مذہب کو الوداع

ایک خفیہ سروے کے مطابق پاکستان میں مذہب چھوڑنے اور ملحد بننے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس میں شیعہ، سنی اور دوسرے تمام مسالک کے لوگ شامل ہیں، الحاد کے تیزی سے پھیلنے کا سبب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بیٹھے سابقہ مسلمان ہیں جن کے بقول مذہبی تعلیمات جھوٹ پر مبنی ہیں اس کے علاوہ وہ مذہبی عقائد کے خلاف سائنسی ثبوت بھی پیش کرتے ہیں،

سوشل میڈیا پر سابقہ پاکستانی مسلمان ملحدین کی اکثریت پڑھی لکھی ہے اور ان میں مدارس سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر ملحد بن گئے، فیس بک اور ٹویٹر پر کئی ایسے گروپس اور آئی ڈیز ہیں جو لوگوں کو مذہب سے نکالنے کے لیے دن رات کام کررہے ہیں، پاکستان کے علاوہ الحاد مغربی ممالک اور عرب ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ کسی بھی مذہب کو ماننے سے انکار کررہے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو اگنوسٹک کہتے ہیں یعنی کہ وہ خدا کے تصور کو تو کسی حد تک مانتے ہیں مگر کسی مذہب کو نہیں مانتے، اتھسٹ ہوں یا اگنوسٹک اسلام کے نزدیک یہ لوگ گمراہ ہورہے ہیں، اگر الحاد بڑھنے کا رجحان اسی طرح رہا تو پاکستان سمیت ساری دنیا میں مذہب کے نہ ماننے والے ملحدین کی اکثریت ہوگی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹ ایک پہلو سے تو درست ہے کہ الحاد کے فروغ کے لیے پاکستان میں بعض لوگ شعوری کوششیں کررہے ہیں لیکن ایسی تمام کوششوں کو کسی سازش کا حصہ کہنے سے پہلے اس امر پر غور کرنا ضروری ہے کہ الحاد کے فروغ کے لیے خود ”مسلمان“ ”خلوص نیت“ سے کتنا حصہ ڈال رہے ہیں اور یہ بات جاننے کے لیے کسی خفیہ سروے کی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم پاکستان اور مسلمان ممالک میں الحادی فکر کے پھیلنے کی وجوہات کا جائزہ لیں ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مغرب میں کلیسا کی بساط کا لپٹ جانا اور پورے مغربی سیاسی نظام پر سیکولر فکر کا غلبہ ہو جانا کوئی دور کی بات نہیں۔

مسلمان دانشوروں نے اس مسئلے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس کی بنیادی وجہ خود کلیسا کے کارپردازوں کا طرز عمل اور ان کے تصور مذہب کوقرار دیا ہے۔ مذہبی استبداد کی جو روش کلیسا نے اختیار کی تھی اور جس طرح سے وہ عقل و فکر کو بروئے کار لانے سے روکتے تھے اور جیسے وہ مشاہداتی حقائق کا انکار کرتے تھے اس سب کا نتیجہ مذہب سے فرار کے سوا کچھ نہیں نکلنا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ کلیسا سے بغاوت بالآخر مذہب سے بغاوت پر منتج ہوئی۔ یہ خلاصہ ہے مسلمان دانشوروں کے اس نقطہ نظر کا جو انھوں نے زوال کلیسا کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ جو کچھ کلیسا کے اہل حل و عقد اور مذہبی رہنماﺅں نے کیا، کیا مسلمان مذہبی راہنما وہی کچھ نہیں کررہے ہیں۔ اگر ہماری بات کا جواب مثبت ہے تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو مغرب میں نکل چکا ہے۔

اہل مغرب خدا کے بیٹے اور رشتے دار ہیں اور نہ اہل مشرق۔ وہ لم یلدولم یولد۔۔۔کا مصداق ہے۔ اس کے قوانین اٹل ہیں۔ اس کی سنتیں نہیں بدلتیں ۔جن اعمال کے نتیجے میں مغرب والوں نے الحاد کا راستہ اختیار کیا انہی اعمال کے نتیجے میں مشرق والے بھی الحاد ہی کا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں اور جب قوموں کی اجل آجاتی ہے تو نہ ان کا وقت پیچھے کو جاتا ہے اور نہ آگے کو۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمان گروہ در گروہ تقسیم ہو چکے ہیں۔ دین کی آفاقی تعلیمات پس پشت ڈال دی گئی ہیں، انسان بہت سے اہل مذہب کی نظروں میں بے قیمت ہو گیا ہے، فروع کا غلغلہ ہے اور اصول پامال ہورہے ہیں۔ دین کے بعض ظواہر مختلف گروہوں نے اختیار کر لیے ہیں اور حقیقت دین کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مذہب کے نام پر مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کا بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے، اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے، فرقہ واریت کا دیو ہے کہ بوتل میں واپس جانے کا نام نہیں لیتا بلکہ اس کا آسیب وحشت ناک حد تک پھیلتا چلا جارہا ہے۔

مسلمان ملکوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھیں بحرین میں کیا ہورہا ہے، سعودی عرب اپنے ملک کے اندر اور باہر مذہب کے نام پر کیا کردارادا کررہا ہے، شام پر کیا گزر رہی ہے، عراق کس طرح سے خون میں نہا رہا ہے، افغانستان پر کیا بیت رہی ہے، ایران کس طرح سے عالمی جکڑبندیوں سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے ، پاکستان میں مذہبی تقریبات پر کیسے وحشت و دہشت کے سائے پڑے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں اگر کوئی یہ کہنا شروع کردے کہ مذہب نے انسان کی زندگی کو خوف و وحشت میں مبتلا کردیا ہے، نوع انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کا ازلی دشمن بنا دیا ہے تو ایسے میں مذہب ہی کو کیوں نہ چھوڑ دیا جائے۔ سچ کہیے کہ اس فکر کے پیدا ہونے کا باعث کون ہے؟

جب بھی کوئی اس صورت حال کی بنیاد پر ہمارے دین پر اعتراض کرتا ہے تو ہم قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر اسے بتاتے ہیں کہ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا خون ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ ہم احادیث کا حوالہ دے کر اپنے نبی کا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان اور انسان محفوظ اور سالم رہیں تو جواب میں ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک طرف کتابوں میں لکھی ہوئی عبارتیں ہیں اور دوسری طرف وحشت ناک طریقے سے ناچتی ہوئی حقیقتیں ہیں۔ خارجی صداقتیں اور وحشت انگیز زمینی حقیقتیں چھوڑ کر اور انھیں نظرانداز کرکے ہم کتابوں کی طرف کیسے چلے جائیں؟ کیا ایک دوسرے کو قتل کرنے والے مسلمان نہیں؟

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جیسے اہل کلیسا بعض ایسے عقائد پر اصرار کرتے تھے جو خارجی حقائق پر منطبق نہیں ہوتے تھے ،مسلمانوں کے ہاں بھی مذہبی مسند پر براجمان مفتیوں کے بہت سے فتاویٰ خارجی حقائق کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مذہبی اداروں کے فارغ التحصیل عام طور پر دنیا میں ہونے والی سائنسی اور انسانی علوم کی پیش رفت سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا پر حکم فرما ان حقائق سے بھی نا بلد ہوتے ہیں جو اپنی قوت سے اپنی طے شدہ سمت کی طرف انسانی کاروان کو لے جارہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتنے ہی مذہبی علماءایسے ہیں جنھیں یہ تک نہیں پتہ کے کسی ریاست کے لیے آئین کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔ عصری علوم اور مذہبی علوم کا بُعد بڑھتا چلا جارہا ہے اور یہ بُعد بھی الحاد کے فروغ میں حصہ دار ہے۔ جو لوگ علی وجہ البصیرت خدا پر ایمان رکھتے ہیں، انبیاءکی ضرورت کا ادراک رکھتے ہیں نیز حیات بعدازممات پر عقیدے کو حقیقت پر مبنی اور ناگزیر جانتے ہیں انھیں اگر الحاد کی بڑھتی ہوئی روش ناگوار گزرے تو وہ پھر اہل مذہب کی ناگوار اور تکلیف دہ فکراور حرکت کی اصلاح کے لیے سنجیدہ فکر کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے