بھینسے سے دودھ نکالنے کا گُر

یہ ستمبر 2013کی بات ہے،میں نے میٹرک کے بعد گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا، میٹرک میں اچھے نمبرات کی وجہ سے مجھے فرسٹ ائیر کے پری میڈیکل سیکشن کے چھ سو سے زائد طلباء میں منتخب چالیس طلباء کی کلاس "ماڈل” سیکشن میں بٹھا دیا گیا، اس سیکشن کا نام "ماڈل سیکشن” اسی لیے رکھا جاتا ہے کہ یہ منتخب طلباء پورے کالج کے لیے بطورِ رول ماڈل ہوتے ہیں، نمبرات کے علاوہ ذہنی، اور نفسیاتی امتحان، آئی کیو ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہی اس سیکشن کا کوئی امیدوار ہوتا تھا، میں نے اس سیکشن کیلئے کاغذات جمع ہی نہ کروائے کہ بابا! 600 بندوں میں سے 40 کا انتخاب ہوگا، اس لیے جو اس کے مستحق ہوں وہی ماڈل سیکشن میں امیدوار ٹھہریں۔۔۔۔۔دو چار روز بعد کالج انتظامیہ نے اعلامیہ جاری کیا کہ ماڈل سیکشن کیلئے 50 طلباء کا ٹیسٹ ہوگا، جن میں سے 40 منتخب ہونگے۔

میں بھی ان خوش نصیبوں کے نام دیکھنے کی غرض سے وہاں گیا کہ بھلا دیکھیں تو سہی چنیدہ ماڈل شخصیات میں سے کون کون سے جاننے والے دوست یار ہیں، جیسے ہی ناموں کی فہرست پر نگاہ دوڑائی ۔۔۔۔۔مجھے یک دم حیرت سی ہوئی کہ ساتویں نمبر پر درج نام میرا اور ولدیت بھی میری۔۔۔۔میں نے سوچا کہ بھئی میں نے تو ماڈل سیکشن کیلئے درخواست ہی جمع نہیں کروائی، کوئی اور ہوگا ۔۔۔۔۔نام اور ولدیت کی مماثلت ناممکن نہیں۔۔۔مگر تجسس ابھرا اور غور کیا تو تاریخ نام، ولدیت، تاریخ پیدائش، میٹرک کا رول نمبر، رجسٹریشن نمبر اور ادارے کا نام بھی اسی سرکاری سکول کا تھا جہاں سے میں نے میٹرک کی تھی۔۔۔۔۔۔ خیر حیرت و استعجاب میں نوٹس بورڈ سے نظریں ہٹا کر چل دیا۔۔۔۔اور دو دن بعد ٹیسٹ کیلئے ہال میں پہنچا، ساتویں نمبر پر ہی مجھے بلایا گیا اور اندر جاتے ہی مختلف سوالات کی بوچھاڑ۔۔۔۔۔میری DMC جن پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں تھی کچھ دیر دیکھ کر بولے "میاں! اردو میں اتنے شاندار نمبر۔۔۔؟ کیا خصوصیت ہے تمہاری اردو میں۔۔۔۔؟ ” پہلے تو میں خاموش سا رہا، پھر عرض کیا کہ سر! اردو لکھائی اچھی ہے، اردو پڑھنا، لکھنا اور یاد رہنا ایک فطری شوق بھی ہے۔۔۔۔۔

پھر کیا تھا پروفیسر صاحب نے اردو کا وہ ٹیسٹ لیا کہ اللہ اللہ۔۔۔۔آج بھی سوچتا ہوں تو سر چکرا جاتا ہے، سب سے طویل انٹرویو میرا ہوا۔۔۔۔۔پہلے چند سوالات میں تو پوائنٹ ٹو پوائنٹ بات ہوتی رہی، پھر جب میں نے استاد محترم کی طبیعت کو کچھ تازہ دم پایا تو بے تکلفی سے مباحثہ شروع کردیا۔۔۔۔۔۔سوالات کا رخ اردو سے اسلام، پھر مذہب، معاشرت، علاقائیت اور نہ جانے کہاں کہاں مڑتا گیا، ۔۔۔۔بالآخر ساتھ بیٹھے دوسرے پروفیسرز کی یاد دہانی پر پروفیسر صاحب نے میرے بعد والے امیدوار کو بلا کر مجھے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا، کاندھے پر تھپڑ نما تھپکی بھی رسید کردی اور جانے کا کہا۔۔۔۔۔

میں نکل کر باہر لان میں بیٹھا نئے دوستوں سے متعارف ہورہا تھا۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد کاندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔مڑ کر دیکھا تو ہمارے محلے کے رہائشی پروفیسر سید اظہر علی شاہ صاحب جو اب بھی کالج میں شعبۂ اردو میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے فرمایا "بیٹا! ڈاکٹر اشفاق احمد شفتہؔ صاحب کی خصوصی خواہش پر آپ نے اردو کا پیریڈ میری کلاس میں لینا ہے”۔۔۔۔میں نے سر جھکا کر حکم کی تعمیل کا یقین دلایا، اور پروفیسر صاحب نے ایک مسکراہٹ سجا کر ہاتھ ملایا اور دفتر کی جانب چلے گئے۔

تیسرے روز رزلٹ لگا، رزلٹ میں حیران کن بات یہ تھی کہ ٹاپ لسٹ میں میرا نام درج تھا، اور میرے نام سے نیچے کے دو تین طلباء کے حاصل کردہ نمبرات مجھ سے اچھے خاصے زیادہ تھے، مگر نام میرا اوائل میں لکھ دیا گیا۔خير اگلے روز تیاری کرکے نئی کلاس میں بیٹھ گئے، ہمیں ماڈل کلاس میں اچھے فرنیچر، کشادہ کمرے اور ہوادار کھڑکیوں والی کلاس میں بٹھایا گیا تھا، میں نے کلاس میں داخل ہوتے ہی اپنی بچپن کی عادت کے مطابق تیز تیز قدم اٹھا کر لیکچر ڈائس کے بالکل سامنے کرسی پر بیٹھ گیا، جہاں میں اور استاد بالکل آمنے سامنے ہوتے تھے، ہمارے ڈیسک اور استاد کے لیکچر ڈائس کے بیچ دو سے چار فٹ کا فاصلہ تھا، ہمیشہ سے استاد کے بالکل قریب یا سامنے بیٹھنے کی عادت تھی، سو یہاں بھی اسی پر عمل کیا۔

تیسرے پیریڈ میں اردو کی کلاس تھی، دیکھا تو کچھ دیر بعد ججوں جیسے کالے جبے میں ملبوس پروفیسر اظہر علی شاہ صاحب تشریف لائے، اردو کی کلاس کا پہلا اور معیاری لیکچر تھا، پہلے ہی لیکچر میں پروفیسر صاحب سے سوالات اور لیکچر سے متعلق جملوں کا خوشگوار تبادلہ ہوا، دن گزرتے گئے، چند ہفتوں بعد ہفتۂ صفائی منایا جارہا تھا، اچانک ہماری حسِ مزاح جاگی اور کلاس کی صفائی کے دوران ایک نصیحت آموز مگر مزاحیہ طرز کی غزل صفائی کے عنوان پر وارد ہوگئی، اگلے دن وہ میں نے پروفیسر اظہر شاہ صاحب کے کو دکھائی، انہوں نے وہ کاغذ تہہ کرکے اپنے بیگ میں ڈال دیا، میں سمجھا یہ بات آئی گئی ہوگی۔۔۔۔

لیکن مجھے علم نہ تھا کہ وہ نظم شاہ صاحب کے ذریعے ڈاکٹر اشفاق شفتہ صاحب اور پھر وہاں سے پرنسپل صاحب تک پہنچی، اگلے روز مجھے اچانک کلاس کے دوران پرنسپل صاحب کا بلاوا آیا، اس اچانک بلاوے سے کچھ دھچکا ضرور لگا کہ کالج میں داخلہ لیے مہینہ بھر نہیں ہوا کہ مجھ جیسے "شریف” طالبعلم کو دفتر کس لیے طلب کیا گیا۔۔؟ لیکن ضمیر مطمئن تھا کہ سوائے اجازت نامہ لیکر زلفِ دراز رکھنے کے اور کوئی جرم نہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

خیر ذہن میں مختلف قیاس آرائیاں کرتے کرتے قاصد کے پیچھے پیچھے پرنسپل صاحب کے آفس کے دروازے پر پہنچا، قاصد نے اندر کی جانب اشارہ کیا، اور خود دفتر کے دروازے کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ کر ڈیوٹی دینے لگا، میں نے دروازے سے اندر داخلے کی اجازت طلب کی، کچھ سہما ہوا تھا، لیکن حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ میری اجازت طلب کرتے ہی پرنسپل صاحب نشست سے اٹھے اور آکر معانقہ کیا۔۔۔۔۔”اچھا ۔۔۔۔تو آپ ہیں بلال۔۔۔؟ بیٹھیں پتر جی بیٹھیں”۔۔۔۔۔۔پرنسپل صاحب کی شفقت اور محبت بھرا حکم۔۔۔۔۔دل مطمئن ہوا کہ چلو حالات خطرے سے باہر ہی ہیں۔۔۔۔۔پرنسپل صاحب کے بیٹھتے ہی میں بھی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد شفتہؔ، پروفیسر مبشر عاطف صاحب، پروفیسر ڈاکٹر محمدشکیل صاحب سمیت اردو ڈیپارٹمنٹ کے چند دوسرے پروفیسرز بھی تشریف لائے۔

نوجوان پروفیسر مبشر عاطف صاحب جن کی وابستگی تو شعبۂ انگلش سے تھی، اتفاقیہ ہمیں انگریزی بھی وہی پڑھاتے تھے، مگر اردو کا ذوق بھی کمال تھا، نہایت ہی خوشگوار اور مزاحیہ مزاج رکھتے تھے، مجھے دیکھتے ہی میری نحیف جسامت پر ہنس کر فرمایا "ارے یہ پہلوان کس جرم میں یہاں پیش کیا گیا” ۔۔۔۔ اس جملے پر پرنسپل صاحب سمیت سبھی کے لبوں پر تبسم اتر آیا۔۔۔۔۔۔کچھ بات چیت کے بعد پرنسپل صاحب نے ایک کاغذ نکالا۔۔۔۔میں نے چور نگاہوں سے اس کاغذ کی جانب دیکھا، تو صفحے پر کٹے ہوئے مارکر سے میرے ہی خط میں لکھا وہی کاغذ تھا جو اظہر شاہ صاحب مجھ سے لے کر گئے تھے، پرنسپل صاحب نے ناک کی نوک پر باریک سا چشمہ رکھ کر پروفیسرز کو وہ مثنوی نما غزل سنائی۔۔۔۔۔پھر نگاہیں اساتذہ کی جانب کرکے مخاطب ہوئے کہ یہ اس نئے طالبعلم نے لکھی ہے۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تو پروفیسرز صاحبان مسکرائے پھر دو تین اساتذہ نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا واقعی خود لکھا ہے یہ؟ میں نے کہا جی ہاں! تو سبھی نے داد دی، حوصلہ بڑھایا اور مزید محنت کی تلقین کی۔۔۔۔میں جانتا تھا کہ اس لکھے میں کوئی پختگی نہ تھی۔۔۔۔مگر یہ اساتذہ کا پیار اور حوصلہ افزائی تھی کہ جو کسی بھی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں ایندھن ثابت ہوتی ہے۔

کچھ دیر توقف کے بعد پرنسپل صاحب نے فرمایا کہ بیٹا آئندہ ہفتے کالج میں خواتین ہاسٹل اور ماسٹرز کے تین نئے شعبہ جات کی افتتاح کیلئے وزیرتعلیم اور دیگر ماہرین تعلیم کیساتھ زعماء بھی آرہے ہیں، آپ نے یہ وہاں مترنم پڑھنی ہے، چونکہ سٹیج سے پرانی شناسائی تھی، اسی لیے بلا جھجک بخوشی حامی بھرلی۔
اگلے ہفتے کالج کی اس افتتاحی تقریب میں وہ نظم پڑھی۔۔۔۔خوب داد ملی اور صوبائی وزیرتعلیم سے نقد انعام اور اعزازی سند بھی۔۔۔۔۔وزیرتعلیم خیبرپختون خواہ کے موجودہ وزیرتعلیم مشتاق احمد غنی صاحب ہی تھے، جو ہمارے ہی حلقے سے آزاد الیکشن لڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔

وزیر تعلیم کا تعلق تحریکِ انصاف میں ہونے کی وجہ سے میرا دل نہیں مان رہا تھا کہ PTI کے وزیر کے ہاتھوں یہ انعام و اکرام لوں، کیونکہ الیکشن سے قبل عمران خان اور PTI سے نفرت دل میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، میرا تعلق JUI سے نہ ہونے کے باوجود بھی عمران خان مجھے "یہودی ایجنٹ” ہی نظر آتا تھا، حالانکہ میں 2013 کے الیکشن سے قبل بھی ایبٹ آباد میں عمران خان سے بالمشافہ مل چکا تھا، مجھے اس میں یہودیت کی نشانی بظاہر داڑھی منڈوانے کے اور کچھ نظر نہ آئی۔۔۔۔۔لیکن میں نے اسے یہودی ایجنٹ ہی ماننا تھا، کہ ہماری مذہبی جماعتوں نے یہی پڑھایا تھا عمران کے بارے میں۔۔۔۔
مگر مشتاق احمد غنی کا تعلق ہمارے حلقے سے ہے اور وہ ایک غریب گھرانے سے ایوانوں میں آنے والا انسان دوست سیاستدان ہے، اسی لیے وہ سند اور انعام لے لیا۔

اس تقریب کے بعد کالج میں میری کافی جان پہچان ہوگئی، اساتذہ اور طلباءوطالبات سے بھی اچھی دعا سلام شروع ہوگئی، بسا اوقات مجھے ماسٹرز کی کلاسز میں ہونے والے مشاعروں میں بھی بلایا جاتا، اساتذہ بھی سبھی جانتے تھے، اور پرنسپل صاحب کی بھی خصوصی شفقت رہتی تھی، ۔۔۔۔۔ چند ماہ گزرگئے۔۔۔۔میں مختلف پلیٹ فارم پر کالج اور کالج سے باہر اپنی سی کوشش کرکے کافی انعامات لے چکا تھا، تعلیمی سفر اور کالج کا ابتدائی سال بڑی خوبصورتی سے رواں دواں تھا۔

ایک دن اردو کے پیریڈ میں ایک سبق کی تشریح کے ضمن میں پروفیسر اظہر علی شاہ صاحب نے پاکستانی سیاستدانوں پر پر تبصرہ شروع کیا، جس سیاستدان پر تبصرہ ہوتا، میں کاندھے اچکا اچکا کر خوش ہورہا تھا۔۔۔۔بات ہوتے ہوتے پروفیسر صاحب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کا وہ تجربہ کار کھلاڑی ہے، جو مفاد کیلئے بھینس تو بھینس "کٹے” (ہندکو میں بھینسے کو کٹا کہتے ہیں) سے بھی دودھ نکال لیتا ہے، جمہوریت ہو، یا مارشل لاء، بینظیر ہو کہ نوازشریف ۔۔۔۔۔۔فضل الرحمٰن نے ہر ہر کٹے سے دودھ نکلوا کر چھوڑا ہے، اور اپنا مفاد حاصل کیا ہے۔

پروفیسر صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں جو ساری زندگی جب سے ہوش و حواس میں آیا، ایک دفعہ بھی اپنے اساتذہ کی جانب نگاہ نہیں اٹھا کر دیکھی، مگر جب مولانا فضل الرحمٰن پر پروفیسر صاحب نے یہ تبصرہ کیا تو باوجود جے یو آئی میں نہ ہونے کے اور مولانا فضل الرحمٰن کی پالیسیوں اور ان کی سیاسی چالبازیوں سے اختلاف کے، میں جھنجلا کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔ اور زور سے میز پر مکا کار کہا "سررررررر ۔۔۔۔!! انتہائی معذرت کیساتھ۔۔۔۔!! بہت ہوگیا۔۔۔۔بس۔۔۔سن لیا آپ کا لیکچر۔۔۔۔آئندہ اگر آپ نے یا کسی بھی مائی کے لعل نے میری موجودگی میں علمائے کرام پر تبصرہ کیا تو میں ایسی زبان کھینچ لینے میں دیر نہیں کرونگا۔۔۔۔۔سر ۔۔۔! آپ اردو پڑھانے آئے ہیں۔۔۔۔فرقہ واریت پھیلانے نہیں آئے۔۔۔۔اس کام کیلئے اور بہت سے ہیں، آپ کلاس میں اردو پڑھائیں اور بس۔۔۔۔باقی ہمیں پتا ہے کون کیا ہے۔۔۔۔” میرا چہرہ غصے اور جذبات سے لال ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔پروفیسر صاحب جو کہ بریلویت کی جانب میلان رکھتے ہیں، وہ بھی سمجھ گئے کہ بچے نے فرقہ وارانہ رنگ میں اس بات کو لے لیا ہے۔۔۔۔مگر وہ کچھ نہ بولے ۔۔۔۔۔۔اور مجھے مسکراتے ہوئے ٹھنڈا رہنے کی تلقین کی۔۔۔۔میں نے دھمکی آمیز جملہ اور داغ دیا کہ آئندہ ایسی بحث ایک دفعہ بھی ہوئی تو میں کلاس سے واک آؤٹ کروں گا۔۔۔۔۔اور آئندہ کلاس نہیں لوں گا۔۔۔۔۔۔چند عرصے تک سکون رہا، ایک دن پھر کسی طالبعلم نے سیاسی مباحثہ چھیڑ دیا۔۔۔۔۔میں کچھ دیر سنتا رہا۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی مولانا فضل الرحمٰن پر ڈسکشن ہوئی۔۔۔۔۔میں نے بیگ اٹھایا اور ایک کاغذ پر کٹے ہوئے سرخ مارکر سے ”احتجاجی بائیکاٹ ۔۔۔رول نمبر 176” درج کرکے اس کاغذ کو اپنی نشست کے سامنے چپکا دیا۔۔۔۔اور بیگ اٹھا کر باہر کلاس کے سامنے واقع چمن میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔اور وہاں بیٹھ کر پرنسپل کے نام ایک احتجاجی خط لکھا جس میں سرفہرست مطالبہ یہ لکھا کہ ماڈل سیکشن کے اردو کے پروفیسر صاحب کلاس میں درسی موضوعات سے زیادہ اختلافی، مسلکی، سیاسی اور فرقہ وارانہ موضوعات پر گفت گو ہوتی ہے۔۔۔۔

اس لیے ہماری کلاس کا مطالبہ ہے کہ پروفیسر ہذا کا ہماری کلاس سے تبادلہ کروایا جائے، میں جانتا بھی تھا کہ پروفیسر صاحب نے سیاسی نقطۂ نظر سے مولانا فضل الرحمٰن پر تبصرہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔لیکن مجھ ميں بھی مسلکی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اس درخواست کے دوسرے صفحے پر اپنے رعب دھاب، کچھ سے مسلکی تعلق جتا کر۔۔۔۔کچھ سے دوستی کے نام پر اس درخواست کے حق میں دستخط لے لیے، چالیس میں سے 37 طلباء نے دستخط کردئیے، اور تین غیرحاضر تھے، ورنہ میں نے بھی میاں صاحب کی ن لیگ کی طرح "عوامی مینڈیٹ” کے حصول کیلئے چالیس کے چالیس طلباء سے دستخط لینے کی ٹھان رکھی تھی، لیکن تین طلباء کی غیر حاضری کی وجہ سے یہ نہ ہوسکا، مگر ہمارے لیے ایک طرح سے مکمل تائید تھی، اور یوں ان تین کی رائے کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔

دوسرے روز میں اردو کے پیریڈ کے دوران اپنی کلاس کے چند لڑکوں سمیت پرنسپل آفس پہنچ گیا، اور اس وفد کیساتھ جا کر ان سے زبانی کلامی بھی وہی بات کہی، جو لکھی تھی۔۔۔۔۔پرنسپل صاحب چند لمحات کیلئے رکے، میں نے کاری وار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سر! جب سے کلاس میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، میں نہ کوئی نظم لکھ سکا، نہ غزل، اور نہ ہی ٹھیک سے لیکچر سمجھ رہا ہوں، اگر میری یہی صورتحال ہے تو دیگر طلباء کا حال بھی کچھ مختلف نہیں، اسی لیے ان تین غیر حاضر طلباء کے علاوہ باقی پوری کلاس نے اس مطالباتی درخواست پر دستخط کیے ہیں، ”
پرنسپل صاحب جو مجھے کالج میں میری ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے عزیز رکھتے تھے، اور ساتھ ہی طلباء کے دستخط پڑھ کر کچھ حل ڈھونڈنے کا عندیہ دے گئے، اور کل آنے کو کہا۔۔۔۔

دوسرے روز میں انہی لڑکوں کیساتھ پھر پرنسپل آفس حاضر ہوا تو پرنسپل صاحب نے کچھ گفت و شنید کے بعد کہا کہ "ہم نے پروفیسر اظہر شاہ صاحب کو ان کے علم میں لائے بغیر آپ کی کلاس سے ہٹا کر بی ایس میں تبادلے کا فیصلہ کیا ہے، کل سے آپ کی کلاس پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد شفتہؔ صاحب لیں گے۔۔۔۔۔”

ہم نے خوش نگاہی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اور پرنسپل صاحب کا شکریہ ادا کرکے کلاس میں آئے تو اردو کا پیریڈ ختم ہوچکا تھا، اگلے روز ہم جب کالج گئے تو واقعی ڈاکٹر شفتہؔ صاحب کلاس لینے آگئے۔۔۔۔۔اور ہم دل ہی میں بہت خوش تھے، زبان سے بھی اظہار کیا، لیکن اس کے فوراﹰ بعد مجھے احساس ہوا کہ پروفیسر اظہر شاہ صاحب پڑھاتے تو بہت اچھا تھے، اور ا ن کے مولانا فضل الرحمان کے متعلق وہ خیالات صرف سیاسی نقطۂ نظر سے تھے، مگر اب پانی سر سے گزرچکا تھا، پروفیسر صاحب کے خواب و خیال ميں بھی نہ تھا کہ کہانی کیا ہے، لیکن وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔سال بعد پرنسپل صاحب کی ریٹائرمنٹ ہوگئی، نئے پرنسپل صاحب آئے، ان کی نگرانی میں سیکنڈائیر پڑھی، اور پھر کالج سے نکل گئے، مگر سوچ ضرور تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن پر تبصرے کی وجہ سے کم از کم مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔

سو وقتاً فوقتاً مولانا فضل الرحمٰن کے ماضی، اور حال پر نظر دوڑاتا رہا تو وہی نقشہ تھا، ہر ایک حکمران چاہے وہ ڈکٹیٹر ہو، جمہوری ہو، سیکیولر ہو، مذہبی ہو، مولانا صاحب باوجود قلیل سیٹوں کے ان "کٹوں” سے دودھ نکالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں، جی حضوری، ایک جگہ حمایت، دوسری جگہ مخالفت، ایک جگہ جواز، دوستی جگہ حرمت کا فلسفہ مولانا کو اتنا ازبر ہوچکا ہے کہ سبھی کو خوش رکھا ہوا ہے، اور پھر عوامی حلقوں میں انہی کو امریکی غلامی، یہود کے ایجنٹ، اسٹیبلیشمنٹ کے آلہ کار قرار دیکر پھر انہی میں بیٹھ کر گھی میں سے بال کی مانند اپنے مفادات نکال لینا "کٹے” میں سے دودھ نکالنے کے ہی مترادف ہے۔

آج میں نہ اس کالج میں ہوں، نہ کسی سیاسی جماعت میں، نہ مولانا کی حمایت مجھے کچھ دے سکی، نہ عمران خان، نوازشریف اور اے این پی وغیرہ کی مخالف مجھے کچھ دے سکی، لیکن میرا اور پروفیسر صاحب کا استاد شاگردی کا رشتہ و تعلق ابھی تک برقرار ہے۔

سیاسی اختلافات اور شخصی عناد یا حمایت کا نتیجہ کچھ نہ نکلا، ہاں! مسلکی آگ مجھ سے ایک حماقت کروا بیٹھی تھی، اس لیے میں تمام نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ ان سیاسی شعبدہ باز لیڈروں کی حمایت یا مخالفت سے ہمارا کچھ نہیں بنے گا، البتہ بگڑنے کے خدشات سینکڑوں موجود ہیں، اس لیے محنت سے اپنی تعلیم اور تربیت کو اہمیت دیتے ہوئے اس بھرپور توجہ دیں، تا کہ مستقبل میں آپ خود ایک ذمہ دار فرد اور فرض شناس شہری کی حیثیت سے اس ملک و ملت کو سہارا دینے کے قابل بنیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے