے….“ استنبول بھی اس خرابی کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کی عظمتِ رفتہ کے ملبے پر جدید ترکی کی عظیم الشان عمارت کھڑی کردی گئی۔ وقت کا پہیہ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، اس شہر کی عظمتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ یورپ جس کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی پر دنیا کی رال ٹپکتی ہے، آج میری ملت کے درخشاں ماضی کا یہ عظیم سرمایہ، میرا استنبول اسی یورپ کا ثقافتی دار الحکومت باور کیا جاتا ہے۔ خدا اس کے دامنِ عظمت کو ہفت افلاک کی بے کراں وسعتیں عطاءکرے۔

استنبول مرکزِ ثقلِ نگاہِ عاشقاں، شہرِ شکوہ و جلال اور باسفورس کی وہ سدا بہار دلہن بحیرہ مرمرہ اپنے مرمریں پانی سے جس کے پیر دھونے کی خدمت پر مامور ہے۔ جس کا حسن صدیوں کے پھیرے میں کبھی ماند نہیں پڑا۔ یقینا یہ شہرِ نگاراں اس قابل ہے کہ دل کی ساری دولت اس پر وار دی جائے۔ اس شہر کے رومیلی حصار کی جادوئی غلام گردشوں سے نکل کر تخیل کی پرواز اسی ”عالم میں انتخاب“ کا درجہ رکھنے والے شہر کے یورپی حصے کی معطر فضاو¿ں میں داخل ہوجاتی ہے۔ استنبول کا یہ حصہ ”رومیلیا“ کہلاتا ہے۔ اس کی شان ہی الگ ہے۔ اس کی ہر ادا البیلی ہے۔ رومیلیا میں داخل ہوتے ہی اچانک ”یلدرم“ یعنی اک برق سی دماغ میں کوند جاتی ہے اور یورپ کی سمت سلطان بایزید یلدرم کی برقِ رفتار فتوحات کی تاریخ کا در وا ہوجاتا ہے۔ دل اس سلطانِ عالیشان کی کامرانیوں کے سرور میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ اچانک ”گرجستان“ کی سمت سے پر ہول گرد و غبار کا سرخ طوفان خوابناک انہماک کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ بایزید یورپ سے رخ پھیر کر پشت پر پڑنے والے اس وار کی طرف پلٹتے ہیں۔ گردو غبار چھٹتا ہے تو اس میں سے تیمورِ لنگ کی ڈراو¿نی صورت بر آمد ہوتی ہے۔ انگورہ یعنی موجودہ ترک دارالحکومت انقرہ میں میدان لگتا ہے۔ قسمت بے وفائی کرتی ہے۔ بایزید جس کی تلوار کی چمک نے اسے یلدِرِم بنایا تھا، اس وحشی فاتح کے ہاتھوں قید ہوجاتا ہے۔ عثمانیوں پر پہلی بار عظیم کوہِ غم ٹوٹتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یورپ کی طرف اسلام کے بڑھتے فاتحانہ قدم رک جاتے ہیں۔ کہتے ہیں تیمور کی ہوسِ ملک گیری کے نتیجے میں یورپ پچھم کی طرف چلنے والی اسلام کی پروائی ہواو¿ں کے لمس سے محروم ہوگیا اور مغربی یورپ (ہسپانیہ) کی اسلامی سلطنت کا دفاع بری طرح کمزور ہوکر رہ گیا۔ انہی ملے جلے احساسات کے ساتھ تخیل رومیلیا کی پر بہار فضاوں میں آگے بڑھتے بڑھتے خطہ بلقان کی سرحد تک پہنچتا ہے اور ساتھ ہی ترکی کا طائرانہ خیالی سفر نقطہ انتہا کو چھولیتا ہے۔

متنوع انقلابات کی امین ترک سرزمین اب ایک عرصے سے ہنگامہ عالم سے بے نیاز تعمیر و ترقی اور استحکام کی منزل کی طرف نہایت خاموشی سے کامیابی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ وہ ترکی جو کبھی یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا اور یورپی برادری میں شامل ہونے کی عرضی لے کر یورپ کے چودھردیوں کی دہلیز پر لگ بھگ ایک صدی تک کھڑا رہا اور ان کی ہر شرط بلا چوں چرا قبول کرنے اور خود پر لاگو کرتے چلے جانے کے باوجود اسے یورپی برادری میں شامل کیے جانے کے قابل نہیں سمجھا گیا، آج یہ دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ وہی یورپی برادری ترکی کی مضبوط معیشت کا سہارا حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف نگاہِ آز سے دیکھ رہی ہے۔

اس کامیابی اور کامرانی کے پیچھے ترک قوم کے جوہرِ قابل کی جہد مسلسل اور عملِ پیہم کا ہاتھ ہے، یہ وہ عظیم قوم ہے جس کا ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ جامعہ استنبول کے شعبہ اردو کے صدر جناب پروفیسر خلیل طوقار کی طرح ڈاکٹر دُرمش بُلگُر بھی اسی اولو العزم قوم کے قابل فخر سپوت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی لاہور کی کلیہ علوم شرقیہ کی جلال الدین رومی چیئر کے سربراہ ہیں اور اردو زبان پر گہرا عبور رکھتے ہیں۔ وہ 1968ءمیں جنوب مشرقی ترکی کے نسبتاً کم مشہور مگر تاریخی شہر قازیان تپ میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور تعلیم کا آغاز کیا۔ حصول علم کے باقی مدارج انہوں نے دار الحکومت انقرہ میں طے کیے۔ خدا جانے ان کے دل میں اردو سے محبت کی جوت کیسے اور کس شبھ گھڑی (ہماری نسبت سے) میں جاگی ، وہ دن آج کا دن اردو اور ڈاکٹر درمش بلگر صاحب روح و رواں بن چکے ہیں۔ اپنی قوم اور ملت پر فخر اور اس سے غیر مشروط وفاداری تو ہر ترک باشندے کی طرح ڈاکٹر صاحب کی بھی گھٹی میں پڑی ہے، مگر ہمارے لیے قابل رشک امر یہ ہے کہ وہ ہماری اردو زبان سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ یہ اردو سے ان کی بے پناہ محبت اور تعلق خاطر کا ہی نتیجہ ہے، جو انہوں نے ترکی کے غیر موافق ماحول میں رہتے ہوئے اردو سیکھ کر شیریں کے لیے جوئے شِیر کھود نکالنے کا کارِ فرہادی انجام دیا۔ حصول علم سے فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحب جامعہ استنبول کے شعبہ اردوسے منسلک ہوئے اور گیسوئے اردو کو نہایت فدویانہ جذبے سے اپنا شانہ فراہم کیا۔ ترک طلبہ کو اردو کی تدریس کے ساتھ انہوں نے زبان کی متنوع خدمات سے بھی اہل اردو میں نام پیدا کیا۔ آج اردو سے ان کی بے لوث محبت اس صورت میں سامنے آئی ہے کہ وہ اردو زبان میں کئی اہم کتابوں کے مصنف، مترجم، مرتب اور مولف ہیں۔

ڈاکٹر صاحب علم و ادب کے متنوع مشاغل کے ساتھ مقامی اردو ذرائع ابلاغ کے توسط سے اپنے گراںقدر خیالات کی ترسیل میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عراق اور شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کا اثر و نفوذ بڑھنے کے بعد سے خطے کے کئی ملکوں میں بد امنی کے مختلف مظاہر نے عدم استحکام اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ان سلگتے حالات کی آنچ ترکی میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کردوں کی شوریدہ سری میں خطے میں جغرافیائی تقسیم کی در پردہ منصوبہ بندیوں کے زیر اثر پیدا ہونے والی نئی شدت و حدت بھی ترکی کے لیے بڑا درد سر بنی ہوئی ہے۔ تیسرا مسئلہ جناب رجب طیب ایردوغان کی قیادت میں بر سر اقتدار اسلام پسند پارٹی (اے کے پی) کی تقریباً ڈیڑھ عشرے سے کامیابیوں کا تسلسل بھی ہے، جو ترکی میں پٹی ہوئی سیکولر سیاسی جماعتوں اور ان کے عالمی ہوا داروں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے، چنانچہ عموماً ان تین مسائل و معاملات کے ضمن میں ترکی پوری دنیا میں میڈیا کے توسط سے رائے عامہ میں زیر بحث آتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا چونکہ تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی طرح ایسے تمام معاملات کی جانکاری کے سلسلے میں مکمل طور پر مغربی میڈیا پر انحصار کرتا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ پیشہ ورانہ مہارت (دیانت نہیں) کے ساتھ بالخصوص ترکی کے مسائل سمیت دلچسپی کا اسلامی پہلو رکھنے والے کسی بھی معاملے کو اپنی مخصوص عینک سے Anglise کرتے ہیں، جس کا احساس کیے بغیر پاکستان کا نام نہاد آزاد میڈیا ابلاغ بلکہ جگالی کرتا ہے، جس سے متعلقہ ملک، ادارے یا معاملے کے بارے میں بیشتر منفی امیج Buildہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر درمش بلگر صاحب عموماً اپنے وطن مالوف سے متعلق ایسی منفی رخ پیش کرنے والی خبروں کو احقاقِ حق کے تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں اور ہمارے میڈیا کے اس رخِ کردار پر اظہار افسوس کرتے ہیں، جو بجا طور پر ان کا حق ہے۔

ڈاکٹر دُرمش بُلگُر خوبصورت نثر کے ساتھ اہل زبان کے لہجے میں نستعلیق اردو بول بھی لیتے ہیں۔ موبائل فون پر ان سے پہلی بار ہم کلام ہوا تو کافی دیر تک بے یقینی کی کیفیت میں گفتگو میں سکتہ پیدا کرکے خود کو یقین دلانے میں مگن رہا کہ یہ واقعی ترک نژاد ڈاکٹر درمش ہیں؟! خدا ان کا سایہ سلامت رکھے اور انہیں مضامینِ نو اور نوع بہ نوع کا انبار لگاتے چلے جانے کی ہمت و توفیق ارزاں کرے۔ گزشتہ دن ہمیں اچانک ڈاکٹر صاحب کی بے پناہ شفقت سے دوچار ہونا پڑا۔ گھر سے دفتر آیا تو ایک خوبصورت پیکٹ میرا منتظر تھا۔ یہ اندازہ تو دیکھتے ہی ہوا کہ کتابیں ہیں۔ جی ہاں کتابیں۔ علم و دانش سے کسی بھی درجے میں ربط ضبط رکھنے والے کسی بھی شخص کی سب سے مرغوب غذائے فکر و نظر۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔ مرسل کا نام پڑھنے کی نیت سے پیکٹ پر نگاہ ڈالی تو جا بجا آڑے ترچھے تھپے ہوئے ٹکٹ اور نام و پتے کے حاشیوں اور بین السطور تک میں بد سلیقگی کے ساتھ ٹھکی ہوئی مہریں محکمہ ڈاک کی بدترین کور ذوقی کا اعلان کررہی تھیں۔ عالم یہ تھا کہ میرے لیے ٹکٹوں اور مہروں کے اس جنگل میں مرسل کا نام و پتا تلاش کرنا وقت کا ضیاع معلوم ہوا اور بے صبری کے ساتھ پیکٹ کا پیٹ چاک کرتے ہی بنی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ چپڑی اور دو دو کی جگہ پانچ پانچ کے مصداق پوری پانچ عدد کتابیں میرے سامنے تھیں اور یہ دیکھ کر تو خوشی کا ٹھکانا ہی نہ رہا کہ مرسل کوئی اور نہیں، گرامی مرتبت ڈاکٹر درمش بلگر صاحب ہیں اور انہوں نے کسی اور کی نہیں، اپنی ہی جگر کاوی کا ماحصل خلوص آمیز شفقت کے ریشم میں لپیٹ کر ذرہ نوازی فرمائی ہے۔

یہ پانچ کتابیں غالباً ڈاکٹر صاحب کی فنی مہارت کا اب تک کا سرمایہ ہیں۔ ان کتابوں میں ”مشاہیرِ ترک“طبع زاد اور سب سے ضخیم ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے معروضی انداز میں اختصار کے ساتھ بیسویں صدی تک اناطولیہ میں گزرے مشہور علمائے دین، دانشوروں، سائنس دانوں اور صوفیائے کرام کے حالات زندگی اور ان کے علمی، عملی اور فنی کارنامے بیان کیے ہیں۔ کتاب تفصیل سے پڑھنے کا ابھی موقع ہاتھ نہیں آیا ہے، تاہم ڈاکٹر صاحب کی جانب سے ”اناطولیہ“ کی تصریح و تحدید سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ صرف ان ترک مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے جو ایشیائے کوچک کے خطے میں گزرے ہیں۔ اگر یہ احساس درست ہے تو اس کی وجہ صاف اور واضح ہے۔ اس خطے کی تاریخ اسلام میں خاص اہمیت رہی ہے اور یہاں سے علم و فن کے وہ آفتاب و ماہتاب اٹھے ہیں، جن سے ایک عالم نے ضیاءپائی۔ دوسری کتاب ”گم شدہ گلاب“ ہے۔یہ دراصل معروف ترک ادیب سردار اوزکان کے ایک بیسٹ سیلر ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں میں انتیس زبانوں میں اس کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔ ترجمے میں طبع زاد تحریر کی جو خوبیاں لازمی سمجھی جاتی ہےں، ان کی خوشبو ”گم شدہ گلاب“ میں بہ کمال و تمام محسوس کی جاسکتی ہے۔ ”گم شدہ گلاب“ کے مطالعے سے محسوسات کے تُرک اظہاریے کے سلیقے اور ترک ادب کی چاشنی سے بھی آشنائی ہوجاتی ہے۔ اس خوبصورت ترجمے میں قبلہ ڈاکٹر درمش بلگر صاحب کے ساتھ جناب نعیم بٹ بھی شریک رہے ہیں۔

”مولانا رومی اور دیار رومی“ اور ”شروح و شارحین مثنوی¿ رومی“ڈاکٹر صاحب کی دو مختصر مگر گراںقدر تحقیقی کتابیں ہیں۔ اول الذکر میں صوفی  جلیل مولانا جلال الدین رومی کے مستند حالات زندگی، ان کی تصانیف اور ان کے شہر قونیہ کی مختصر تاریخ اور احوال پر جامع انداز میں دادِ تحقیق دی گئی ہے۔ کتاب کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ قونیہ شہر کے مختلف اہم اور قابل دید مقامات کا تازہ تصاویر کی پیش کش کے ساتھ تعارف کرایا گیا ہے۔ ثانی الذکر کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مثنوی¿ رومی کی ترک زبان میں مختلف شروحات اور شارحین کا تذکرہ ہے۔ یہ کتاب بھی ڈاکٹر صاحب کے ذوقِ تحقیق کی آئینہ دار ہے۔ پانچواں تحفہ جو ہمیں موصول ہوا، وہ ہمارے لیے حقیقی معنی میں نعمت غیر مترقبہ ہے۔ ”ترکی زبان“ نامی ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب اردو میں ”زبانِ یارِ من“ (ترکی) سکھانے کی عمدہ کاوش ہے۔ نعمت غیر مترقبہ اس لیے کہ میں ذاتی طور پر ترکی اور ترک قوم کے ماضی اور حال کے مطالعے سے خصوصی لگاو کے باعث اندر ہی اندر ایک عرصے سے ترکی زبان سیکھنے کا داعیہ محسوس کر رہا تھا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عالمِ شوق میں کس بے تابی سے اس کتاب کو ہم دست کیا گیا ہوگا۔ یہ تمام کتابیں کلیہ علوم شرقیہ، جامعہ پنجاب نے اپنے روایتی اعلیٰ معیار کے ساتھ نہایت اہتمام سے شائع کی ہیں۔

بہر حال مختصر جائزے سے اندازہ ہوا کہ موضوع کوئی بھی ہو، ڈاکٹر در مش بلگر کی نثر کی یہ خوبی ہر تحریر میں نمایاں ہے کہ وہ سادہ اورآسان زبان میں اپنی بات اور خیال پیش کردیتے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے، جو لکھتے لکھتے آتی ہے اور صاحب تحریر کی فنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔حافظ نے توبشرطِ دل بستگی ”ترکِ شیرازی“ کے خط و خالِ خد پر سمرقند و بخارا قربان کرنے کا اعلان کردیا تھا، جبکہ ہمیں ڈاکٹر درمش بلگر کی صورت میں ترکِ اصیل کی رعنائی خیال اور حسنِ کمالات کی چکا چوند کا سامنا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے