نظریاتی مملکت اور شخصیاتی سیاست

آج کل پاکستان کے سیاسی افق پرپانامہ لیکس کے انکشافات نے جیسے ہلچل مچادی ہے۔چہ مگوئیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔الزامات ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔بیان بازی ہے جو ہر روز مسائل میں گھری عوام کے سوچ و فکر کو مفلوج کرنے میں آبِ حیات کا کام کرتی ہے۔ایک طرف حزبِ اختلاف کی وہ قیادت ہے جو اپنے صوبوں کے عوام کی حالتِ زار سے غافل اور بے خبرپورے ملک کو غربت و افلاس،ظلم و جبر سے نجات دلانے اور انکے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے میدان میں اترنے کو اللہ کا اشارہ سمجھتی ہے۔بالکل اس شخص کی طرح جو اپنی اولاد کو حالتِ زار میں لاچار اور بے یار و مددگار چھوڑ کر دوسروں کے گھروں میں آسودگی اور خوشیاں بانٹنے کی قسمیں کھارہا ہو۔ اور دوسری طرف حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے وہ ناعاقبت اندیش ہیں جنکو عوام کی یاد نہ تو اس وقت آئی جب چارسدہ میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ نہ ہی اس وقت عوام کا دکھ بانٹنا یاد آیا۔جب لاہور والوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹے اور نہ ہی انکی عوامی محبت اس وقت جاگی جب تھر میں اللہ کی مخلوق، نبیؐ کی امت اور پاکستان کے غریب بچے بھوک و افلاس سے بلک بلک کر مر رہے تھے۔لیکن آج اپنی جان پر جب بن آئی تو انکو اپنی محبوب اور سادہ لوح عوام یاد آئی۔کہ انکے پاس جا کر انکی قوت و ساتھ کا سہارا لے کر مخالفین کے حملوں کا جواب دیا جائے۔

اس سارے منظر کو جب ہم عقل و شعور کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تو اپنے ملک اور غریب عوام کی قسمت پر احساس زخمی اور دل ماتم گسار ہوتا ہے۔ کیونکہ ملک و قوم کے مفاد سے کہیں دور ہم شخصیات کے ذاتی مفاد کی جنگ میں بڑی بے دردی کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔

مدینہ منورہ کی ریاست کے بعد شاید دنیا کے نقشے پر پاکستان ہی ایک ایسی ریاست ہے جسکی بنیاد خالصتا ایک نظرے پر ڈالی گئی۔ا یک ایسا ملک جہاں ھم سب اس نظرے کے نگہبان بن کر آزادی کے ساتھ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کر سکیں۔پر آج کے سیاسی اور مذہبی ماحول کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ شاید بانیانِ پاکستان کے ساتھ ہم نے انتہاء درجے کی بد دیانتی اور دھوکہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔

اے کاش!!! کہ پاکستان جسکا وجود ایک نظرے کے تحت نقشہء عالم پر ابھرا وہاں شاید منشور، نظریات اور قومی فکر اب قصہ ء پارینہ لگتا ہے۔

شاید اس قوم کی محبت کے انداز اور اصول دنیا کے مروجہ اور دین کے بیان کردہ اصولوں سے مختلف ہیں۔یہاں جب محمدﷺ سے محبت اور عشق کا اظہار ہوتا ہے تو اس میں بھی ذاتِ رسول کے عشق میں فکرِ رسول کو بھلا دیا جاتا ہے۔محمدﷺ کے اسوہء حسنہ کا سرِعام عملا مذاق آئے روز اڑایا جاتاہے ۔پرقوم کی دینی حمیت نہیں جاگتی۔ لیکن ذاتِ رسول پرعشق کے دعوؤں میں ایک دوسرے کو دین کے حدود سے نکال دیتے ہیں۔ہم ذاتِ نبی کے عشق میں اسوہء نبی کھو گئے۔ اگر اسوہء محمدﷺ سے عشق کیا ہوتا تو ذاتِ نبی سے عشق اسکا لازمی عنصر تھا مگر ساتھ ساتھ ہم آج کی نفرت بھری فضاؤں کی بجائے پیار و احترام سے بھرے معاشرے کے افراد ہوتے پر شاید یہی ہمارا المیہ ہے کہ افراد کی محبت میں ہم اپنی منزل کھوجاتے ہیں۔ جبھی تو ایک جگہ مجھے مجبورا کہنا پڑا

ہم نہ قوم و وطن نہ ہی رب کے ہوئے
ظلم یہ ہم مگر باقی سب کے ہوئے
رورہے ہو یہاں تم مسلمان کو؟؟
ڈھونڈتی ہے نظر میری انسان کو

یہی شخصی عبادت اور شخصی اطاعت ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ جس قوم کی فکری اسااس اور نظریاتی بنیادیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ اور جس قوم کا دامن اپنے علمی اور نظریاتی خزانے سے عملا خالی ہوجاتا ہے۔ وہ قوم توہمات کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسے میں وہ ہمیشہ اپنے سے طاقتور کو پوجنا شروع کر دیتی ہے اس کے ظلم و جبر کے سامنے اپنی جبین جھکا دیتی ہے۔ ایسے حالات میں شاہ کے قصیدہ خوانوں کی کثرت ہوجاتی ہے ۔ اور پھر شخصیات کی پوجا اور دفاع میں زمین و آسمان ایک کردیا جاتا ہے۔ اور یہی آج کل پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آتا ہے۔

آج ایک طرف وزیرِ اعظم کے نمک خوار ہیں جو کہ وزیرِ اعظم پر لگنے والے الزامات کو حکومتِ پاکستان پر حملہ تصور کرکے اس کے خلاف صف آراء ہیں۔کیونکہ فکر و نظر سے عاری یہ جیالے اس شخصیت کی بقاء میں ہی اپنی بقاء سمجھتے ہیں۔

حالانکہ غور و فکر کا مقام ہے ۔ کہ حضرت عمرؓ جیسے حکمران کے عدل پرجب الزام لگایا جاتا ہے ۔ تو خود حضرت عمرؓ نے بھرے مجمع میں اپنا دفاع کیا۔اسی عمر کے بیٹے پر جب زنا کا جرم ثابت ہوگیا تو سزاوہی دی گئی جو اسلام میں معین ہے۔ ہاں عمرؓ نے کوڑا خود ہاتھ میں لے کر اس غرض سے مارا کہ کہیں مارنے والا اسکو امیرالمومنین کا بیٹا سمجھ کر رعایت نہ کردے۔

حزب اختلاف کی بد نیتی اپنی جگہ لیکن شاہ کے ثناء خوانوں میں ایسا کوئی نہیں جنکی نظر سے یہ یا اس طرح اسلامی حکمرانوں کے کئی ایسے واقعات گزرے ہوں؟؟؟کوئی ایسا نہیں جو شاہ کو یہ بتا سکے کہ آپ پر لگائے گئے الزامات کا جواب دینا آپکی ذمہ داری ہے نہ کہ حکومتِ وقت کی۔

فکر و نظر سے عاری ان وزیروں کے جھنڈ میں کوئی نہیں جو وزیرِ اعظم کو قوم کے سامنے اپنے ہر عمل اور اپنے اوپر لگنے والے ہر الزام کے لئے جوابدہ ہونے کی یاد دہانی کراسکے۔
یہی حال اقتدار سے باہر بیٹھے رہنماؤں اور انکے پیادوں کا ہے۔حقا ئق سے بے نیازجانباز سپاہی اپنے قائد کے فرمانوں کو صحیفے سے کم نہیں سمجھتے ۔انکی آنکھوں کے سامنے بھلے بہنوں کی چادر پامال ہو لیکن قائد کے اس فرمان پر کہ اسلامی فلاحی مملکت ہمارا نصب العین ہے۔آنکھیں بند کرکے ایمان لانا ہی انکے نزدیک وطن پرستی اور قومی محبت ہے قائد اپنے نقطہء نظر اور منشور کی دھجیاں اُڑا کر ان سے جاملے جو کل تک لٹیروں کے سردار تھے۔ لیکن سپاہی اسکو بھی قومی مفاد میں اٹھا قدم قرار دیکر قائد کے گن گانے میں مصروف ہے۔
جبکہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں کامیاب ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی قیادت کو نظریات اور دستور کی کسو ٹی پر پرکھ کر انکا اتباع کیا۔

اے کاش!! تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ ایک مفلس اور مقروض قوم کی نمائندگی کا دم بھرنے والے رہنماء کی اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔جس صوبے کے ستم رسیدہ عوام نے مسیحا سمجھ کر انہیں سر پہ بٹھایا۔ ان غریبوں کے گلی کوچوں میں فلاحی ریاست کا نعرہ لگانے والے مسیحا نے کتنی دفعہ عوام میں اپنی فوج ظفر موج اور کیمروں کے بغیر انکا حال جاننے کے لئے خود جاکر ایک درد منداورسچے قائد کا تاثر دیا؟؟؟؟

اے کاش!! پاکستان کو ایک اقتصادی قوت بنانے والے سے کوئی یہ پوچھے کہ اپنے بیٹوں اور خاندان کے اربوں روپوں سے دوسرے ملکوں کے اقتصاد کو مضبوط کرنے والے اس ملک کے بے حال عوام کو اور کب تک اپنے اقتدار کی سیڑھی بنائے رکھں گے۔

جب تک ہم نظریات کی کسوٹی پر شخصیات کو نہیں پرکھیں گے تب تک مختلف ناموں سے استحصالی طبقے سے جڑی شخصیات غریب اور بد قسمت عوام کو اسی طرح ملک و قوم، مذہب ،ترقی اور تبدیلی کے نام پر لوٹتی رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے