کاش میرا بیٹا فیل ہو جاتا

آج ایک ایسا واقعہ بتانے لگا ہوں جس کو پڑھ کر شاید آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور شاید آپ کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل جائے ، یہ کوئی عام واقعہ یا بات نہیں ہے اس واقعہ کے بعد سے آج تک کوئی تین ہفتے گزر گئے میں نہ کوئی خبر لکھ سکا اور نہ کوئی کالم لکھ سکا ، چند روز قبل ایک دوست سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے ایک واقعہ سنایا اور یقین کریں مجھے یقین نہیں آیا پھر میں اس شخص سے ملا ، پھر مجھے یقین آیا ، آپ بھی سنیں گے تو یقین نہیں آئے گا ،

اسلام آباد کے ایک متوسط طبقے کے ایک شخص جس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ، مارچ کے اختتام پر جب رزلٹ آیا تو اس کے بعد وہ شخص شام کو جی نائن کے ایک کھوکھے پر میرے دوست کو ملا ، وہاں پر انہوں نے چائے پی ، اس وقت میرے دوست نے اس شخص کے چہرے پر عجیب سی پریشانی دیکھی ، اس سے پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ہے اتنا پریشان تو کبھی نہیں ہوئے تم ، خیریت ہے ہوا کیا ہے ؟ بار بار پوچھنے پر اس کے لرزتے ہونٹوں سے صرف ایک فقرہ نکلا ، جس کے بعد نصف گھنٹے تک سکوت چھایا رہا ،
اس شخص نے کہا ” کاش میرا بیٹا اس مرتبہ امتحان میں فیل ہو جاتا ”

یہ فقرہ سنتے ہی ہمارے دوست کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی ، جیسے مجھے واقعہ سنایا گیا تو یقین کریں اتنا دکھ اور تکلیف بغیر تفصیلات میں جانے کبھی نہیں ہوا ،
میرے دوست نے اس شخص سے نصف گھنٹہ بعد پوچھا ، کیا ہو گیا ہے تمہیں ، تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ تمہار بیٹا پاس ہو گیا اور دنیا کے تم واحد باپ ہو جو اپنے بیٹے کے فیل ہونے کا دکھ منا رہا ہے کیا ہو گیا ہے تمہیں ،

اس شخص نے تفصیل سے بتایا کہ کاش میر ا بیٹا فیل ہو جاتا وہ ایک سال اور ساتویں کلا س میں پڑھ لیتا مزید ذہین ہو جاتا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ایک سال ہی ضائع ہو جاتا لیکن جب گھر میں دروازے پر بیل بجی اور میرے بیٹے کی خوشی سے اونچی آواز کھڑکیوں سے آ رہی تھی کہ ابو میں پاس ہو گیا میں سیکنڈ آیا ہوں کلاس میں ، خدا کی قسم میرے دل سے یہ آہ نکلی تھی کہ کاش میرا بیٹا فیل ہو جاتا ، اس وقت ساتویں کلا س میں میں اپنے بیٹے کی فیس سات ہزار ماہانہ دے رہا ہوں ، اور آٹھویں کلاس میں یہ فیس گیارہ ہزار روپے ہو جائے گی ، نیا سکول یونیفارم ، نئی کتابیں ، سب کچھ نیا ، جوتے نئے ، اور پھر سکول والوں کی فرمائشیں بھی بے انتہا، اور اسی پاس ہونے کی خوشی میں جو تقریب ہونی ہے اس کے لیے ہزار روپے کا چندہ علیحدہ ،

کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ وہ فیل ہو جاتا تو میں کم از کم ان سب چیزوں سے بچ جاتا ، اس وقت میری تنخواہ ستائیس ہزار روپے ہے میں پہلے مہران گاڑی پر تھا جب بچے سب سکول جانا شروع ہوئے تو کچھ عرصہ بعد مہران گاڑی فروخت کر دی اور ایک ایف ایکس پرانی گاڑی خریدی ، تین سال اس گاڑی کو چلاتا رہا اور بیٹی دسویں کلاس میں پہنچ گئی اور بیٹے ایک پانچویں اور ایک چھٹی کلاس میں ،

پھر ان کو جن سکولوں میں داخل کرایا وہاں کی فیسوں کی وجہ سے مجھے ایف ایکس گاڑی ایک لاکھ چالیس ہزار روپے میں فروخت کرنی پڑی اور اب میرے پاس موٹرسائیکل ہے لیکن خدا کی قسم اب یہ موٹر سائیکل بھی بک جائے گا لیکن میرے بچے میٹرک کب کریں گے یہ مجھے نہیں پتہ ، ایک کی فیس سات ہزار ایک کی فیس چار ہزار ، اب پیچھے رہ گیا مہینے میں صرف سولہ ہزار ، کیسے میں گھر کا کرایہ دیتا ہوں کیسے میں بل دیتا ہوں اور ان بچوں کو کھلاتا پلاتا ہوں ، پھر کہتے ہیں چائلڈ لیبر غیر قانونی ہے میرا دل کرتا ہے میرے بچے سڑکوں پر کتابیں بیچیں ، جو مرضی کریں لیکن اپنی فیس خود دیں ، میری تنخواہ تو گزشتہ سات سالوں میں صرف ڈھائی ہزار روپے بڑھی ۔۔۔

یہ ایک لمبی داستان ہے لیکن بات صرف تعلیم تک محدود کرتے ہیں ،

تعلیم کے حوالے سے اگر صرف اقوال زریں ہی پڑھ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر ہمارے معاشرے میں تعلیم کو اہم قرار دیا گیا ہے اور تعلیم دینے والوں کو جو مقام اور عزت دیا گیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ، تعلیم کے شعبے سے وابستہ اساتذہ کو والدین کے برابر درجہ دیا گیا ، اور انہیں قوم کا معمار کہا گیا ہے کیوں کہ اساتذہ اور تعلیم دینے والے ادارے ہی ہمارے ملک کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں ، تعلیم کی جتنی اہمیت ہے اس سے بڑھ کر تعلیم دینے والوں کی ہے ، یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں ، میڈیا میں دیکھتے ہیں یا ماضی کے قصوں میں ان کا تذکرہ آتا ہے ۔۔۔ آج کل یہ اساتذہ اور اس شعبے سے وابستہ لوگ کاروبار کر رہے ہیں اور اس کاروبار کی بھٹی میں پسنے والے غریب ، عام لوگ اس طرح پس رہے ہیں کہ اتنے گھنائونے کاروبار کی کوئی مثال نہیں ملتی ،

کچھ سمجھ نہیں آ رہی شروع کہاں سے کروں ، گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ سے اور سرکاری کالجوں کے پروفیسروں سے شروع کروں یا ہر گلی محلے میں کھلے تعلیمی کھوکھوں سے شروع کروں ، تعلیم دینے کی بجائے ایسے فروخت کی جار ہی ہے جیسے بازار میں دکانوں پر مٹھائی یا سبزی فروٹ فروخت کیا جاتا ہے ۔

سرکاری سکولوں کے استاتذہ سکولوں میں پڑھانا جرم سمجھتے ہیں ، چھٹی کے بعد گھروں پر تین بجے سے لے کر رات دس بجے تک ہر گھنٹے مختلف کلاسوں کے سینکڑوں طالب علموں کو پڑھایا جاتا ہے وہی طریقہ جو سکول میں ہونا چاہیے وہ گھروں میں ہوتا ہے لاکھوں روپے ماہانہ کمائے جاتے ہیں یہ ہیں ہماری قوم کے جعلی معمار ۔۔۔ کالجوں کے پروفیسر بھی یہی کرتے ہیں ایک ایک گھنٹے کا ایک ایک مضمون کا ہزاروں روپے فیس لیتے ہیں ، اسی طرح ہر گلی محلے میں کھلی ہوئی تعلیم کی فیکٹریاں پیسہ بنانے کی مشین بنی ہوئی ہیں نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی روکنے والا ہے ، یہ ہمارے معاشرے کے کیسے معمار ہیں جو ہمیں تعلیم کے نام پر گیس پیپر ، اور ٹپس اور ٹیوشن کے زریعے پاس ہونے کے گر سکھاتے ہیں جو رٹا لگانے والے زیادہ نمبر لینے والے طالب علم اور سکالر تو بنا رہے ہیں لیکن اچھے انسان اور بہتر معاشرہ نہیں بنا رہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے