تشدد کسی مسلئے کا حل نہیں!

ہم پاکستانیوں کے نزدیک ریمانڈ کہ معنی تشدد کہ ہیں (تشدد کہ ساتھ بھرپور بھی پڑھئیے) ۔۔۔بچپن سے لفظ ریمانڈ کو اسی طرح سے سنتے آرہے ہیں ۔۔۔ ملزم کو ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے اب تو جو اس نے نہیں کیا اس کی بھی حامی بھرلے گا۔۔۔اندھیرااجالا جن لوگوں کو یاد ہو اس میں جعفر حسین ڈرائنگ روم کا بہت تذکرہ کرتے تھے۔۔۔معذرت کہ ساتھ ، اس وقت میڈیا با اخلاق تھا اس لیئے صرف پسِ پردہ وہ (مار پیٹ) آوازیں سنائی دیتیں تھیں جس سے پتہ چلتا تھا کہ ڈرائنگ روم میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے کیا مراد ہے۔۔۔پتہ یہ چلا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب آپ کواپنی تحویل میں لینگے (چاہے وہ پوشیدہ ہو یا ظاہری ) توآپ کا ریمانڈ عدالت سے ملنے سے پہلے ہی لیا جا چکا ہوگا یعنی تشدد کا نشانہ ضرور بنایا جائے گا۔۔۔کوئی بہت خوش نصیب یا جس پر اللہ کی خاص رحمت ہوگی وہ ہی اس عمل سے گزرے بغیر باہر آسکے گا۔۔۔یقیناًایسا دوسروں کہ دلوں میں خوف بٹھانے کے لئے کیا جاتا ہوگا۔۔۔خصوصاً وہ لوگ جو قانون کا احترام نہیں کرتے۔۔۔ رشوت خوری نے پولیس کا خوف تو عام آدمی کہ دل سے نکال دیا ہے ۔۔۔یہی ایک راستہ عوام پر اپنا رعب و دبدبا مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔

افواجِ پاکستان دنیا کی چند بہترین، منظم اور سخت جان افواج میں سے ایک ہیں۔۔۔اقوامِ متحدہ سے لے کر نیٹو کہ امن مشن کہ دستوں میں ہماری نمائندگی و کارگردگی کی ساری دنیا معترف ہے۔۔۔پوری پاکستانی قوم واحد اس ادارے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔۔۔اس کی وجہ انکا خوف نہیں بلکہ انکی گرانقدر خدمات ہیں ۔۔۔ پاکستان کا بچہ بچہ افواجِ پاکستان کہ گن گاتا سنائی دیتا ہے ۔۔۔پاکستان درپیش ہرمصیبت اور آفت سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت، عزم اور حوصلہ صرف انکے ہی پاس ہے۔۔۔مٹی کا تودہ گرجائے، سیلاب آجائے ، زلزے جیسی آفت کا سامنا کرنا ہو یا کوئی بھی سانحہ کوئی بھی مشکل اس ملک کو درپیش ہو پاک فوج ہمیں سب سے آگے صف بستہ نظر آتی ہیں۔۔۔منظم اور مستحکم ہونے کی اہم ترین دلیل احتساب ہے ۔۔۔جو ہماری فوج کہ موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف صاحب نے اپنے ادارے میں کرکہ اور کرپشن ثابت ہونے پر سزائیں سنا کر ، سیاسی حکمرانوں کیلئے گھنٹی بجادی ہے کہ اگرآپ احتساب نہیں کر سکتے تو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔پاکستان کی بقا کی جنگ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی لڑ رہے ہیں۔۔۔باقی سب تو تماشبین ہیں۔۔۔

اس کہ بر عکس پاکستان کہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے غیر محفوظ ہیں شائد ہی کوئی اورادارہ ہو۔۔۔آپ اس بات کی تصدیق کیلئے ذرا اپنے گردو نواح میں نظر دوڑائیے ۔۔۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کہ دفاتر یا رہائشی جگہوں کہ گرد کتنے آہنی حصار اور حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔۔۔آخر ایسا کیا ہے کہ ان اداروں کو یہ سب کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔۔۔ان تمام امور کو دیکھ کر عوام اپنے آ پ کو بلکل غیر محفوظ سمجھتی ہے۔۔۔ قانون نافذ اور عوام کو تحفظ کرنے والے اداروں کا یہ حال ہوگا تو عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہوگا۔۔۔ایک عام آدمی کا تحفظ تو ہمارے ملک میں ویسے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔ان اداروں کہ خوف کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنی خوفزدگی کی مرہونِ منت اب تک صرف کراچی میں چھ سات قیمتی جانیں لے لیں۔۔۔یعنی ان کو ایسا لگا کہ یہ لوگ (جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نشانہ بنایا) ان پر حملہ آور ہوجائینگے۔۔۔آخر اس خفت کا کچھ تو سبب ہوگا ۔۔۔لیکن اس خفت کا یہ مطلب تو قطعی نہیں کہ آپ میں دہشت گردوں میں فرق کرنا دشوار ہوجائے۔۔۔وہ اسلحہ چھپا کر گھومتے ہیں اور سرکاری سرپرستی اور وردی کی بدولت اسلحہ لیئے سرِ عام گھومتے ہیں۔۔۔

کبھی کسی نے یہ بھی سوچا کہ جس طرح ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں اس سے ہمارے ملک کہ مستقبل کہ معماروں پر کیا اثر پڑتا ہے ۔۔۔جی ہاں اسلحہ مومن کا زیور ضرورہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس زیور کو زیبِ تن کرنے کی اجازت ہر مومن کو نہیں دی جاتی۔۔۔یہ وہ عوامل ہیں جو ہمارے معاشرتی اقدار کا قتلِ عام کر رہے ہیں ۔۔۔جن کی وجہ سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہورہا ہے ۔۔۔بے حیائی اور بے راہ روی پہلے ہی اپنی عروج کی منزلیں بہت تیزی سے طے کر رہی ہیں۔۔۔غیرت کہ نام پر قتل ہو رہے ہیں۔۔۔کہیں جرگہ زندگی اور موت کہ فیصلے کر رہے ہیں۔۔۔آخر یہ سب کیا ہورہا ہے ۔۔۔آپکا عمل آپکے الفاظ سے زیادہ کار آمد ثابت ہوتا ہے ۔۔۔یعنی آپ بولیں کچھ اور کر کے کچھ دیکھائیں۔۔۔
آج دنیا میں خوف اور دہشت کا راج ہے ۔۔۔لوٹ کھسوٹ کا راج ہے ۔۔۔طاقتور کا راج ہے ۔۔۔ہر کوئی خود کو بچانے کیلئے دوسرے کی جان لے رہا ہے۔۔۔زندگی جیسی نعمت کی کوئی قدر نہیں کر رہا ۔۔۔آج دنیا میں پھر وہی غاروں کہ زمانے کے اصول رائج ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔ جو طاقتورہے وہی سب کچھ ہے۔۔۔تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے ۔۔۔رشتے مجبوراً نبھائے جا رہے ہیں۔۔۔کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے اپنا آپ بوجھ لگتا ہے۔۔۔حاکم بادشاہوں کی طرز پر حکومتیں چلا رہے ہیں۔۔۔ جیسا دل چاہے وہ اپنی رعایا سے ویسا سلوک کریں۔۔۔پولیس اسکی ، عدلیہ اسکی ، خوشامدی اسکے ، غرض یہ کہ حکومتی ساری مشینری اسکی۔۔۔

میں کسی ادارے کی کیا کسی فردِ واحد کی تحذیک کرنے کا مجاز نہیں۔۔۔مگر میں ہر اس فرد پر تنقید کر رہا ہوں جو معاشرے میں بد امنی پہلا رہا ہے ۔۔۔یہ بد امنی ذہنی طور پر پھیلائی جارہی ہو یا جسمانی سطح پر ہو۔۔۔اس سارے معاملات میں پولیس عوام میں اپنا اعتماد بڑھانے میں کتنی کامیا ب ہوئی ۔۔۔کیا لوگ بلا خوف و خطر تھانے جاسکتے ہیں۔۔۔جی نہیں ایک عام آدمی قطعی طور پر جانے تو کیا تھانوں کہ پاس سے گزرتے ڈرتے ہیں۔۔۔

تشدد چاہے کشمیر میں ہو یا فلسطین میں ہو یا شام میں ہویا عراق میں ہو یا افغانستان میں ہو یادنیا کہ کسی بھی ملک میں ہوقابلِ مذمت ہے ۔۔۔قدرت نے انسان کی نفسیات میں کچھ ایسے عناصر رکھے ہیں۔۔۔جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتے ہیں۔۔۔کسی کو سیاسی یا مذہبی یا معاشی انتقام کی بھینٹ چڑہا دینا یہ انسانیت نہیں۔۔۔کسی کو اپنے موقف پر زبردستی قائل کرنا یا مائل کرنے کی کوشش کرنا یہ انسانیت نہیں۔۔۔یہ انسانیت کی تذلیل ہے ۔۔۔

اس بات سے قطعی نظر کہ آفتاب احمد کسی سیا سی جماعت کا رکن تھا مگر انکی موت نے ملک میں سوگ کی فضاء پیدا کردی۔۔۔جیسے جیسے خبر منظرِ عام پر آتی گئی ۔۔۔ہر آنکھ نم ہوتی گئی اور زباں سوالی بن گئی ۔۔۔دکھ اس بات کا ہے کہ رہبر رہزن بن جائیں توکہاں جائیں۔۔۔ایک بہت اہم سوال یہ پیدا ہوگیا کہ آفتاب احمد پر کیا جانے والا تشدد کسی سیاسی جماعت سے وابسطگی کی بنیاد پر تو نہیں تھا؟۔۔۔افتاب احمد کی موت ہمارے ان تمام اداروں پر سوال اٹھاتی ہے جو پاکستان میں قانون کی بالادستی کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔۔۔کیا آپ کسی بھی پاکستانی کو ایسے تشدد کا نشانہ بنائینگے کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔یا آپ تشدد کی وہ شکل دیکھائنگے کہ وہ خوف سے مر جائے۔۔۔وہ پاکستانی جو معاشرے ایک قلیدی حصہ ہو جس کی ماں ہو، جسکی بیوی ہو اور جس کہ معصوم بچے اسکے منتظر ہوں۔۔۔آپ ان معصوموں کو کیا جواب دینگے جو آپ کو اپنا محافظ سمجھ رہے ہیں ۔۔۔کیا آپ کسی بھی پاکستانی کو نشانِ عبرت بنانے کیلئے یہ تک بھول جائینگے کہ وہ اسی معاشرے کی ایک اکائی ہے ۔۔۔

جی ہاں ! قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لازم ہے کہ ملزموں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی نشاندہی کریں ۔۔۔عدالت میں اسکا جرم ثابت کریں۔۔۔دنیا کا ہر قانون انسانیت کی تذلیل کی قطعی اجازت نہیں دیتی ۔۔۔چاہے وہ گوانتانابے میں کیا جائے کیا کراچی کہ کسی پولیس تھانے میں کیا جائے۔۔۔ خدا کیلئے اخلاقیات اور انسانیت کی دھجیاں نہ اڑائیں۔۔۔ہمارے معصوم بچے آپ کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہوں ۔۔۔ہم آپ سے پر امن معاشرے کہ متمنی ہیں۔۔۔تشد د اور خوف سے عاری معاشرے کی توقع کرتے ہیں۔۔۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا ، معاشرہ تمام برائیوں کہ ساتھ چل سکتا ہے مگر انصاف کہ بغیر نہیں چل سکتا(اللہ کمی بیشی معاف فرمائے)۔۔۔تو خدارا انصاف کیجئے۔۔۔تشدد کسی مسلئے کا حل نہیں ہے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے