عمران خان اپنی قوت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

سوشل میڈیا کے مستقبل اور اہمیت پر ہمارے ہاں زیادہ بات نہیں ہوتی، ابھی تک بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو غیر سنجیدہ اور وہاں جانا تضیع اوقات سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مستقبل میں سوشل میڈیا مرکزی اہمیت اختیار کر جائے گا۔ مین سٹریم میڈیا پر کئی طرح کے حکومتی اور کارپوریٹ دباﺅموجود ہیں، اس لئے بعض مواقع پر عوام جو چاہ رہے ہوتے ہیں، وہ نہیں مل پاتا۔ سوشل میڈیا ابھی تک دباﺅ سے بے نیاز ہے، اگرچہ سائبر کرائم بل کے بعد یہ خطرہ موجود ہے کہ اسے سوشل میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔سوشل میڈیا کی دو تین خامیاںہیں، وہ دور ہوجائیں تو اس کی افادیت بڑھ جائے گی۔ ایک تو فیس بک فیک آئی ڈی ختم کرنے کا کوئی طریقہ نکالے۔

یہاں بے بنیاد خبریں اور تصاویر بھی بلادھڑک شیئر کرنے کا رجحان ہے، کوئی اطلاع اچھی طرح چیک کئے بغیر آگے بڑھائی جا سکتی ہے نہ ہی اسے چھاپنا ممکن ہے، تیسرا مسئلہ فیس بک ، ٹوئٹر پر لکھنے والوں پر کسی چیک کا نہ ہونا ہے۔یوں کوئی چاہے تو اپنی آزادی کی حد دوسرے کی ناک تک بلکہ اس سے آگے بھی لے جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی اسی دنیا میںمگربڑی عمدہ، سنجیدہ اور معیاری تحریریں بھی لکھی، پڑھی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں پر تو ایسے کوالٹی کے کمنٹس اور بحث ملتی ہے کہ آدمی اش اش کر اٹھتا ہے۔ اس کے لئے مگر یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے حلقے تک محدود نہ رہیں، اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے کو ایڈ بھی کریں او ر اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھی بھیجیں۔

آج کل فیس بک بلاگنگ عروج پر ہے، جسے مائیکرو بلاگنگ کہا جاتا ہے، مگر یار لوگ اردو لکھنا سیکھ گئے ہیں تو وہ فیس بک پر کالم جتنا یا اس سے کچھ زیادہ بڑا بلاگ لکھ ڈالتے ہیں۔جسے وال پر لگانے کے ساتھ مختلف ویب سائیٹس کو بھی بھیج دیتے ہیں۔گزشتہ روز ایک معروف فیس بک بلاگر” وسی بابا“ کا عمران خان کے حوالے سے تجاویز پر مبنی بلاگ پڑھا۔ اس بلاگ میں کئی ایسی باتیںہیں جو پاکستان تحریک انصاف اور ان کی قیادت کو توجہ سے دیکھنا چاہئیں۔ زبان اس کی فیس بک کے رجحانات کے مطابق بے تکلفانہ اور تیکھی ہے۔ وسی بابا لکھتے ہیں:”عمران خان اپنی پارٹی کو ایک منظم سیاسی مشین نہیں بنا سکا۔ اس نے تبدیلی کا ایک اچھا نعرہ تو دیا ہے۔ اس تبدیلی کی تعریف نہیں کر سکا۔ وہ یہ بتانے میں بھی ناکام ہے کہ اس کا پروگرام ہے کیا۔ اب ایسے میں سوال ہے کہ کپتان ایسا کیا کرے کہ اس کی طاقت ووٹ میں ڈھل جائے۔کپتان کی طاقت یہ ہے کہ اس کے جلسوں میں لوگ بندھے چلے آتے ہیں۔ اس نے کرپشن کو ایک بڑا ایشو بنا دیا ہے۔ لوگ اس کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ دھاندلی کا اتنا شور مچایا ہے کہ واضح برتری سے جیتنے والے امیدوار بھی شرمندہ سے پھرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو کپتان کا علاج سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں کیسے کریں؟پھر بھی کپتان ناکام ہے۔ اس کی ناکامی مسلسل ہے۔ اگر حکومت بنانی ہے تو الیکشن جیتنا ہو گا۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں چند ایک سیٹوں کو چھوڑ کر کسی بھی سیٹ سے الیکشن بنایا اور جیتا جا سکتا ہے۔ کپتان کی مسلسل ناکامی کی وجہ الیکشن جیتنے کی حکمت عملی نہ ہونا ہے۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ کہنا ہو گا کہ کپتان کی کوئی سیاسی حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ وقتی مسائل اس کی ڈرائیونگ فورس ہیں، غلطیوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ دوسرے کی غلطیوں کا انتظار کرنے کی ضرورت ہی نہیں اگر اپنا لانگ ٹرم منصوبہ موجود ہو۔

”خواتین کی ایک بڑی تعداد اس کی حمایت کرتی ہے، خواتین پاکستان کی آبادی کا بھی نصف ہیں اور بطور ووٹر بھی ان کی تعداد تقریباً آدھی ہے۔ خواتین روایات کو نظرانداز کر کے کپتان کے جلسوں میں آتی ہیں۔ کپتان کو چاہیے کہ گھر سے نکل کر حمایت کے لئے باہر آنے والی اس طاقت کے لئے اپنا پروگرام دے۔ تبدیلی کے لئے باہر نکلنے اور ساتھ چلنے پر آمادہ آبادی کے اس حصے کے لئے کچھ اچھے قوانین کا مطالبہ بھی کرے اور کے پی کے میں ان کا اعلان بھی کرے۔ مثال کے طور پر خواتین مستقل عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں، جب گھر سے باہر آتی ہیں۔ پولیس کو پابند کر دے کہ خواتین کی شکایت پرانہیں تنگ کرنے والے کو فوری جرمانہ کیا جائے۔

” پاکستان میں بہت سارے طاقت کے مراکز ہیں۔ مغربی ممالک ہیں امریکہ ہے۔ یہ سب چین کے پاکستان میں منصوبوں کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ کپتان اس میں ایسا موقف اختیار کر سکتا کہ اسے ان جگہوں سے حمایت ملے۔ یہ فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔ کونسی جگہ سے اسے حمایت درکار ہے ،کونسی جگہ اسے مخالفت کرنی ہے۔

” نوازشریف کپتان کے اصل حریف ہیں۔ انکا اداروں سے تصادم مستقل رہتا ہے۔ کپتان تصادم کی وجوہ سمجھے اور اداروں کی پسندکے مطابق پالیسی ترتیب دے لے۔ زیادہ سے زیادہ حمایتی ہی بنانے ہیں۔ طاقت کے جتنے مراکز ہیں ان میں سے جتنے زیادہ کو اپنی سائیڈ پر لائے گا اتنی ہی جیت آسان ہو گی۔ نوازشریف اگر بھارت کے ساتھ تعلقات تیز رفتاری سے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ کپتان کشمیریوں کی مشکلات کا ذکر کرے کہ ان کو سہولت دیے بغیر بھارت سے تعلقات میں پھرتی کی ضرورت نہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے بھی اسے حمایت ملے گی، پنڈی سے بھی اور بھارت سے مہاجر ہو کر آئے اس ووٹر سے بھی جو پنجاب میں آباد ہوا۔ یہ ووٹر نوازشریف کے پیچھے رہتا ہے، اس کے باوجود کہ میاں صاحب کی پالیسی ووٹر کی سوچ سے متصادم ہے۔

”نوازشریف کا سپورٹر اگر بڑا سرمایہ دار طبقہ ہے۔ کپتان نہایت سکون سے انہی سرمایہ داروں کے ملازمین کی مراعات میں اضافے کے
مطالبے کر سکتا ہے۔ دو فائدے لے گا۔ اپنے حلقہ اثر میں سرمایہ دار کپتان کے محتاج ہوں گے۔ انہیں نہ صرف اپنے ملازمین یونین سے معاملات طے کرنے کے لئے کپتان کی ضرورت پیش آئے گی۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ نوازشریف کی حمایت جاری رکھنے میں فائدہ ہے یا پارٹی بدل لی جائے۔

”افغانستان کا ایشو بھی اتنا ہی دلچسپ ہے۔ افغان مذاکرات کی حمایت کرنے پر قوم پرست حلقوں میں ووٹ بنک پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ افغان طالبان کو حق پر قرار دیا جائے تو مذہبی ووٹ ملتا ہے۔ افغان مہاجروں کو پاکستان سے نکالنے کی بات کی جائے تو بلوچ بیلٹ ،کراچی اور سندھ کے ساتھ کافی حد تک کے پی کے میںاچھا خاصا بلاک ووٹ ملتا ہے۔اگر سیاست پنجاب میں ہی کرنی ہے تو دیہی علاقوں کا ووٹ زیادہ ہے۔ کسانوں کے مسائل ہیں۔ پانی کا ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ایک شرپسندانہ قسم کا کام تو یہ بھی ہو سکتا کہ کالاباغ ڈیم کی حمایت کا اعلان کر دے۔ ایسا کر کے پنجاب سے تو ووٹ مل جائے گا۔ مسلم لیگ نون بھی حیران پریشان رہ جائے گی۔ لیکن پھرسندھ سے کسی بھی قسم کا سیاسی فائدہ لینا ایک لمبے عرصے کو بھولنا ہو گیا۔

”سندھ سے یادآیا۔ آصف زرداری کے لئے مستقل ٹینشن بنانی ہے تو نواب شاہ کو ٹارگٹ کر لیا جائے۔ نواب شاہ میں زرداری سب سے کمزور پارٹی ہیں۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہے کہ آصف زرداری تو عمران خان کے ہاتھوں انڈرپریشر ہوں گے ہی ،سندھ کے وڈیرے بھی صورتحال انجوائے کریں گے اور تحریک انصاف کی طرف آئیں گے۔ نوازشریف تو سوچ سمجھ کر آصف زرداری کو نواب شاہ میں تنگ نہیں کرتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر زرداری کو نواب شاہ میں تنگ کیا گیا تو وہ سندھ میں اس قابل ہی نہیں رہیں گے کہ نوازشریف کی سیاسی مدد کر سکیں۔ یہ کام کپتان کر لے اس کو تو ایسی کوئی سیاسی مجبوری نہیں، نہ ہی سندھ میں اس کے پاس کھونے کو کچھ ہے۔

”عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف جلسوں میں بات کر کے کپتان اپنے لئے کام مشکل بنا رہاہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی ٹارگٹ کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ دھاندلی کا زیادہ رونا بھی ووٹر کو بھگاتا ہے کہ جو اپنی سیٹ کی حفاظت نہیں کر سکتا، وہ میرے لئے کیا کرے گا؟ پٹواریوں کے ساتھ دشمنی بھی مہنگی ہی پڑی ہے۔ وہ باجماعت تحریک انصاف کے ووٹ خراب کرتے ہیں۔

”طاقت کے مراکز بیرون ملک بھی ہیں اندرون ملک بھی۔ ان مراکز میں سے بس اتنی حمایت ہی حاصل کرنی ہے کہ کپتان اپنی گیم بنا سکے۔ طاقت کے کسی بھی مرکز کو ساتھ لانے سے ڈیڑھ دو فیصد ووٹ کا فرق پڑتا ہے۔“

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے