قران کریم ، جاوید غامدی اور عقل سلیم

جاوید غامدی صاحب جب کہتے ہیں کہ عورت سے ہاتھ ملایا جا سکتا ہے، تو آپ پر فرض نہیں ہو جاتا کہ آپ سامنے نظر آنے والی پہلی بی بی کا ہاتھ پکڑ کر نعرہ اخوت اسلامی بلند کر دیں۔

اور جب کوئی یہ کہتا ہو کہ میرے خیال میں غامدی صاحب کا نقطہ نظر قابل قبول ہے، تو اسکا بھی ہرگز مطلب نہیں کہ آپ سیدھے اسکے گھر چلے آئیں اور اسکی بیوی یا بیٹی سے ہاتھ ملانے کا اسلامی فریضہ پورا کرنے کی ضد کریں ۔ یا اس کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر اپنی بہو بیٹیوں کو دستانے پہنانا شروع ہو جائیں۔

اللہ نے انسان کو زندہ رہنے کے لیے پانچ حواس عطا کیے۔ جن کی مدد سے وہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ پھر کچھ نہ نظر آنے والے خطروں کے لیے چھٹی حس بھی دے دی۔

لیکن زندگی کے تقاضوں کو اچھے طریقے پر سمجھنے کے لیے، اور اپنا اصل مقصد حیات جاننے کے لیے حواس کے ساتھ عقل دی اور اپنی کتاب میں اسکو استعمال کرنے کی بار بار ہدایت کی۔ عقل کو استعمال کرنے کے لیے اللہ نے انسان میں ایک اور چیز بھی رکھ دی، اور وہ ہے کامن سینس۔ میں اسکو ساتویں حس ہی سمجھتا ہوں۔

میرا خیال ہے، کامن سینس ایک ایسا استاد ہے جو آپ کو زندگی میں بے شمار مغالطوں سے بچا لے جاتا ہے۔ اسکو اردو میں عقل سلیم بھی کہا جاتا ہے، مگر ہمارے ایک دوست کا نام بھی سلیم ہے، اور اس لیے ہمیں عقل سلیم کہتے زرا "وہ” لگتا ہے۔

خیر اگر آپ کے باس عقل استعمال کرنے اور منطق، مسائل، اور ضعیف اور قوی حدیثوں کے انبار میں سے سچ جھوٹ کو نتھارنے کا وقت نہیں تو عقل سلیم کا دامن تو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

سکول کے زمانے میں کچھ ایسے استاد مل گئے کہ جنہوں نے چھوٹے چھوٹے اصولوں کے ایسے چراغ جلا کر ہتھیلی پر رکھ دیے کہ آج بھی راہ میں گھور اندھیرے والا موڑ کبھی نہیں آیا۔

ایسے ہی ایک استاد کے ساتھ پیدل بازار میں سے گزر رہا تھا، اور بحث اسلام پر تھی۔ میں کہہ رہا تھا، اسلام کے ہر حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

استاد ہنسے، بولے، لیکن جگہ مقام اور وقت دیکھ کر۔

میں نے ضد کی، یہ کیا بات کہی آپ نے، اسلام کا ہر حکم ہر وقت اور ہر سیچوئیشن کے لیے ہے۔

استاد پھر ہنسے، اور بولے اسلام میں حکم ہے کہ راہ چلتے ایک دوسرے کو سلام کرو؟

میں نے فورا کہا، با لکل ہے، اور ایسے ہی کرنا چاہیے۔

بولے، وہ دیکھو سامنے سے ایک لڑکی آرہی ہے، اسکی ماں بھی ساتھ ہے۔ اسکو سلام تو کرنا۔ اسلامی حکم سمجھ کر۔

اب میں لاجواب ہو گیا، نہ کرتا تو استاد کی بات ٹھیک ہو جاتی، اور کرتا تو میری ٹھکائی ہو جاتی۔

جیسے ہی وہ ماں بیٹی پاس سے گزریں، تو استاد مناسب آواز میں بولے "اسلام و علیکم”، میں نے حیرت سے استاد کی طرف دیکھا، اور اتنے میں لڑکی کی ماں بولی، "وعلیکم اسلام”۔

انکے جانے کے بعد میں نے استاد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو انہوں نے جو کہا وہ آج بھی میرے لیے ایسا قطبی ستارہ ہے کہ منزل سے بھٹکنے نہیں دیتا۔

استاد بولے، دیکھ بچے، مذہب کا حکم ہو، ماں باپ کی نصیحت ہو، استاد کا کوئی سبق ہو، یا سائینس کا کوئی کلیہ، سب کچھ مناسب حالات، موزوں ماحول اور عامل اور معمول کے باہمی اشتراک عمل پر انحصار کرتا ہے۔ اسلیے زندگی میں کبھی بھی عقل کا استعمال کیے بغیر کوئی حکم یا کلیہ نہ لگانا۔

پھر انہوں نے وضاحت کی کہ، دیکھو، حکم اسلام کا، تم بھی مسلمان، میں بھی مسلمان۔ وہ لڑکی بھی مسلمان، اسکی ماں بھی مسلمان۔ اور راہ چلتے کی شرط بھی پوری۔ پھر بھی ایک بات میرے لیے مناسب اور تمہارے لیے غیر مناسب، بلکہ کسی حد تک نا گوار۔ صرف اور صرف ایک فرق یعنی ہماری عمر کا فرق ایک بات کو میرے لیے صحیح اور تمہارے لیے غلط بنا گیا۔

اسلیے، میرے بچے! ہمیشہ یاد رکھو۔ اللہ ہر بندے پر قران اتار سکتا تھا ، اسکی زات سے کیا ماورا ہے۔ لیکن اسنے ایک برگزیدہ ہستی کو چنا، اور اسکو اپنا حکم سنایا۔ اور اسکو اتنا علم عطا کیا کہ وہ اس قران کے حکموں کو ہمیں کر کے دکھا سکے۔

لیکن۔ ۔ ۔ اتنا کہہ کر استاد رکے اور سانس لے کر میری طرف دیکھ کر بولے، ۔ ۔ لیکن اس پر بھی اللہ نے بس نہیں کیا۔ اس نے ہر انسان کو سر میں دماغ، دماغ میں عقل اور عقل سلیم عطا کی۔ کہ انسان اپنی عقل کو ہمیشہ استعمال کرے اور پھر حکم کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔

میری بھی آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کہ حکم رب کا ہے، فرمان نبیﷺ کا۔ مگر جگہ، وقت، ماحول، اور حالات کے لیے پانچ حواس، چھٹی حس، اس پر عقل اور پھر عقل سلیم کا استعمال کیجیے۔ یہ سب بھی قران کی طرح اللہ ہی کی بھیجی ہوئی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے