میاں صاحب! کہانی پرانی ہے

تین برس قبل 11 مئی 2013 کو ہونےو الے عام انتخابات، اس لحاظ سے پاکستانی سیاسی تاریخ کے انوکھے، منفرد اور دلچسب ترین انتخابات تھے، کہ ان کی شفافیت پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سمیت تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوں نے سوالات اٹھائے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے کو لے کر صرف پاکستان تحریک انصاف ہی سڑکوں پر نکلی اور عمران خان نے پارلیمنٹ کےباہر مشہور زمانہ 126 روزہ دھرنا دیا۔ جس کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن بنا جس میں "منظم دھاندلی” ثابت نہ ہوسکی۔ مگر زرا سی تحقیق کی جائے تو یہ کہانی، پرانی لگتی ہے۔

برسوں پرانے اخبارت کی فائلوں کو کھنگالا جائے تو 26 برس قبل ہونےو الے اکتوبر 1990 کے عام انتخابات اورمئی 2013 کے عام انتخابات کے دوران اور بعد کی صورتحال میں حیران کن حد تک “مماثلتیں” نظر آتی ہیں۔ جیسے اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی، پولنگ اسٹیشن کی سطح پر آنے والے نتیجے ( فارم 14 ) کی کاپی پولنگ ایجنٹس کو فراہم نہ کرنا اور پنجاب کے مخصوص حلقوں میں ماضی کے انتخابات کی نسبت حیران کن حد تک بڑھا ہوا ٹرن آوٹ اور پھر بعد میں متاثرہ جماعت ( نوے میں پیپلز پارٹی اور دو ہزار تیرہ میں تحریک انصاف) کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں سے متعلق وہائٹ پیپر کی اشاعت، جس میں اعدوشمار سے واضح کیا گیا کہ ریٹرننگ افسران نے کئی حلقوں میں کیسے مبینہ طور پر مرضی کے انتخابی نتائج مرتب کئے۔

ہمارے ہاں میڈیا میں تحقیق نامی کسی چیز کا رواج نہیں اور اکثر مکھی پر مکھی مارنے کو ترجیح دی جاتی ہے، ٹی وی چیلنزنے کے بعد "بھاگ دوڑ ” کی صحافت نے تحقیق کا رہا سہا ” کیڑا "بھی مار دیا ہے۔ پرانے اخبارات کی فائلوں پر سے گرد جھاڑی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بے نطیر حکومت کی برطرفی کے روز یعنی 6 اگست 1990 سے لیکر عام انتخابات کے پولنگ ڈے یعنی 24 اکتوبر 1990 کے دوران چھپنے والی خبروں اور واقعات میں ایک عام قاری سے لیکر پاکستان میں ” انتخابی سائنس ” کو سمجھنے کی کوشش کرنےو الے کسی بھی صحافی کے لئے "دلچسبی” کا بے پناہ "سامان” موجود ہے۔

11 اگست 1990 کے اخبارات میں نئے سیکرٹری الیکشن کمیشن چوہدری شوکت علی کے چارج سنبھالنے کی خبر شائع ہوئی تو دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین کا یہ بیان بھی اخبارات کی زینت بنا۔ "آئیندہ عام انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور "عدلیہ کی نگرانی” میں ہونگے۔ "17 اگست 1990 کے اخبارات نے "نوید” سنائی۔ "بیلٹ پیپرز کی چھپائی اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ہوگی۔ یقینا اس سےمراد پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان ، اسلام آباد اور علاوہ ازیں لاہور، کراچی کے سرکاری چھاپے خانے ہی تھے۔

2 ستمبر کے ایک اخبار میں معروف کالم نگار نذیر ناجی کا کالم شائع ہوا جس میں بے نظیر بھٹو کے کوئٹہ میں دیئے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا گیا کہ انتخابات میں ” دھاندلی ” بڑے پیمانے پر ہوئی تو پیپلز پارٹی سڑکوں پر نکلے گی۔ 28 ستمبر 1990 کے اخبارات نے ” خوش خبری ” سنائی۔ "بیلٹ پیپرز فوج کی نگرانی میں چھاپے جائیں گے۔” اس روز کے اخبارات نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لئے 11 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے اور انتخابات کو پرامن بنانے کے لئے پولنگ کے دن فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اکتوبر کے پہلے ہفتے کے اخبارات کچھ اس قسم کی خبروں سے بھرے ہو ئے تھے۔ ” عام انتخابات میں دھاندلی کے لئے اضافی بیلٹ پیپرز چھاپ لئے گئے ہیں، پی ڈی اے کا الزام”۔ "ایم ڈی پرنٹنگ کارپوریشن پیر مکرم شاہ سے اضافی بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے، پیپلز پارٹی کا الزام”۔ جواباایم ڈی پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان پیر مکرم شاہ کی جانب سے تردید کی خبریں شائع ہوئیں اور پھر چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین کا ایک بیان اخبارات کی ” زینت ” بنا۔ "دھاندلی کی باتیں خیالی ہیں، ثبوت پیش کیا جائے، فوج کی ایک بٹالین بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی نگرانی کر رہی ہے، کوئی چیز پرنٹنگ کارپوریشن کی عمارت سے باہر نہیں جاسکتی، اصل تعداد سے 10 فیصد زائد بیلٹ پیپرز چھاپے ہیں”۔ ( ایک ماہ پہلے یہ بیان آیا تھا کہ سارھے چار کروڑ ووٹرز ( قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے دگنا یعنی نو کروڑ کرلیں ) کے لئے 11 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے جائیں گے۔

پولنگ ڈے سے قبل پیپلز پارٹی ( جو انتخابی اتحاد پی ڈی اے یعنی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہی تھی ) کی جانب سے اخبارات میں اشتہارات شائع ہو ئے۔ ” دھاندلی کیسے روکیں”۔ اشتہار میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پولنگ ڈے کے روز ہوشیار رہنے کا کہا گہا ( 2013 میں ایسے اشتہارات تحریک انصاف کی جانب سے بھی شائع کئے گئے)۔

25 اور 26 اکتوبر کے اخبارات نے جہاں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے اعلانات کئے وہیں بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے یہ بیانات سامنے آئے۔ "یقین ہے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، غلام اسحق خان دھاندلیوں کے ذمہ دار ہیں”۔ 40 سے 50 حلقوں کے انتخابی نتائج ہمارے پولنگ ایجنٹس کی تصدیق کے بغیر جاری کئے گئے، پی ڈی اے دھاندلیوں پر وہائٹ پیپرز شائع کریگی۔ قومی اسمبلی کے 37 حلقوں میں زبردست دھاندلی ہوئی ( 2013 میں پی ٹی آئی نے 35 حلقوں کی بات کی) ۔ ایک اخبار نے 26 اکتوبر کی اشاعت میں اپنے ایک تجزیئے میں سرخی جمائی۔” حیران کن انتخابی نتائج، پی ڈی ے کی یقینی نشستیں ,آئی جے آئی کے کھاتے میں چلی گئیں”۔

انہی دنوں میں اخبارات میں آنے والے جوابی بیانات کچھ یوں تھے۔ بے نظیر کے 13 حلقوں کے متعلق پیش کئے گئے اعدادوشمار غلط ہیں، سرکاری بیان۔ الیکشن کمیشن کو دھاندلیوں کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی، چیف الیکشن کمشنر۔ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی، امریکی غیر ملکی مبصرین کے سربراہ ہیلے فوگلو۔ ( 2013 کے عام انتخابات میں بھی غیر ملکی مبصرین کی رپورٹ کو ” اپنے اینگل ” سے استعال کیا گیا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ غیر ملکی مبصرین نے 2002 کے متنا زعہ ترین انتخابات کو” شفاف ” قرار دیا تھا اور جنرل مشرف کی خوب تعریف کی تھی)۔

30 اکتوبر 1990 کے اخبارات میں ایک خبر چونکا دینے والی تھی۔ "آئی جے آئی نے انتہائی نفاست سے انتخابات میں جعل سازی کی، فرانسیسی مبصرین” ۔ تفصیلات کچھ یوں تھیں۔ "پاکستانی انتخابات کا مشاہدہ کرنے کے لئے آنے والی بین الاقوامی مبصرین کی ٹیم کے فرانسیسی مبصرین نے الزام لگایا ہے کہ آئی جے آئی نے انتہائی نفاست سے انتخابات میں چالبازی اور جعل سازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹیم کے ارکان میں 2 سابق جج اور 2 وکلا شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق فرانسیسی ٹیم نے امریکی ٹیم پر بھی شدید تنقید کی ہے کہ اس نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے سے پہلے ہی اپنی رپورٹ مکمل کرلی اور انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا۔ فرانسیسی ٹیم نے کہا ہے کہ انتخابات میں جعل سازی کی وجہ ہی سے آئی جے آئی کے امیدواروں نے انتخابات میں اتنی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، پیپلز پارٹی کے بیشتر پولنگ ایجنٹوں کو تحریری انتخابی نتائج( فارم 14 ) نہیں دیئے گئے اور پولنگ بیگ لے جانے والے حکام کو راستے میں روک کر پہلے سے مہر لگے بیلٹ پیپرز تھیلوں میں بھرے گئے”۔

عرض صرف یہ ہے کہ 11 مئی 2013 کے ” غیر جانبدارانہ ” انتخابات کی تیسری سالگرہ پر،24 اکتوبر 1990 کے ” منصفانہ” انتخابات سے ، ان کی ” دلچسب ” مماثلتوں کو محض ” اتفاق ” سمجھاجائے۔ اور یہ بھی "دلچسب اتفاق” ہی ہے کہ 1990 اور 2013 کے عام انتخابات کے ” نتیجے” میں، میاں نواز شریف ہی برسرا اقتدار آئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے بے نظیر نے شور مچایا تھا اور اب کی بار عمران نے۔ یوں میاں صاحب کے مقابلے میں ایک کردار بدلا، کہانی ساری، پرانی ہی لگتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے