مدارس یونیورسٹیوں سےآگے

سماں بالکل ایک کنسرٹ کا سا ہے۔ بہت اونچا اسٹیج۔ طویل و عریض سیاہ پردے۔ کرین والے کیمرے۔ بڑی بڑی لائٹس۔ اونچے چوڑے اسپیکرز۔ بیٹھنے کے لیے صوفے کرسیاں۔ اسٹیج کے عقب میں تیاری کا کمرہ۔ جہاں نقلی داڑھی بھی لگائی جارہی ہے۔ زنانہ لباس۔ برقعے۔

دو سے تین گھنٹے کے پروگرام میں ٹی وی چینلوں کی طرح ٹاک شوز۔ ڈرامے۔ خاکے۔ ملّی ترانے اور آخر میں ایک باقاعدہ قوّالی۔ جو در اصل حالاتِ حاضرہ پر گہرا طنز۔ اور قوّالی کی پیروڈی ہے۔
پکڑی گئی اصلی کرنسی
چل گئے کھوٹے سکّے
آگئے لوٹے۔ چھا گئے لوٹے
جب فراڈ کیا تو ڈرنا کیا
میرا پہلا تاثر یہی ہے کہ دینی مدارس اپنے خلاف پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کے لیے بھرپور تیاری سے میدان میں آگئے ہیں۔ جدید علوم کے ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی ممنوعہ نہیں قرار دے رہے ہیں۔ آج تک جو مسلمانوں پر الزام تھا کہ انہوں نے پرنٹنگ کو قبول نہیں کیا تھا۔ اور بہت پیچھے رہ گئے۔ آج کا دینی طبقہ جدید ٹیکنالوجی سے پوری طرح واقف ہے۔ اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا بھی رہا ہے۔ میں ٹویٹ کررہا ہوں کہ جامعہ بنوریہ العالمیہ میں یہ اسٹیج شو دینی مدارس کے خلاف مختلف قسم کے الزامات کا عملی جواب دینے کے لیے ایک بھرپور علمی۔ تخلیقی۔ تحقیقی اور تکنیکی کوشش ہے ۔ اپنی بات زیادہ وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی۔ سوشل میڈیا۔ کیمرے۔ مائیک۔ اسپیکرز۔ اسٹیج۔ اسکرپٹ اور تصوّراتی تحریر کا کامیاب استعمال ہے۔

پہلے یہ حلقے ایسے مظاہروں۔ تماشوں۔ کوششوں کو لہو و لعب یا لایعنی کہا کرتے تھے۔ لیکن اب انہیں حالات نے یہ سبق دیا ہے کہ یہ آلات۔ ایجادات۔ ٹیکنالوجی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی انسان کو ودیعت کی گئی ہیں۔ ان کا استعمال صرف ناچ گانے کے لیے نہیں۔ اعلائے کلمة الحق کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ پرنٹنگ۔ کمپیوٹر جب قابل قبول ہیں تو ابلاغ کے یہ آلات بھی دینی پیغام کی ترسیل کے لیے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔

میں یہ سمجھ رہا ہوں اور ٹویٹ بھی کررہا ہوں کہ یہ یقیناً Paradigm Shift ہے۔ ایک تاریخ ساز تبدیلی۔ میں اپنے سامنے دینی حلقوں میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ یہاں دوسرے دارُالعلوموں کے محترم و مکرّم اساتذہ بھی تشریف رکھتے ہیں۔ سب یہ طنزیہ خاکے۔ ڈرامے۔ میک اپ۔ نقلی ریش۔ زنانہ لباس میں لڑکے۔ برقع میں نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ اداکاری ہورہی ہے۔ مگر مقصد نیک ہے یہ اسٹیج۔ کیمرے۔ سب کا کرایہ گرانقدر ہوگا۔ لیکن مقصد ارفع ہے۔ اس سے تبدیلی آئے گی۔

زیادہ تر اعلانات عربی زبان میں ہیں۔ لہجہ بالکل سعودی عرب اور مصر والا ہے۔ اُردو میں بھی بعض پیغام دیئے جارہے ہیں۔ لیکن مسرّت اور تعجب اسوقت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جب غیر ملکی طلبہ بہت شستہ اُردو بولتے ہیں۔ ان کا تلفّظ ہمارے صدر۔ وزیرا عظم ۔ وفاقی وزرائ۔ گورنرز۔ وزرائے اعلیٰ سے کہیں زیادہ بہتر۔ ہمارے ٹی وی اینکرز۔ اور نیوز ریڈرز سے کہیں زیادہ دُرست۔ ایک شعبہ بالخصوص اُردو سکھانے کے لیے مختص ہے۔ جبوتی۔ انڈونیشیا۔ تھائی لینڈ۔ فلپائن۔ کمبوڈیا۔ کینیڈا۔ برطانیہ۔ فجی۔ ملائیشیا۔ نائیجیریا۔ کرغیزستان۔ افغانستان۔ بنگلہ دیش ۔گھانا۔ تاجکستان ۔ ویسٹ انڈیز۔ کانگو۔ الجزائر۔ کینیا۔ مصر۔ روس۔ برما۔ سوڈان۔ ماریشس۔ البانیہ۔ سب ہی ملکوں سے آئے ہوئے نوجوان ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض کے اہلِ خانہ بھی یہاں مُقیم ہیں۔ وہ بھی زیرِ تعلیم ہیں۔
فرقوں کی تقسیم ختم کرنے کے لیے ایک امام کے پیچھے مختلف مسالک کے مقتدی بھی نماز پڑھتے دکھائے گئے تقریب میں اگرچہ زیادہ تر دیو بندی مسلک سے وابستہ علما تھے۔ لیکن یہاں سلام بھی پڑھا گیا۔ یا نبی سلام علیک۔ یا حبیب سلام علیک۔ یا رسول سلام علیک۔ صلوٰة اللہ علیک۔

قوّالی بہت اچھی کوشش ہے۔ قراقلی جناح کیپ سر پر۔ گیسو دراز۔ نوجوان بہت اچھی طنزیہ مزاحیہ قوّالی پیش کررہے ہیں۔ منی لانڈرنگ پر بھی طنز ہے۔ لوٹا کریسی بھی ہدف تنقید ہے۔ فراڈ اورکرپشن بھی۔پکڑی گئی اصلی کرنسی۔ چل گئے کھوٹے سکّے۔ پھر لہک لہک کے آگئے لوٹے۔ چھاگئے لوٹے اور ‘انار کلی’ کے گانے جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ کی پیروڈی۔ جب فراڈ کیا تو ڈرنا کیا۔
اس وقت جب ایک افراتفری ہے نفسا نفسی ہے۔ تو دینی مدارس کی طرف سے اپنے بقا کے لیے جنگ لائقِ تحسین ہے۔ صرف جوشیلی تقریریں نہیں کی جارہی ہیں۔ کسی دوسرے مسلک والے کو کافر نہیں قرار دیا جارہا ہے۔ نوجوان طالب علم فرقہ ورانہ یگانگت کی بات کررہے ہیں۔ ویمن پروٹیکشن بل حکومت پنجاب کے خلاف ۔ ایکٹ کے ڈرامے میں عام عدلیہ اور اسلامی عدلیہ کی تقابلی سماعت کے ذریعے اس بل پر تنقید کی گئی ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ دینی مدارس اپنا۔ تنگ دامن وسیع کررہے ہیں۔ پہلے میں جامعة الرشیدیہ میں ایک جلسۂ تقسیمِ اسناد میں شرکت کرچکا ہوں۔ جہاں درسِ نظامی کے ساتھ اب ایم اے۔ ایم بی اے کی کلاسیں بھی ہورہی ہیں۔ دینی اور دنیوی دونوں علوم پڑھائے جارہے ہیں۔ اور بھی کئی مدارس میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جامعة البنوریہ العالمیہ نے پہلے سے انگریزی کمپیوٹر کلاسز شروع کر رکھی ہیں۔ غیر ملکی طلبہ کی معاشرت اور ضرورت کے مطابق رہن سہن کی سہولتوں میں جدّت اختیار کی گئی ہے اب باقاعدہ ایک میٹرو پولیٹن یونیورسٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ اسطرح دینی مدارس خود کفیل ہوجائیں گے۔ یہاں اپنے مشن سے خلوص اور عشق بھی ہوتا ہے۔ طلبہ وطالبات سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔قیام و طعام کی سہولتیں بھی۔ اب جدید علوم کی تدریس بھی ہورہی ہے۔ غیر نصابی سرگرمیاں بھی۔ کھیل ورزش۔ تیراکی بھی۔

پرائیویٹ یونیورسٹیاں اس مقابلے میں پیچھے رہ سکتی ہیں۔ کیونکہ ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ دینی مدارس میں وہی ڈگریاں مفت پڑھ کر مفت رہائش میں مل جائیں گی۔ سب سے زیادہ سرکاری یونیورسٹیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ بلکہ خالی ہوجائیں گی۔ جب سارے دینی مدارس اپنی یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ جدید علوم بھی پڑھائیں گے۔ روزگار کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ یہاں سے فارغ التحصیل دین اور دُنیادونوں سے آگاہی رکھتے ہوں گے۔ عام یونیورسٹیوں کو بھی مقابلے میں دینی تعلیم کا آغاز کرنا پڑے گا۔

مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ دینی مدارس جلد ہی اپنا کوئی ٹی وی چینل بھی شروع کرلیں گے۔ ٹیکنالوجی پر انہیں عبور حاصل ہورہا ہے۔ بولنے والے بھی ہیں۔ تحقیق کرنے والے بھی۔ اپنے خلاف پروپیگنڈے کا مدلّل اور مؤثر جواب دینے کی اجتماعی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
اور کہنے کو بھی بہت کچھ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے