پاکستانی حکمران جب بیمار ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ماضی سے حال تک ایک جائزہ

حکمران بیمار پڑجائے تو افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے، جس کے جو جی میں آئے بول دیتا ہے۔ عوام کے اندیشہ ہائے دوردراز اپنی جگہ ، سرکاری عمال میں سے بھی کئیوں کے دل میں اقتدار پر تصرف جمانے کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔
ہمارے ہاں پہلے حکمران کو بیماری آلیتی تواس کا علاج ملک میں ہوتا، دوسرے وہ کسی سیاسی بحران کے بیچ بستر سے نہ لگتا، اس لیے کم سے کم مخالفین کے حوالے سے، اس نوع کی خبریں نہیں چلتی تھیں کہ اب موصوف کبھی سرزمین پاک پر قدم رنجہ نہیں فرمائیں گے، جیسا کہ 2011ء میں میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران بعض سیاستدانوں ، صحافیوں اور اینکروں نے بڑے یقین سے کہا کہ صدر آصف علی زرداری وطن نہیں لوٹیں گے۔پر وہ پلٹ آئے ۔

پاکستان میں حکمران جب جب علیل ہوئے اوراس باعث امور مملکت میں رخنہ پڑا تو طرح طرح کی کہانیوں نے جنم لیا ۔ اس سلسلے کا آغاز بانیٔ پاکستان کی علالت سے ہوا۔ وہ جون 48ء میں زیارت چلے گئے، جہاں ڈاکٹر ان کی صحت یابی کے لیے سرگرم رہے۔ فاطمہ جناح ، بھائی کی تیمار داری کے لیے ہمہ وقت موجود رہیں۔ ان دنوں ایک روز اچانک وزیراعظم لیاقت علی خان نے مرکزی حکومت کے سیکرٹری جنرل، چودھری محمد علی کو اپنے ساتھ کیا ، اور بغیرکسی پیشگی اطلاع کے، قائداعظم کی خیریت دریافت کرنے زیارت جا پہنچے ۔

وزیر اعظم نے معالج سے بیماری کی تشخیص سے متعلق جاننا چاہا توکرنل الٰہی بخش نے صاف انکار کر دیا ۔ چودھری محمد علی نے ان سے کہا ’’آپ کا فرض ہے کہ وزیراعظم کو ٹھیک ٹھیک بتائیں کہ قائد اعظم کس مرض میں مبتلا ہیں۔‘‘ اس پر الٰہی بخش نے جواب دیا کہ وہ مریض کی اجازت کے بغیر، ان کے مرض سے متعلق کچھ نہیں بتا سکتے۔ اگلے دن قائد اعظم کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے اپنے معالج سے کہا کہ ’آپ نے بہت اچھا کیا، میں مملکت کا سربراہ ہوں ، اور جب میں مناسب سمجھوں گا تو خود قوم کو اپنی بیماری کی نوعیت سے مطلع کروں گا ۔‘

لیاقت علی خان کے دورے میں ایک اہم بات یہ ہوئی کہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیر اعظم کی آمد کی اطلاع دی تو وہ بولے: ’’ تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری علالت کتنی شدید ہے، میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ ‘‘ فاطمہ جناح کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ایسے عالم میں جب انھیں بھائی کی بیماری نے پریشان کر رکھا تھا ، کھانے کی میز پر وزیر اعظم خوشگوار موڈ میں خوش گپیاں کرتے رہے ۔

مادر ملت نے تو یہ باتیں لکھ دیں، لیکن سچائی سے کد رکھنے والوں کو پسند نہ آئیں، اس لیے فاطمہ جناح کی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ کی اشاعت کا معاملہ التوا کا شکار رہا اور جب قائد اعظم اکیڈمی نے اسے شائع کیا تو اس میں لیاقت علی خان سے متعلق کتاب کا وہ حصہ ،جس سے ہم نے، ان کی آمد پر قائداعظم اور فاطمہ جناح کے تاثرات نقل کئے ہیں، حذف کر دیا ،وہ تو خدا بھلا کرے قدرت اللہ شہاب کا ،جنھوں نے اسے ’’شہاب نامہ‘‘ کا حصہ بنا دیا ۔ لیاقت علی خان کے دور میں فاطمہ جناح کی ریڈیو تقریر سنسرکے عمل سے گزری ، جب وہ دنیا میں نہ رہیں تو ان کی کتاب کے اس حصے سے،جس میں لیاقت علی خان کا ذکر تھا ،وہی سلوک ہوا ۔

جمہوریت کش گورنرجنرل غلام محمد کی بیماری کا کیا ذکر ہوکہ موصوف جب تک اقتدار سے چمٹے رہے، ملک اور ان کی صحت کے معاملات بگڑے ہی رہے۔ گفتگو ان کی پلے نہ پڑتی۔ بغیر سہارے کے چلنے پھرنے سے وہ عاجز۔ ذہنی طور پر چوکس نہ تھے۔ ایوب خان نے اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں جس کا نہایت عمدہ ترجمہ ممتاز ادیب غلام عباس نے ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ‘‘ کے عنوان سے کیا،لکھا ۔:

اسکندرمرزا ، چودھری محمد علی اور میں ، ہم تینوں گورنر جنرل کی کوٹھی پر پہنچے ۔ گورنر جنرل اوپرکی منزل پر اپنی خواب گاہ میں لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے خون کا دباؤبہت بڑھ گیا تھا اور پیٹھ میں بڑی سخت تکلیف تھی ۔ جس کی وجہ سے وہ سیدھے ایک تختے پر چاروں شانے چت لیٹنے پر مجبور تھے ۔وہ غصے سے آگ بگولا ہو رہے تھے ، اور گالیوں کی بوچھاڑ تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی ۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ گالیاں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ چودھری محمد علی نے جرات کر کے کچھ کہا ،اس کے جواب میں ان پر بھی بوچھاڑ پڑی۔ ہم ان کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتے تھے کہ آپ محمد علی (بوگرہ)کو ایک موقع اور دیں۔ اس کے جواب میں انھوں نے غصے میں غراکر کہا ’’جاؤ۔ جاؤ دور ہو جاؤ، ان کی زبان سے بار بار ’’نہیں ،نہیں ‘‘کے الفاظ نکلتے ، وہ بس ہم کوبھگا دینا چاہتے تھے۔‘‘
خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ سے اور پھر ہنگامی حالات کا اعلان کر کے قانون ساز اسمبلی کو فارغ کرنے والے غلام محمد لگتا ہے پیدا ہی جمہوریت کی ایسی تیسی کرنے کے لیے ہوئے تھے ۔

اور تو اپنے دور میں انھوں نے کوئی تیر نہیں مارا۔ ایک دفعہ جب وہ بستر علالت پر تھے، معالج نے پیغام بجھوایا کہ اب وہ کوئی دم کے مہمان ہیں،اس لیے جس نے ملنا ہو مل لے، ایسے میں وزیراعظم ، کابینہ اور فوج کے کمانڈر انچیف ، زندہ حالت میں ان کا آخری دیدار کرنے بھاگم بھاگ آئے ،ایوب خان نے ان کے سرہانے کھڑے ہو کر کچھ تعریف کی۔ یہی کچھ دوسرے حاضرین بھی کرنے کو پر تول رہے تھے کہ غلام محمد کے جسم میں جنبش پیدا ہوئی ۔

انھوں نے ہاتھ ہلائے اور اپنے ہوش میں آنے کا اعلان کیا تو سب حاضرین رفو چکر ہو گئے، اور بیچارے گورنرجنرل صاحب اسٹاف سے پوچھتے پھرے کہ جب وہ بے ہوش تھے کون کیا فرما رہا تھا ۔ فالج کے حملے کے بعد وہ کسی جوگے نہ رہے تو ان کی سبکدوشی مسئلہ بن گیا، جسے اس زمانے کے جینئس حضرات نے حل کرلیا کہ وہ توجسمانی طور پر توانا بندوں سے استعفا لے سکتے تھے ، یہ تو لاچار غلام محمد تھے ،جن کے نزار بدن میں لہو ہی کتنا تھا ۔

ایوب خان وہ حکمران تھے، جن کی بیماری نے سب سے زیادہ افواہوں اور وسوسوں کوجنم دیا اور وہ جب تک موت کے منہ سے واپس نہیں آگئے، یحییٰ خان اقتدار پر قبضے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس تقریب کا احوال لکھا ہے، جس میں بیماری ان پر حملہ آور ہوئی :

29جنوری 1968ء کے روز اردن کے شاہ حسین کراچی آئے ہوئے تھے ۔ اسی شام راولپنڈی کے انٹرکونٹی نینٹل میں ان کا عشائیہ تھا ۔ صدر ایوب جب ہوٹل پہنچے تو ان کا رکھ رکھاؤ اور چہرہ مہرہ ان کے معمول کے حساب سے نارمل نظر نہ آتا تھا ۔ دعوت کے ہال میں داخل ہونے سے پہلے وہ سیدھے بار(شراب خانہ) گئے۔ اور ایک گلاس میں بہت سی وہسکی ڈلوا کرپانی ۔۔۔یا سوڈا واٹرملائے بغیر اسے ایک ہی سانس میں غٹا غٹ چڑھا گئے ۔ اس کے بعد یہی عمل انھوں نے چند بار دہرایا ۔ وہ شراب پیتے ضرور تھے لیکن اس طرح کھڑے کھڑے ندیدوں کی طرح نیٹ وہسکی کے گلاس پر گلاس چڑھانا ان کا دستور نہ تھا ۔ ہوٹل کی بار میں میں اسی طرح کئی گلاس پینے کے بعد ان کی آواز کس قدر خمار آلود ہو گئی۔

کھانے کے بعد جب وہ پہلے سے تیار کردہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو غالباً ان کا عارضۂ قلب ان کے رگ وپے میں کسی نہ کسی صورت میں رینگنا شروع ہوچکا تھا ۔ ان کی طبیعت ہرگز ٹھکانے نہ تھی۔ یہاں تک کہ اپنی تقریر پڑھتے پڑھتے وہ بیک بار اس کے دو ورق الٹ گئے ۔ اور انھیں اپنی اس غلطی اور بے ربطی کا احساس تک نہ ہوا ۔ اور و ہ بدستور آگے پڑھتے چلے گئے ۔ دعوت ختم ہونے کے بعد جب وہ ایوان صدر واپس گئے تو اسی رات ان پر نہایت شدید ہارٹ اٹیک ہوا ۔‘‘

اس صورت حال میں یحییٰ خان فوراً حرکت میں آگئے۔ ایوان صدر پر قبضہ جمالیا اور بیرونی دنیا سے اپنے باس کا رابطہ کاٹ دیا ۔ چند بندوں کے سوا ایوان صدرمیں کسی کوآنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ سنیئر وزیرخواجہ شہاب الدین کو گیٹ سے لوٹا دیا گیا، جس سے انھیں شک گزرا کہ شاید نیا انقلاب ہو گیا ہے اور ایوب خان مقید ہیں۔ اور تو اور ایوب خان کی ناک کا بال سمجھے جانے والے الطاف گوہر کو بھی اذن حضوری نہ ملا۔ ایک میڈیکل بلیٹین صدر کی صحت کے بارے میں جاری کیا جاتا ، جس کے متن کی صحت پرکوئی یقین نہ کرتا ۔ نامور براڈ کاسٹربرہان الدین حسن کے بقول’’ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی نے سرکاری ہدایات کے مطابق پہلے خبر دی کہ صدر کو انفلوئنزا ہوگیا ہے چند دن بعد وائرس سے ہونے والے نمونیہ کی خبر دی گئی جب وہ کئی ہفتے بستر علالت سے نہ اٹھ سکے توکہا گیا کہ وہ Pulmonary embolismکے عارضہ میں مبتلا ہیں ۔ یہ انتہائی خطرناک مرض ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ۔
جب عارضہ کی بابت خبر ریڈیو پاکستان کے نیوز ڈیسک پرپہنچی توسوال پیدا ہوا کہ اس بیماری کا اردو میں کیا ترجمہ کیا جائے ۔ وزارت اطلاعات سے مشورہ کرنے کے بعد طے پایا کہ اس کا اردو میں ترجمہ نہ کیا جائے اور انگریزی لفظ ہی استعمال کیا جائے تاکہ سامعین کی اکثریت اس مہلک بیماری کی ماہیت کوقطعاً نہ سمجھ سکے۔ ‘‘

ایوب خان پر بیماری کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ خود انھیں جانبر ہونے کا یقین نہ تھا ،اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے گوہر ایوب سے کاغذقلم مانگا اور کہا’’میں بچ نہیں سکوں گا۔ تم مجھ سے وعدہ کروکہ مرنے کے بعد مجھے ریحانہ میں میری والدہ کی قبرکے پہلو میں دفن کرو گے۔ ‘‘یحییٰ خان کی ہوس اقتدار کے باب میں گوہر ایوب نے اپنی کتاب ’’ایوان اقتدار کے مشاہدات ‘‘میں بتایا ہے کہ ہانگ کانگ کے دورے کے دوران جب یحییٰ خان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آیندہ صدر کون ہو گا تو موصوف نے اپنی طرف اشارہ کیا۔ یحییٰ خان کو لگتا تھا کہ ایوب خان نہیں بچیں گے مگر ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ،فیلڈ مارشل کی طبیعت رفتہ رفتہ سنبھلنے لگی۔

مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ سے ملاقات کی تصویراخبارات کو جاری کی گئی، لیکن لوگوں کے ذہنوں سے شکوک رفع نہ ہوئے۔ اس کے بعد ٹی وی پر بھی صدرکی مہورت ہوئی لیکن بات بنی نہیں۔ صدرکی بحالیٔ صحت کا یقین لوگوں کواسی وقت آیا جب انھوں نے قوم سے خطاب کیا ،بقول الطاف گوہر ’’یحییٰ خان اور ان کا سازشی ٹولہ اقتدار کی غلام گردش میں جس خاموشی سے داخل ہوا تھا اسی طرح چپکے سے نکل گیا۔

لیلائے اقتدار ان کے پہلو سے آنکھ بچا کر نکل گئی تھی مگر وہ پر امید تھے کہ اقتدار کی منزل اب بہت دور نہیں ہے۔‘‘ صحت یابی کے بعد ایوب خان نے سرکاری فرائض انجام دینے شروع کر دیے، لیکن بقول اصغرخان ،ان میں پہلی سی توانائی نہ رہی اور وہ اپنے ان مشیروں پرزیادہ انحصار کرنے لگے ، جن کی اپنی حیثیت مشکوک تھی۔ ایوب خان نے اپنی ڈائریوں میں بیماری کا ذکر ضرور کیا لیکن سیاسی ریشہ دوانیوں کا حوالہ نہیں دیا ۔

قائد اعظم، غلام محمد اور ایوب خان اس اعتبار سے خوش قسمت تھے کہ وہ زمانہ الیکٹرانک میڈیا اور اینکروں کا نہ تھا وگرنہ ان کی بیماری کی خبریں خوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کی جاتیں۔ الیکٹرانک میڈیا کو آصف علی زرداری اور نوازشریف نے اپنی بیماری کے دوران خوب بھگتا۔ خاص طور سے اول الذکر نے۔ دونوں کی بیماری میں یہ قدر مشترک رہی کہ دونوں سیاسی بحران کے دنوں میں علاج کرانے بیرون ملک گئے،اس واسطے قیاس آرائیوں کا سر اٹھانا لازمی تھا ۔
آصف زرداری میمو گیٹ اسیکنڈل کی وجہ سے شدید دباؤ میں آکر بیرون ملک سدھارے ۔ کسی نے کہا کہ انھیں فالج ہو گیا توکوئی لقوہ کی بات کرنے لگا۔ امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین نے دعویٰ کیا کہ زرداری میمو سیکنڈل کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہیں اور طبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں جب بڑے بڑے صحافی لوگ کہہ رہے تھے کہ آصف علی زرداری وطن واپس نہیں آئیں گے تو معروف صحافیوں میں غالبا ً حامد میر ہی تھے جن کا خیال تھا کہ و ہ ضرور واپس آئیں گے، اور پھر ان کی بات درست ثابت ہوئی ۔

وزیر اعظم نوازشریف کے بیٹوں کا نام پانامہ لیکس میں آنا ،ان کے لیے پریشانی اور خفت کا باعث بنا ۔ قوم سے خطاب میں انھوں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی، ساتھ میں ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا ،جسے اپوزیشن نے مسترد کر دیا۔ ان پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا تھا کہ ایسی خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ان کی طبیعت ناساز ہے، جس کی وجہ پانامہ لیکس کو قرار دیا گیا۔ قیاس آرائیوں کو اس وقت بڑھاوا ملا جب یہ خبر نکلی کہ وزیر اعظم اپنے چیک اپ کے لیے لندن جائیں گے۔ اس پر کسی نے کہا کہ وہ آصف علی زرداری کے دربار میں حاضری دینے گئے ہیں، تو کسی نے فرمایا، اس دورے کا تعلق پانامہ لیکس سے ہے۔ مائنس ون فارمولے کی بات بھی اڑی۔متبادل وزرائے اعظم کے نام بھی پیش کئے جانے لگے۔

شہباز شریف کی پانامہ لیکس کے معاملے میں خاموشی اور نواز شریف کا دفاع نہ کرنے کو دونوں بھائیوں میں اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ یہ افواہ بھی پھیلی کہ شریف خاندان میں سیاسی وراثت کا تنازع پیدا ہوگیا ہے ۔ ایک صاحب نے نواز شریف کی وطن واپسی سے ایک دن پہلے پیش گوئی کی کہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ نوازشریف کے باہر جانے کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ اس پر سوالات اٹھنے ہی تھے ۔ دوسرے یہ کہ جس ملک میں لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں وہاں حکمرانوں کا باہر جا کر علاج کرانا مستحسن عمل نہیں، کاش ہمارے حکمران اس ملک میں صحت کا ایک ہی ایسا مرکز بنا دیں، جہاں اوروں کا نہیں تو کم سے کم ان کا اپنا تسلی بخش علاج تو ہو سکے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے