شام کانوحہ ۔۔۔۔۔؟

معافی اے اھل شام معافی
تم کیوں ہمیں جگانے آجاتے ھو ؟؟
ھم مردہ ابدان کو ، کہ جنکے جسم سے روح کب کی پرواز کر چکی ہے۔۔۔۔
ھم برف کی سلوں کی طرح بے حس اور ٹھنڈے ہوچکے ھیں ،تمہارا شور ہمیں سنائی نہیں پڑتا۔۔
ہمیں مگن رہنے دیںو اپنے احوال میں ۔۔۔۔
مستیوں میں ،خوش گمانیوں میں اور غلط فہمیوں میں ۔۔
تمہاری آوازیں ہمارے مردہ ضمیروں کو جگانے کی ناکام سعی کرتی ہیں ۔
راز کی بات سنو گے ؟؟؟؟
یہ آوازیں ہم تک پہنچتی ہیں بغیر کسی رکاوٹ کے ۔۔۔۔۔۔
لیکن ہم جانتے ہوئے انجان بن جاتے ہیں ایک نامعلوم خوف ہمیں گھیرے رکھتا ہے۔۔۔۔۔
تمہیں کیا خبر کہ موت کا، قید اور معاش کا خوف کیسا ہوتاہے؟؟؟؟
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم ہر ایسے معاملے سے بے نیاز ہو چلے ہو ۔۔۔۔۔
لیکن ہمیں زندگی پیاری ہے ۔۔۔ اور دنیا ۔۔۔۔۔ ہاں دنیا کی وہی محبت جو اپنی پوری قوت کیساتھ اجسام سے روح نکال کر دنیا بھر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔
کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہم بہت خوبصورت دنیا میں مگن ہیں۔۔۔۔۔
ہماری دنیا تو غربت ،جھوٹ،مکر اور بے ایمانی سے عبارت ہے جہاں کہیں بدامنی ہے کہیں بیماری ہے۔۔۔ کہیں غربت کہیں لیڈروں کے دھوکے ہیں کہیں کرپشن ہے۔۔۔۔ کہیں فرقے ہیں کہیں شخصیت پرستی ہے کہیں ظالمانہ جمہوریت ہے۔۔۔۔۔
لیکن ، لیکن ان سب کے باوجود ہمیں یہ دنیا عزیز نہیں بلکہ عزیز تر ہے
مت کہو ہمیں اسے چھوڑ نے کو ۔۔۔۔
اپنے حق میں نکلنے کو ۔۔۔۔۔۔
ہماری مجبوری سمجھو ۔۔۔
چلو ہم اپنی جگہ تمہیں رکھ کر نہیں سوچ سکتے تو تم ہی ایسا کرلو ؟؟؟؟
ہماری مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کر و ۔۔۔
اے مظلومو۔۔۔۔۔۔ اے بے کسوں۔۔۔۔۔۔ اے درد کی گٹھری کو ساتھ لئیے پھرنے والو ۔۔۔۔۔۔
تم جانتے ہو کہ میں نظریں چراتا ہوں ۔۔۔۔۔
تمہیں بھلانے کی شعوری کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔
تمہارے سسکتے بلکتے ، لہو میں تراور گرد و غبار سے لتھڑے کلیوں جیسے معصوم چہرے اس وقت میرے سامنے پوری آب و تاب سے آن کھڑے ہوتے ہیں جب میں اپنے بچوں میں مشغول ہوتا ہوں ۔۔۔۔
انہیں آرام پہنچاتا ہوں ۔۔۔۔۔
یخ بستہ کمرے میں آرام دہ بستر پہ ان پہ گرم کمبل ڈالتا ہوں ۔۔۔۔۔
تم نے کس جرم کی سزا پائی ؟؟؟؟
کچھ جانتے ہو ؟؟؟؟
کچھ معلوم ھے ؟؟؟
خبر رکھتے ہو ؟؟؟؟
آہ ۔۔۔ کہ تم امت مرحومہ کے جسد خاکی سے جڑے ہوئے ہو ۔۔۔
وہ امت جو تمہیں بھلا چکی ۔۔
مگر چند غربا ء کے سوا ۔۔۔۔۔۔
جو تم پہ مرمٹے ، لٹ گئے مٹی کا پیراھن ہمیشہ کے لئے اوڑھ چکے ۔۔۔۔۔
آسمان سے گرنے والا بارود جن کا مقدر ٹھہرا ۔۔۔
لیکن وہ ڈٹے رہے ۔۔۔
اگلی صفوں کھڑے رہے ۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کیا پتہ کہ عالمی نزاکتیں کس بلا کا نام ہے؟؟؟؟؟
بین الاقوامی اصول ، تعلقات اور ربط و ضبط کسے کہتے ہیں ؟؟
شام نوحہ کناں ہے ۔حلب جل رہاہے ۔معصو م بچوں کے لاشے تڑپ رہے ہیں ،بھاری پتھروں کے تلے دبے بوڑھے سسک سسک کرزندگی کی دہائی دے رہے ہیں
معصوم بچے سوال کرتے ہیں کہ روس اورایرانی جہازوں پراندھادھندبمباری کرنیوالو !یقیناہم جیسے معصوم پھولوں کو جنت میں پہنچاکر تمہاری روح کو تسکین مل گئی ہوگی؟ عالم برزخ سے ان معصوموں کے سستے چیختے سوالات کانوں میں گونجتے ہیں تو دل بے چین ہوجاتا ہے آنکھیں الگ اوردل الگ آنسو روتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کانوحہ لکھیں اور کس کو مطعون ٹھہرائیں ۔۔۔آج شام ہی نہیں پوری دنیا افسوس میں ڈوبی ہے سوال تو کیاجاسکتا ہے کہ وہ درندے آج تو خوش ہونگے جب انہوں نے پوری انسانیت کو سسکتے تڑپتے روتے چیختے دیکھاہوگا۔ چنگیزیوں کاوطیرہ رہاہے کہ انہیں چہروں پر کھلکھلاتی مسکراہٹ چہرے کی معصومیت سے زیادہ چیخوں سے پیار ہوتاہے سو آج ان کے دل کے ارمان پورے ہورہے ہونگے۔بہت کوشش کی کہ سسکتے لففظوں کوترتیب کے ساتھ کالم کی شکل دی جائے مگر بہت چاہنے کے باوجود ایسا نہ ہوسکا ۔چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں ان سسکتے لفظوں کو مرتب کیا ہے ۔ ان لفظوں میں سوال بھی چھپے ہیں جو اپنے جواب کے منتظر ہیں اس قوم سے حکمرانوں سے؟؟؟
عرش تو ہل ہی رہاہوگا جب معصوم معصوم چیخیں آسمانوں کو چیرتی ہوئی خالق کل تک پہنچی ہونگی۔۔۔۔۔عرش تو ہل ہی رہاہوگا جب ایک دونہیں ہزاروں بچوں کو شہید کردیاگیا ان کی آہوں سسکیوں سے فرشتے بھی رو رہے ہونگے………اے انسان تیرا دل کیوں پتھر ہے تو نے کس طرح سے ان معصوم سینوں میں گولیاں پیوست کی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔
شام کی شامِ غریباں
شاعراپنی زبان میں یہ بول رہاہے کہ
چودہ سوسال کے بعد بھی ہم کربلا میں ہی ہیں
وہی یزید ابنِ یزید ابنِ یزید ابنِ یزید
وہی تقاضہ بیعت
وہی منافقت کی قبائیں اوڑھے ہوئے بدبودار ضمیر فروش حاکم
وہی دجلہ کے کنارے کربلا کی طرح حلب کی پٹی
وہی رات کے سناٹے میں تاریکی کے بین
وہی کربلا ہے،وہی شام غریباں ہے اور وہی معصوم اور شیر خوار بچوں پر ظلم کی آخری حد
قسم ہے مجھکو میری خون روتی آنکھوں کی
اس کربلا سے اس کربلا تک کچھ بھی تو نہیں بدلا
میں سہما ہوا اپنے بدن سے لپٹا
خود سے ہی پوچھتاہوں
ہاں سنو
کیا تمہیں جنگ کی وہ سیاہ رات یاد ہے
جب اچانک سائرن بج اٹھے تھے
اور بارود کی بو پھیل گئی تھی
چیخوں کے ساتھ ھر طرف خون بکھر گیا تھا
اس رات حلب پر کیا گزری
کسی نے نہ سوچا
کسی نے نہ پوچھا
ہائے
ایسی وحشت کی راتیں کیسے گزرتی ھیں
اندھیروں میں ڈوبی شبیں کیسے دھندلاتی ھیں
بھوک سے لپٹی جانیں کیسے مر جاتی ہیں
غم میں سوختہ جاں مائیں کیسے بین کرتی ہیں
ظالم مظلوم کو کیسے رسوا کرتا ہے
بارود کیسے خون میں اتر جاتا ہے اور نسوں میں دوڑتا ہے
بوڑھا باپ جوان میت کو رخصت کرتے ہوئے کیسے چومتا ہے
سات سال کی بچی اپنی پانچ سالہ بہن کو کیسے دلاسہ دیتی ہے
کیسے تین روز تک
چار بچے اپنی ماں کی لاش سے لپٹے رہتے ہیں
کیا تم نے سوچا
کیا تم نے پوچھا
حلب پر اس رات کیا گزری
چلو آج
اکیسوی صدی کانوحہ لکھ دو
انسانیت کو بربریت لکھ دو
یہ بھی لکھ دو
اس دنیامیں ایک جہاں وہ بھی ہے
جہاں انسان
ایک قطرہ پانی کو ترستے ہیں
ایک نوالہ روٹی کو تاکتے ہے
نڈھال اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ہیں
بچے اپنے ھی گھروں کا پتہ پوچھتے ہیں
ہائے
کیا اب یہاں کوئی انسان بھی بستا ہے
یا
پھر اب یہاں ایک ھی جہاں بستا ہے
طاقت کا منافقت کا جھوٹ کا اور نفرت کا جہاں
جہاں
معصوم بچے مر رہے ہیں
جتنی بارود کی بو پھیلتی ہے
اتنے ھی انسان مر رہے ہیں
جتنی چیخیں گونجتی ہیں
اتنے ھی لاشے گر رھے ہیں
لوگو
یہ شام کے نہتے مسلمان نہیں
ھم تم مر رہے ہیں
آج
شام کا ایک ایک بچہ پکار رہاہے
اس دنیا کو کس نے مقتل بنارکھاہے
پھولوں کی جگہ لاشوں کواگا رکھا ہے
خوف
اداسی
ناامیدی
کس نے ھمارا مقدر بنارکھا ہے؟
فرات کے کنارے بسی ہوئی حلب کی بستی کے گھروں میں
اکیسویں صدی کی شامِ غریباں ہے
گھروں سے دھواں برابر اٹھ رہا ہے
اور یہ سب انسانی حقوق کے داعی اس جدید عہد کے
یزیدوں کا کام ہے
جو سب ایک ساتھ مل کر بیعت کا تقاضہ کر رہے ہیں
مگر کریں کیا کہ
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے